ملت کو لائحہ عمل کی تلاش

موجودہ حالات میں مسلمانان ہند کا لائحہ عمل کیا ہو؟اس موضوع پر ملک بھر میں مختلف سطحوں پر غوروخوض جاری ہے۔ حال ہی میں نئی دہلی میں ’محفوظ الرحمٰن یادگار لیکچر‘ کے عنوان سے ایک مذاکرہ ہوا جس میں کلیدی خطبہ شیش نارائن سنگھ نے دیا۔ صدارت جسٹس سہیل صدیقی، چیرمین نیشنل کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ جات نے کی اور بجاطور پر نصیحت کی کہ ملت کے مسائل کا حل سیاست میں نہیں تعلیم اور معاش میں ہے۔

مسلم مجلس مشاورت کے صدردفتر میں بھی ایک طویل نشست میں یہی سوال موضوع بحث بنا۔مسلم پرسنل بورڈ کی عاملہ نے گزشتہ ہفتہ جلگاؤں میں منعقد ہ میٹنگ کے بعد ایک بیان جاری کیا۔ جمعیۃ علماء ہند(محمود مدنی) کی عاملہ کی ایک میٹنگ میں بہت تفصیل سے اس مسئلہ پر تبادلہ خیال ہوا۔ دیگر جماعتوں اور قائدین کے تبصرے بھی منظر عام پرآئے۔بہت سے صحافتی کالم شائع ہوچکے اور ہورہے ہیں۔ ان سب کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ مسلم اقلیت جو دہائیوں سے اپنی جان و مال، عزت وآبرو ، معاشرتی اقدار ، روزگار اور عائلی قوانین کے تحفظ کے بارے میں فکرمند تھی،اب کچھ اورزیادہ فکر مند ہوگئی ہے۔ یہ فکرمندی اورتشویش بجا ، مگر ایک دیدہ ور نے بڑی پتہ کی بات کہی ۔ امت مسلمہ تو روز اول سے ہی اغیار کے نشانے پر رہی ہے۔ اس کو مٹانے کی تدبیریں ہرزمانے میں ہوتی رہیں، مگرمٹانے والے خود مٹ گئے اور امت دائم وقائم ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے فکروعمل سے اپنے اسلامی اقدار وشعائرکی حفاظت کریں اور کسی رو میں بہہ نہ جائیں۔یہ بزرگانہ نصیحت بڑی طمانیت بخش ہے۔ تاہم ہوش مندی کا تقاضا ہے کہ ہم جذباتیت سے بچیں اور حکمت سے کام لیں۔

اشتعال انگیزی
مودی سرکار کے چندپیادوں نے حکومت سازی کے فوراً بعد کچھ ایسی باتیں کہیں جن سے اقلیتی حلقوں میں فکرمندی قدرتی ہے۔ نجمہ ہبت اﷲ نے انڈین ایکسپریس کوایک انٹرویو میں کہہ دیا کہ مسلمان اقلیتکہاں؟ حکومت کو ان کی پسماندگی اور درماندگی کی فکر کیوں ہو۔ فکر صرف پارسیوں کی ہوگی۔ نجمہ کے ساتھ پی ایم او رمیں وزیرمملکت جتیندرسنگھ نے دفعہ 370کا راگ الاپا اور دوسرے ہی دن نئے مرکزی وزیر زراعت رادھارمن سنگھ کو یونیفارم سول کوڈ کی ضرورت ستانے لگی اوروزیرمملکت برائے کھیل کود سربانندا سونووال نے آسام میں نام نہادغیرملکی دراندازوں کو حق رائے دہی سے محروم کرنے اور دیش نکالا دینے کا مطالبہ کردیا۔خیال رہے کہ سنگھی فرقہ گول بندی کے لئے آسام اور دیگر ریاستوں میں آباد بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو غیرملکی دراندازکہہ کر دیگرفرقوں کو بھڑکاتے ہیں۔

نجمہ ہبت اﷲ
ہمیں نجمہ ہبت اﷲ کے اندا ز فکر پر حیرت نہیں ہوئی۔ اگروہ اس فکروذہن کی نہ ہوتیں تو کانگریس کئی دہائیوں تک ان کا بوجھ نہ ڈھوتی رہتی کہ ان کی اپنی کوئی سیاسی حیثیت سوائے اس کے نہیں کہ وہ مولانا ابوالکلام آزاد کی دوردراز کی رشتہ دار ہونے کا دعواکرتی ہیں۔ کانگریس نے ان کو طویل مدت تک راجیہ سبھا کا ممبر بنائے رکھا۔ پارٹی میں عہدے دئے اور 16 سال تک راجیہ سبھا کی ڈپٹی چیرمین رہیں۔کانگریس ان کومزید اس منصب پر برقراررکھنے پر آمادہ تھی مگر 2004میں اس لئے ان بن ہوگئی کہ وہ نائب صدرنہیں بنائی گئیں۔چنانچہ وہ بلا تردد بھاجپا میں شامل ہوگئیں۔ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیرتھا۔
اشتعال انگیزی کیوں؟

ایک اہم سوال یہ ہے کہ مودی سرکار جو سب کو ساتھ لیکر چلنے کے دعوے اور بیروزگاری، رشوت ستانی اور مہنگائی کو مٹانے کے وعدوں کے ساتھ برسراقتدارآئی، اس کو ان موضوعات کو چھیڑنے کی ایسی جلدی کیا پڑی تھی؟ اس کا جواب پروفیسر بصیر احمد خان نے’ محفوظ الرحمٰن یادگارلیکچر‘کے دوران دیدیا۔عنقریب کئی ریاستی میں چناؤ ہونے والے ہیں۔اس لئے بھاجپا کی سیاسی ضرورت یہ ہے کہ فرقہ ورانہ بنیادوں پر گروہ بندی کواسمبلی چناؤ تک کمزور نہ ہونے دیا جائے۔

بھاجپا کی نظر یوپی اور بہار پر بھی ہے۔ بدایوں کے واقعہ سے یادو سرکار کے خلاف ماحول سازی شروع ہو گئی ہے۔ مظفرنگر کے فساد سے یوپی میں 80میں سے 71سیٹیں اس کو مل گئیں۔ عجب نہیں کہ چند اور فساد بھڑکائے جائیں،تاکہ امن و قانون کا بہانا بناکر اسمبلی کوتوڑدیا جائے اورنئے چناؤ کا راستہ صاف کیا جائے۔ چنانچہ بدایوں سے یہ سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ایسا ہی کچھ بہار میں بھی ہوسکتا ہے۔ بہار میں لالونے سمجھداری دکھائی جو جے ڈی(یو) کی تائید کا اعلان کردیا۔ یوپی میں ممکن نہیں کہ مایاوتی یادوسرکار کی گرتی ہوئی دیوار کا سہارا بن جائیں۔اس لئے ان دونوں اہم ریاستوں میں بھی بھاجپا کو وہی ماحول درکار ہے جو لوک سبھا چناؤ کے وقت تھا۔مہاراشٹرا میں، جہاں عنقریب چناؤ ہونے والے ہیں پونا میں بدنام زمانہ ہندو سنگٹھن کے کارکنوں نے ناگہانی ایک نوجوان مسلم آئی ٹی انجنیر کو برسرعام مارمارکر ہلاک کردیا تاکہ فرقہ ورانہ ماحول کو گرمایا جاسکے۔ ایک آدھ جگہ سے فساد کی خبراور آئی ہے۔

ہم کیا کریں؟
ان حالات کو پیش نظررکھئے اور غور کیجئے کہ اس ماحول میں ہماری حکمت عملی کیا ہونی چاہئے؟ اشتعال انگریزی کی صورت میں ہمارا ردعمل جذباتی ہوناچاہئے یا سیاسی دانائی سے کام لیاجانا چاہئے؟ دانائی کا تقاضایہ ہے کہ ایسے بیانات اور ردعمل سے بچاجائے جن سے فرقہ ورانہ بنیادوں پر گول بندی مزید مضبوط ہو۔رویہ ایسار اختیارکیا جانا چاہئے کہ چال چلنے والا خود پھنس جائے۔ افسوس یہ ہے کہ مسلم تنظیموں کیجو بیانات اب تک آئے ہیں ان میں انہی تحفظات کی گردان ہے جو گزشتہ 65سال سے ہماراپیچھا کررہے ہیں۔
اشتعال انگیزی بھی شروع کردی گئی ہے۔اردو کے ایک بڑے اخبار نے، جس کو دینک جاگرن گروپ نے خرید لیا ہے، مسلم پرسنل بورڈ کی عاملہ کی خبرپر سرخی لگائی ہے: ’’آئین ہند سے چھیڑ چھاڑ ناقابل برداشت‘‘ ۔حالانکہ یہ بات بورڈ کے پریس اعلانیہ میں دوردورتک بھی نہیں کہی گئی۔ اس خبر کو۲؍جون کو اخبار کی شہ سرخی بنایا گیا ہے۔ افتتاحیہ بھی اس انداز سے بنایا گیا ہے گویا بورڈ نے مودی سرکار کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے۔ہرچند کہبورڈ کے بیان میں پرانی گھسی پٹی باتوں کو دوہرایا گیا ہے، تاہم اس میں ایسا لب لہجہ اختیار نہیں کیا گیا جس کااظہارخبر کی سرخی اورافتتاحیہ سے ہوتا ہے۔یہ کھلی صحافتی بددیانتی ہے یا اسٹاف کی نادانی ہے۔جانی بوجھی شرارت ہم اس لئے نہیں کہیں گے اس گمان کا کوئی ثبوت سردست موجود نہیں۔ صحافت میں سنسی خیزی کا چلن عام ہے۔رپورٹر نے بیشک ایسی غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے جس سے سنسنی پیدا ہوتی ہے۔

یکساں سول کوڈ
آپ سوال کرسکتے ہیں کہ جب حکومت یکساں سول کوڈ لانے کا ارادہ ظاہر کرے تو ہم مسلمان خاموش کیسے رہیں؟ آئے ہم حکومت کو چیلنج کریں کہ پہلے وہ ایک ماڈل سول کوڈ بناکر تو لائے جو سبھی ہندوذاتوں، قبیلوں ،فرقوں بشمول سکھ، جین اوربودھ قبول ہو۔ شمال سے جنوب تک ساری ہندوقومیں جس پر متفق ہوں اورمشرقی باشندے اپنے طورطریقوں کوچھوڑ کر مغربی ہندؤوں کو اپنے لئے آئیڈیل سمجھ لیں۔پہلے سرکار83فیصد ہندو اکثریت کو متفق کرلے، تب ہم سے بات کرے۔ ہمار ے ہندو بھائیوں میں تو حال یہ ہے کہ شمالی ہند میں ایک گوتر میں یا ایک ہی بستی کے لڑکی لڑکے میں شادی قابل گردن زدنی عیب ہے اور شادی کرنے والوں کوقتل کردیاجاتا ہے۔ جب کہ آندھراپردیش اور تمل ناڈو کی کئی برادریوں میں بھانجی پر پہلا حق اسکے سگے ماموں کا ہوتا ہے۔بعض قبائل میں لڑکی کا ہاتھ دینے سے پہلے اس کی ماں لڑکے کی جانچ پڑتال کرتی ہے کہ وہ شادی کے لائق ہے یا نہیں۔ ہندوکوڈ بل میں ایسی دفعات موجود ہیں جن کی بنا پر کتاب میں درج قانون پررواجی قانون کو ترجیح دی جاتی ہے۔ سکھ بھائی باربار مطالبہ کرچکے ہیں کہ ان کوالگ میرج ایکٹ چاہئے۔ عیسائیوں اور پارسیوں کے بھی الگ الگ قانون ہیں۔ کیاایسا سول کوڈبن سکتا ہے جو ملک کی ان سارے تضادات کو نفی کرے اور جبراً اس کو لاگوکردیا جائے؟ہمارے یہاں ایک سول میرج ایکٹ موجود ہے۔جو یکساں سول کوڈ کا قائم مقام ہے۔ مگرکتنیبرادران وطن اس کے تحت شادی کرتے ہیں؟
ہم ان حقائق کو بھول جاتے ہیں اور جیسے ہی کوئی فتنہ پرور’یکساں سول کوڈ‘ کا شوشہ چھوڑتا ہے، بلبلااٹھتے ہیں اور لگتا ہے کہ ساراادبار بس ہم پر ہی آنے والا ہے۔اس سے فتنہ پروروں کا مقصد پورا ہو جاتا ہے۔کیا ہمیں ان کا آلہ کار بن جانا چاہئے؟ ہم پھر کہتے ہیں کہ حکومت زرا یکساں سول کوڈ کا ڈرافٹ بناکرتولائے اور قوم کی اس پررائے لے کہ کتنے فیصد اس پرآمادہ ہیں؟ جوآمادگی ظاہر کریں ان پر وہ قانون لاگوکردیا جائے۔ ایک قانون اور سہی۔

اقلیت کے حقوق
رہا نجمہ ہبت اﷲ کا بیان، توزرا غورکیجئے کہ جن حکومتوں نے مسلمانوں کو اقلیت ہونا تسلیم کیا انہوں نے ہم کو کونسا تحفظ فراہم کیا؟ سلمان خورشید نے اقلیتی امور کا وزیر بنتے ہی ایسا ہی مایوس کن بیان دیاتھا۔ اور پھر رحمٰن خاں سے تو بہت توقعات تھیں، ان کے دور میں کیا ملا کہ نجمہ سے کچھ توقع کی جائے؟ لیکن بہرحال نجمہ کواتنا تومعلوم ہیکہ لسانی اور مذہبی اقلیتوں کواس آئین نے تسلیم کیا ہے جس کا حلف لیکر وہ وزیربنی ہیں۔ وہ اقلیت کی نہ سہی آئین کا توپاس ولحاظ فرمائیں۔ جب تک آئین کو نہیں بدلا جاتا، نجمہ کا فرمایا ہواقانون کا درجہ نہیں پاجائیگا۔

دفعہ 370
اسی طرح دفعہ 370کا معاملہ ہے۔ خصوصی درجہ صرف کشمیر کو ہی حاصل نہیں، کئی اور ریاستوں بعد کی حکومتوں نے خصوصی درجہ دیا ہے۔ دیسی ریاستوں کے انضمام کے وقت بھی الگ الگ معاہدے ہوئے اور سب نافذ ہیں۔ دفعہ 370کو کالعدم کرنا تو ایک پیچیدہ عمل ہوگا، حکومت پہلے دیکر ریاستوں کے خصوصی درجے اور خصوصی معاہدوں کو منسوخ کرکے دکھائے جن پر متعدد ریاستوں میں عمل ہورہا ہے۔ بعد میں دفعہ 370 پر بحث ہو۔

آخری بات
یہ بات پہلے بھی کہی جاچکی ہے اور محفوظ الرحمٰن یادگارلیکچر میں بھی کہی گئی کہ کچھ عرصہ کے لئے مسلم اقلیت صبروتحمل سے کام لے۔گھسے پٹے مطالبوں پر اصرار سے کچھ دن رکے۔ خبریں یہ ہیں کہ مودی کے طریقہ کار سے پارٹی کے اندر سخت بددلی پھیل رہی ہے۔ وزارتوں کے طلب گار سخت مایوس ہیں اور پارٹی میں بقول شخصے گھمسان مچی ہوئی ہے۔ عوام کو بھی اچھے دنوں کا انتظار ہے۔ اگروعدے کے مطابق اچھے دن نہیں آئے اور اقلیت کو مشتعل کرکے ووٹوں کی گول بندی نہ کی جاسکی تو اقتدار کے بھوکے آپس میں دست و گریبان ہوتے ہوئے نظرآئیں گے۔ ہم کیا چاہئے ہیں؟ ہماری مخالفت ان کو متحد کردے، یا ہماری خاموشی اور پوری قوم کے مشترکہ مسائل کے حل پر اصرار ان کو منتشر اور ہندومسلم قوم کو متحد کردے؟(ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 164675 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.