شب قدر کی قدر کیجئے

اللّہ رب العزت نے اپنے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیاری امت کوجہاں دیگر خصوصیات سے نوازا ہے وہیں ایک خصوصیت’’ شب قدر‘‘ بھی ہے ۔ خصوصیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ رات پہلے کسی دوسری امت کو عطا نہیں کی گئی۔باری تعالیٰ نے یہ خاص فضل وکرم صرف اُمت مصطفی پرفرمایاہے۔ویسے تو اس کاکرم ہر آن ،ہر گھڑی جاری وساری ہے۔ا س کا کرم نہ ہوتو کائنات ویران ہوجائے ……مگر کریم مولی عزوجل کی نوازشوں کا جو انداز شب قدر میں ہوتا ہے وہ کسی اور رات میں نظر نہیں آتا۔ برکت ورحمت سے بھر پور اس رات میں باری تعالیٰ نے اپنا بے مثل کلام نازل فرمایااور اس ایک نعمت سے کتنی ہی نعمتوں کے دروازے کھل گئے،زبانِ خلق کلام باری سے مشرف ہوئی،قلب انسانی کتاب رحمانی کا محافظ بن گیا،سینہ بشریت ملکوتی ولاہوتی اسرار کا محرم راز بن گیا اور پیکر انسانی وحی الہی کے فانوس سے جگمگا اٹھا۔اس رات کے عبادت گزاروں پر غروب آفتاب سے صبح چمکنے تک نورورحمت کی بارش ہوتی رہتی ہے اور یہ منظر دیکھنے کے لئے فرشتے آسمانوں سے قطاردرقطار اترتے ہیں۔

جبریل وملائکہ کاسلام ومصافحہ:
لاکھوں سال عبادت کرنے والے فرشتے اور امام الملائکہ حضر ت جبریل امین علیہ السلام اس ایک رات میں عبادت کرنے والوں پرسلام بھیجتے ہیں اور ان سے مصافحہ فرماتے ہیں۔تفاسیر میں ہے کہ شب قدر میں عبادت کرنے والے بندے کو جب حضرت جبریل امین علیہ السلام آکر سلام کرتے ہیں اور اس کے ساتھ مصافحہ فرماتے ہیں تو اس پرخوف وخشیت کی ایک خاص کیفیت طاری ہوجاتی ہے، آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں اور اس کے جسم کا ایک ایک رونگٹا کھڑا ہوجاتا ہے۔حضرت امام فخرالدین رازی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :’’فرشتوں کا سلام امن وسلامتی کی ضمانت ہے ۔حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام پرصرف سات فرشتوں نے سلام بھیجاتو ان پر نارِ نمرودٹھنڈی وسلامتی والی ہوگئی اور شب قدر کے عبادت گزاروں پرتو بے شمار فرشتے سلام بھیجتے ہیں توکیوں نہ امید کی جائے کہ ان پر نار جہنم امن و سلامتی والی ہوجائے گی۔‘‘(تفسیر کبیر ،ج۱۱،ص۲۳۶۔شرح صحیح مسلم،ج۳،ص۲۱۷)

لیلۃ القدر کوشبِ قدرکہنے کی وجوہات :
اس رات کو شب قدر کہنے کی درج ذیل وجوہات ہوسکتی ہیں:﴿1﴾ لفظ قدر کا ایک معنی ’’ مرتبہ‘‘ہے ، اس رات کو شب قدر اس لئے کہتے ہیں کہ سال کی باقی راتوں کے مقابلے میں یہ زیادہ بلند پایہ اور عظیم مرتبے والی رات ہے۔﴿2﴾یا اس لئے کہ اس رات میں عبادت کی قدرو منزلت باقی راتوں کی نسبت ہزار مہینوں کی راتوں سے بھی زیادہ ہے۔﴿3﴾یااس سبب سے کہ اس رات میں عبادت کرنے والوں کی قدرباری تعالیٰ کے ہاں باقی ر اتوں میں عبادت کرنے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔﴿4﴾ قدر کا لفظ’’ قضا و قدر‘‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ،چونکہ فرشتوں کواس رات انسان کی ایک سال کی تقدیر کا قلمدان سونپ دیا جاتا ہے اس لیے اس رات کو شب قدر کہتے ہیں۔﴿5﴾ قدر کا ایک معنی ’’تنگی ‘‘بھی ہے، چونکہ فرشتے اس رات میں بڑی کثرت سے زمین پر اترتے ہیں حتی کہ زمین تنگ ہوجاتی ہے ،اس وجہ سے بھی اس رات کو شب ِقدر کہتے ہیں۔(ماخوذ ازمقالاتِ سعیدی،ص۳۶۵)

شب قدر کیوں عطا ہوئی:
بنی اسرائیل میں ایک نیک خصلت بادشاہ تھا ۔ اﷲ تعالیٰ نے اسے ایک ہزار لڑکے عطا فرمائے۔ وہ اپنے ایک شہزادے کو اپنے مال کے ساتھ لشکر کے لئے تیارکرتا اور اسے راہِ خدامیں مجاہد بنا کر بھیج دیتا ۔ وہ ایک مہینے تک جہاد کرتا اور شہید ہوجاتا پھر دوسرے شہزادے کوتیار کرکے بھیجتااور ہر ماہ ایک شہزادہ شہید ہوجاتا۔اِس کے ساتھ ساتھ بادشاہ خود بھی رات کو قِیام کرتا اور دِن کو روزہ رکھا کرتا۔ایک ہزار مہینوں میں اس کے ہزار شہزادے شہید ہوگئے۔پھر خود آگے بڑھ کر جہاد کیا اور شہید ہوگیا۔لوگوں نے کہا کہ اِ س بادشاہ کا مرتبہ کوئی شخص نہیں پا سکتا ۔توخالق کائنات نے یہ آیتِ مبارکہ نازِل فرمائی:’’لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌمِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ(ترجمہ: شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے)یعنی اس بادشاہ کے ہزار مہینوں سے جو کہ اِس نے رات کے قِیام، دِن کے روزوں اور مال ،جان اور اولاد کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرکے گزارے اس سے بہترہے ۔ (تفسیر قرطبی ، ج۲۰ ،ص۱۲۲)

ایک روایت یہ ہے کہ ایک بارحضور نبی رحمت،شفیع اُمت صلی اﷲ علیہ وسلمنے یہ تذکرہ فرمایا کہ’’ حضرت شمعون (رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ )نے ہزار ماہ اس طر ح عبادت کی کہ رات کو قیام کرتے اور دن کو روزہ رکھتے اور ساتھ ساتھ راہِ خدا میں کافروں سے جہادبھی کرتے۔ ‘‘حضرات صحابہ کرام علیہم الرضوان جو کہ دن رات حصولِ عبادت اور بھلائیوں میں سبقت کے لئے کوشاں رہتے تھے ،انہوں نے جب ان طویل عبادتوں کاذکر سنا توان کو حضرت شمعون رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کی ایک ہزارسال کی عبادت اورجہاد پر بڑا رشک آیا اور وہ بارگاہِ رسالت میں عرض گزار ہوئے کہ’’یارسول اﷲ !ہمیں تو بہت تھوڑی عمریں ملی ہیں ۔اس میں سے بھی کچھ حصہ نیند میں گزرتا ہے تو کچھ طلب معاش میں،کھانے پکانے میں اور دیگر امور میں بھی کچھ وقت صرف ہوجاتا ہے ،لہٰذا ہم تو اس طرح کی عبادت کر ہی نہیں سکتے اور یوں بنی اسرائیل ہم سے عبادت میں بڑھ جائیں گے۔‘‘اس پر اﷲ تعالیٰ نے سورۂ قدر نازل فرما کر تسلی دی کہ’’اے محبوب ہم نے آپ کی امت کو ہر سال میں ایک ایسی رات عطا فرمادی ہے کہ اگر وہ اس رات میں میری عبادت کریں گے تو حضرت شمعون (رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ )کی ہزار مہینوں کی عبادت سے بھی بڑھ جائیں گے۔(تفسیر عزیزی ،ج۴،ص۴۳۴)گویا کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بتادیا:’’ تمہاری عمر نہیں بڑھ سکتی اجر تو بڑھ سکتا ہے، ہزار ماہ کی طویل عمر نہ سہی ہم تمہیں ایک ہی رات میں ہزار ماہ کا اجر دے دیتے ہیں۔‘‘سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم

رحمت عالَم صلی اﷲ علیہ وسلم اور بزرگوں کی شبِ قدر:
جب رمضان کریم کے آخری دس دِن آتے توحضوررحمۃ للعالمین صلی اﷲ علیہ وسلم عبادت پر کمربستہ ہوجاتے ،ان میں راتوں کو شب بیداری فرماتے اور اپنے گھر والوں کو بھی شب بیداری کرواتے ۔(سنن ابن ماجہ، ج ۲ص ۳۵۷)اور ایسا کیوں نہ ہوتا جب کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلمنے ارشاد فرمایا:’’تمہارے پاس ایک مہینہ آیا ہے ، جس میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جوشخص اس رات سے محروم رہ گیا ،گویاتمام کی تمام بھلائی سے محروم رہ گیااوراس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا مگر وہ شخص جو حقیقت میں محروم ہو۔‘‘(سنن ابن ماجہ،ج۲،ص۲۹۸)نیزہم گناہگاروں کی ترغیب وتحریص کے لئے ارشادفرمایا:’’جس نے اِس رات میں ایمان ا ور اِخلاص کے ساتھ قیام کیا تو اس کے عمر بھر کے گزشتہ گناہ معاف کردئیے جائیں گے ۔‘‘ (صحیح بخاری، ج۱ ،صفحہ ۶۶۰)اگر پوری رات قیام نہ کر پائیں تو کم از کم عشاء وفجر باجماعت ادا کرلیجئے کہ حضورنبی رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جس نے عشاء کی نماز باجماعت ادا کی گویا اُ س نے آدھی رات قیام کیا اور جس نے فجر کی نماز باجماعت پڑھی گویا اس نے پوری رات قیام کیا ۔‘‘(صحیح مسلم ،ص۳۲۹،الحدیث: ۶۵۶)……اور ایک موقع پرتو واضح طور پر ارشاد فرمادیا:’’جس نے عشاء کی نماز باجماعت پڑھی تحقیق اُس نے شب قدر سے اپنا حصہ پالیا۔‘‘(الجامع الصغیر ، ص ۵۳۲،الحدیث:۸۷۹۶) مفسر قرآن حضرت علامہ اسماعیل حقی حنفی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ بیان کرتے ہیں کہ بزرگانِ دین رحمہم اﷲ تعالیٰ آخری عشرے کی ہر رات میں دورکعت نفل شب قدر کی نیت سے پڑھا کرتے تھے ۔ نیز بعض حضرات سے منقول ہے کہ ’’ جو ہررات دس آیات شب قدرکی نیت سے پڑھ لے تو اس کی برکت اور ثواب سے محروم نہ ہوگا۔‘‘(روح البیان ، ج۱۰، ص۴۸۳)

شب قدر کومخفی رکھنے میں حکمتیں:
اﷲ تعالیٰ اورحضور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلمنے واضح طور پر شب قدر کومتعین نہیں فرمایااو راس مقدس رات کو مخفی وپوشیدہ رکھا،اس کی درج ذیل وجوہات وحکمتیں ہوسکتی ہیں :﴿1﴾…… شب قدر کو اس لیے آشکارا نہیں کیا تاکہ اُمت میں ذوق تجسس اور گرمی عمل برقرار رہے۔﴿2﴾…… اگر لیلۃ القدر کو ظاہر کیا جاتا تو لوگ عام طور پر اسی رات کی عبادت پر اکتفا کرلیتے او ر راہ عمل مسدور ہوجاتی﴿3﴾…… اﷲ تعالیٰ کو اپنے بندوں کا جاگنا اور اسے یاد کرنا زیادہ محبوب ہے، عدم تعیین کے سبب لوگ شب قدر کی تلاش میں متعدد راتیں جاکر گزاریں گے ،اس لیے اسے مخفی رکھا۔﴿4﴾…… امام فخرالدین رازی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: اگر شب قدر کو معین کردیا جاتا تو جس طرح اس رات میں عبادت کا ثواب ہزار ماہ کی عبادت جتنا ہوتا اس طرح اس میں گناہ بھی ہزار درجہ بڑھ جاتا۔لہٰذا اﷲ تعالیٰ نے اس رات کوپوشیدہ رکھا تاکہ اگر کوئی شخص اس رات کو پا کر عبادت کرے تو اسے ہزار ماہ کی عبادتوں کا ثواب مل جائے لیکن اگر کوئی شخص غفلت اور جہالت سے اس رات میں کوئی گناہ کربیٹھے تو تعین کا علم نہ ہونے کی وجہ سے لیلۃ القدر کی عظمت مجروح کرنے کا گناہ اس کے ذمہ نہ آئے۔(ملخص ازمقالاتِ سعیدی،ص۳۶۷)

شب قدرکے نوافل اوروظائف:
نورونکہت سے معمور اس مقدس وبابرکت رات میں کثیر مسلمان نوافل ومستحبات اور اورادووظائف کا اہتمام کرتے ہیں ،صد مرحبا!مگر ایسوں کو دیکھنا چاہیے کہ کہیں ان کے ذمہ فرائض وواجبات تو نہیں ہیں ؟حقوق اﷲ وحقوق العباد سے تو کچھ باقی نہیں ہے؟اگرہے جیسے قضانمازیں ذمے رہتی ہیں تو شب قدر میں ترجیحی بنیاد پر پہلے انہیں ادا کریں کیونکہ جب تک فرائض پورے نہیں ہوتے نفلی عبادات معلق رہتی ہیں یعنی مقام قبولیت تک نہیں پہنچتیں۔بہر حال اس شب میں نوافل ووظائف کی فضیلت وارد ہے ۔یہاں چند روایات ذکر کی جاتی ہیں :
﴿1﴾حضرت فقیہ ابوا للیث سمر قندی حنفی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے ارشادفرمایا: ’’شب قدر کی نفل نمازکم از کم دو رکعت ہے اور زیادہ سے زیادہ ہزاررکعت ہے اور درمیانہ درجہ دو سو رکعت ہے اورہررکعت میں درمیانے درجہ کی قرات یہ ہے کہ سورۂ فاتحہ کے بعد ایک مرتبہ سورہ قدر اور تین مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھے اورہر دورکعت کے بعد سلام پھیرے اور سلام کے بعدحضورامام المرسلین ،شفیع المذنبین صلی اﷲ علیہ وسلمپردرود شریف بھیجے اور پھر نماز کے لئے کھڑا ہوجائے یہاں تک کہ اپنادوسورکعت کایا اس سے کم یا اس سے زیادہ کاجوارادہ کیا ہو پورا کرے تو ایسا کرناقرآن وسنت میں وارداس شب کی جلالت ِقدر اور قیام کے لئے اسے کفایت کرے گا۔‘‘(روح البیان ، ج۱۰، ص۴۸۳)
﴿2﴾ایک روایت میں ہے کہ’’ جو شب قدر میں اخلاص کے ساتھ نوافل پڑھے گااس کے اگلے پچھلے گناہ معاف ہوجائیں گے۔‘‘ (المرجع السابق ،ص۴۸۰)(نوٹ:یاد رہے کہ یہاں صغیرہ گناہوں کی معافی کا بیان ہے جبکہ کبیرہ گناہ توبہ سے معاف ہوتے ہیں)
﴿3﴾ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی :’’یارسول اﷲ !اگر مجھے شب قدر کا علم ہوجائے تو کیا پڑھوں؟‘‘ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلمنے ارشاد فرمایا:یہ دعا ء ما نگو:اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیترجمہ:اے اﷲ !بے شک تُو معاف فرمانے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے لہٰذا مجھے بھی معاف فرمادے۔(سنن ترمذی ،ج ۵،ص ۳۰۶)
﴿4﴾ امیر المومنین حضرت علی المرتضی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں:’’جو شخص شب قدر میں سورۂ قدر (اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ،پوری سورت) سات بار پڑھتا ہے اﷲ تعالیٰ اسے ہر بلا سے محفوظ فرمادیتا ہے اورستر ہزارفرشتے اس کے لئے جنت کی دعاء کرتے ہیں اور جو کوئی (سال بھر میں جب کبھی ) جمعہ کے دن نمازِ جمعہ سے پہلے تین بارسورۂ قدر پڑھتا ہے اﷲ ربُّ العزت اس روز کے تمام نماز پڑھنے والوں کی تعداد کے برابر اس کے لئے نیکیاں لکھتا ہے۔‘‘ (نزہۃ المجالس ،ج۱ ،صفحہ ۲۲۳)

رب کریم اپنے کرم کے صدقے ہمیں رمضان کریم کے سحروافطار کی بہاریں دکھائے ،دن روزے میں اور رات قیام میں صرف کرنے کی توفیق بخشے ، ماہِ صیام میں دوزخ سے رہائی پانے والوں میں ہمارا شمار فرمائے،شب قدر کی تلاش میں اعتکاف کی سعادت سے بہرہ مندہ فرمائے،شب قدر کی عبادات اور برکات سے وافر حصہ عطا فرمائے اور حقیقی معنوں میں شب قدر کی قدر نصیب فرمائے ۔امین

Asif Raza
About the Author: Asif Raza Read More Articles by Asif Raza: 16 Articles with 24174 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.