”منی بجٹ بم“ عوام کی زندگی اجیرن کرنے کو تیار

خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ساٹھ فیصد آبادی والے ملک پاکستان میں آئی ایم ایف کی شرائط پر تیار کردہ بجٹ نے عوام کو ریلیف دینے کی بجائے ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا کر ان کی زندگی کو مزید تلخ کردیا ہے۔ دو ڈالر یومیہ سے بھی کم کمانے والے افراد کے لیے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنا تو ناممکن کے قریب تھا ہی، جبکہ خط غربت سے اوپر شمار ہونے والے عوام بھی ٹیکسوں سے مزین بجٹ کے ستم کا اس قدر شکار ہوئے ہیں کہ ان سے بھی بجٹ میں ٹیکسوں کا بوجھ برداشت نہیں ہورہا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ٹیکسوں سے لدے اس بجٹ کو حکومت روایتی انداز میں عوام دوست قرار دے رہی ہے، حالانکہ حقیقت بالکل اس سے مختلف ہے۔ سینئر بینکار اور معاشی تجزےہ نگار کہتے ہیں کہ ہمیشہ کی طرح حکومت کا کہنا ہے کہ ہمارا پیش کردہ بجٹ عوام دوست اور غریب دوست بجٹ ہے، ملازمین کی تنخواہوں میں 10فیصد اضافہ، مزدور کی کم از کم تنخواہ12ہزارروپے ماہانہ، عوام کو 2 کھرب 3 ارب کی سبسڈی دی جائے گی اور بقو ل حکومت ہمارے معاشی ترقی کے ایجنڈے کو قوم کی حمایت حاصل ہے، لیکن یہ کیسی حمایت ہے جس میں عوام اس بجٹ کے خلاف سراپائے احتجاج ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بجٹ کی بارےکیوں کا حقیقی پتا یکم جولائی اور اس کے بعد چلے گا، جب یہ عوام پر اپنے پنجے نکال کر شکنجہ کسے گا اور ضرورت زندگی کی تمام اشیاءمہنگی ہو جائیں گی۔ بجٹ ہندسوں کا ہیرپھیر اور تضادات کا مجموعہ ہے۔ ضعیفوں اور ریٹائرڈ لوگ جنہوں نے اپنی ساری جوانی اپنے اپنے اداروں کو دیے رکھی اور 60 سال کی عمر ہونے پر ان کے اداروں نے انہیں چند ٹکے دے کر مرنے کے انتظار کے لیے چھوڑ دیا، حکومت نے بھی کسی اچھی اور بہتر بچت اسکیم کا اعلان نہیں کیا۔ مہنگائی کے تناسب سے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ سانس لینے اور کچرے سے روٹی اٹھانے کے علاوہ ہرچیز پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ 12 ہزار روپے میں تو ایک بکری نہیں پالی جا سکتی، یہاں گھر چلانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اس پر بھی مزید ستم یہ کہ وفاقی حکومت نے وفاقی بجٹ کی منظوری سے پہلے ہی منی بجٹ کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ حکومت نے بجلی کی قیمت میں 3 روپے یونٹ تک جبکہ گیس کی قیمتوں میں 100 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو تک اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی شرائط کے تحت وفاقی بجٹ میں بجلی پر سبسڈی کے لیے مختص کردہ رقم میں بھی کمی کر دی ہے۔ نیپرا کی طرف سے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی طرف سے رواں مالی سال کے لیے بجلی کی قیمتوں میں مانگے جانے والے اضافے کی بھی نہ صرف منظوری دی جاچکی ہے، بلکہ اطلاق کے لیے نوٹیفکیشن جاری کرنے کے حوالے سے وزارت پانی و بجلی کو تمام ڈیسکوز کے کیس بھجوائے جاچکے ہیں اور اگر حکومت صرف رواں مالی سال کے لیے ہی نیپرا کا منظور کردہ ٹیرف لاگو کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرتی ہے تو اس صورت میں ہی بجلی کی قیمتوں میں تین روپے فی یونٹ تک اضافہ ہوجائے گا۔ دوسری جانب گیس کمپنیوں کی طرف سے گیس کی قیمتوں میں مانگے جانے و الے اضافے کی درخواستوں کی سماعت بھی مکمل ہوچکی ہے اور اوگرا نے اب صرف فیصلہ دینا ہے۔ ذرائع کے مطابق اگرچہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے بھی لائف لائن ٹیرف استعمال کرنے والے اور بجلی کے چھوٹے صارفین پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جائے گا، اسی طرح گیس کی قیمتوں میں متوقع اضافے کا بھی گھریلو صارفین پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔ گیس کمپنیوں کی طرف سے رواں مالی سال 2013-14 کے لیے مانگا جانے والا ٹیرف بھی ابھی لاگو نہیں ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے عوامی ردعمل کے باعث رواں مالی سال کے لیے گیس کمپنیوں کے ٹیرف میں یہ اضافہ روک رکھا ہے۔ اب آئندہ مالی سال 2014-15 کے لیے بھی گیس کمپنیوں نے ٹیرف میں اضافہ مانگا ہے، جس پر اوگرا اپنی سماعت مکمل کرچکا ہے، اگلے مالی سال کے لیے بھی گیس کمپنیوں نے 123 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو تک اضافہ مانگ رکھا ہے اور اگر حکومت دونوں برسوں کے ٹیرف کا اطلاق کرنے کی منظوری دیتی ہے تو یہ اضافہ دو سو روپے فی ایم ایم بی ٹی یو تک پہنچنے کی توقع ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی شرائط کے تحت منی بجٹ کی تیاریاں کر رہی ہے۔ عوام کی زندگی پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے، حکومت منی بجٹ کے ذریعے اس پر مزید ستم ڈھانا چاہتی ہے۔ سبسڈی کی کمی سے بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے سے عوام کی زندگی مزید تلخ ہوجائے گی اور ملک میں جس قدر بھی مہنگائی ہورہی ہے، یہ سارا آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے ہے، ہمارے حکمران آئی ایم ایف سے قرض لیتے ہیں اور آئی ایم ایف اپنا قرض حاصل کرنے کے لیے حکومت کو اشیاءکی قیمتوں میں مہنگائی کرنے کی تجویز دیتا ہے، جس کو ہماری حکومت لازمی مانتی ہے۔ ذرائع کے مطابق بجٹ آنے سے دو ماہ قبل آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان سے آئندہ مالی سال 2014-15 کے وفاقی بجٹ کے ابتدائی خدوخال طلب کیے تھے۔ وفاقی حکومت نے وفاقی بجٹ کے حوالے سے مکمل خدوخال آئی ایم ایف کو پیش کیے تھے، جس کے بعد بجٹ آنے سے صرف دو ہفتے قبل ہی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کی اقتصادی و معاشی کارکردگی پر مکمل اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اس کے بعد پھر حکومت نے آئی ایم ایف کی مرضی سے بجٹ طے کیا اور ایک بار پھر منی بجٹ کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ حالانکہ جہاں پہلے سے ہی مہنگائی کی وجہہ سے دو وقت کی روٹی حاصل کرنا انتہائی مشکل ہو، وہاں آئی ایم ایف کی شرائط کو مان کر بجٹ میں بے بہا ٹیکس شامل کرنا کسی طور بھی درست نہیں ہے اور بجٹ آنے کے بعد اس مہنگائی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق آٹھ ہزار روپے ماہانہ تک آمدنی رکھنے والے طبقے کے لیے گزشتہ ہفتے کے دوران حساس قیمتوں کے اشاریے کے لحاظ سے مہنگائی (افراط زر) کی شرح میں سب سے کم اضافہ ہوا جو کہ 0.03 فیصد ہے، جبکہ آٹھ ہزار ایک روپے ماہانہ سے زاید آمدنی رکھنے والے تمام طبقات کے لیے مہنگائی کی شرح میں 0.04 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں پانچ جون 2014کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران انیس اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ واقع ہوا ہے۔ اسی مہنگائی کے پیش نظر گزشتہ روز سوﺅ موٹو کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے معاملے سے متعلق تمام متعلقہ اداروں اور وزارتوں کو لوگوں کو بنیادی اشیائے ضروریہ کی سستے داموں فراہمی یقینی بنانے اور کیے جانے والے اقدامات کی پراگرس رپورٹ 10 روز میں طلب کرلی ہے۔ دوران سماعت جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ حکومت اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں غفلت کا مظاہرہ کر رہی ہے، ایک طرف اربوں روپے بانٹے جارہے ہیں، جبکہ دوسری طرف عام لوگوں کو بنیادی اشیائے ضروریہ بھی دستیاب نہیں، ورکرز ویلفئر فنڈ اور ای او بی آئی نے اربوں کھربوں روپے اکٹھے کر رکھے ہیں، مگر ان پیسوں سے ورکرز کے لیے سستے مکانات بنانے کی بجائے بڑی بڑی پجیرو اور لگژری گاڑیاں خریدی جاتی ہیں، حکمران بیرون ملک کانفرنسوں میں شرکت کرتے ہیں، فائیو سٹار ہوٹلوں میں عیش و عشرت کر تے ہیں، حالانکہ یہ رقم اتنی ہے کہ اس سے ویلفیئر کے متعدد کام اور کئی شہر بسائے جا سکتے ہیں۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 638630 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.