نواز زرداری ملاقات۔۔۔ امیدیں ، توقعات، اندیشے

ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت پنپے، آگے بڑھے اور جمہوریت ترقی کرے۔ اسی کے ذریعے پاکستان کے عوام کو خوشحالی ہوسکتی ہے۔ آپ نے آٹھ سالہ ڈکٹیٹر شپ دیکھ لی ہے جس کے دوران سوائے ذلت اور رسوائی کے اس قوم کو کچھ نہیں ملا۔ نواز شریف نے لندن سے واپسی پر اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں ان خیالات کا اظہار کیا تھا۔ اس سے پہلے پاکستان مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف نے کہا تھا کہ مثیاق جمہوریت کاغذ کا ایک پرزہ بن کر رہ گیا ہے اور پارلیمنٹ کی ذمہ داریاں دوسرے ادارے پوری کر رہے ہیں جبکہ پارلیمنٹ صرف دیکھ رہی ہے۔ ان بیانات کی روشنی میں نواز شریف اور صدر آصف زرداری کی ملاقات سے بہت سی امیدیں اور توقعات وابستہ تھیں۔ ایوان صدر میں ہونے والی ملاقات، گفت، نششت، برخواست کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔ اس ملاقات کا بہت انتظار تھا۔ لیکن وہ جو کہا گیا ہے کہ بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا، جو چیرا تو اک قطرہ خون نکلا۔ اگر میاں صاحب کو یہی نصحیت کرنی تھی کہ پیپلز پارٹی کی حکومت شفاف طرز حکمرانی کو اپنائے تاکہ موجودہ سیاسی نظام کو ناکام ہونے سے بچایا جائے۔ تو یہ سب کچھ تو میاں صاحب پہلے بھی کہہ رہے تھے۔

اس ملاقات میں کیا زیر بحث آیا اس سے زیادہ وہ اہم ہیں جو زیر بحث نہیں آئے۔ راجہ ظفر الحق کہتے ہیں کہ دونوں رہنماؤں کی بات چیت میں متنازع قومی مصالحتی آرڈینس اور پاکستان کے لیے امریکی امداد سے متعلق کیری لوگر بل زیرِبحث نہیں آیا۔ این آر او اور کیری لوگر کا نام لینے سے نکاح ٹوٹ سکتا ہے۔ اس لئے اس کا نام تک نہیں لیا گیا۔ جس طرح اس ملاقات میں جن اہم مسائل پر بات نہیں کی گئی وہ قابل ذکر ہیں اسی طرح اس ملاقات میں شرکت کرنے والوں سے زیادہ وہ اہم ہیں جنہوں نے شرکت نہیں کی۔ اس ملاقات کے حوالے سے دونوں اطراف کی ٹیم میں ایک ایک تبدیلی کی گئی۔ مسلم لیگ (ن) کے وفد میں چودھری نثار علی خان کی جگہ مخدوم جاوید ہاشمی اور پیپلز پارٹی کی جانب سے رحمٰن ملک کی جگہ مخدوم امین فہیم کو شامل کیا گیا۔ مبصرین صدر زرداری اور نواز شریف کے درمیان ملاقات کے وقت وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، مسلم لیگ کے سینئیر رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان اور شہاز شریف کی غیر حاضری پر بھی تعجب کا اظہار کر رہے ہیں۔ دونوں رہنماؤں نے دارالحکومت میں آرمی چیف سے ملاقات کی تھی۔ جس پر مسلم لیگ نون کے قائد میاں محمد نواز شریف نے کہا تھا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ شہباز شریف اور چوہدری نثار کو آرمی چیف سے چھپ کر ملنے نہیں جانا چاہیے تھا بلکہ اگر سیکیورٹی امور پر ہی بات کرنا مقصود تھی تو سب کے سامنے جایا جاسکتا تھا۔ چودھری نثار علی خان حالیہ دنوں میں صدر زرداری پر پارلیمان کے اندر اور میڈیا میں شدید تنقید کرتے رہے ہیں۔ جب کہ وزیر اعظم گیلانی خصوصاً کیری لوگر بل کی بعض شقوں پر بظاہر ویسے ہی تحفظات کا اظہار کرتے آئے ہیں جن کا اظہار فوجی قیادت کر چکی ہے ایوان صدر اور امریکی عہدے دار اس بات پر ہم زبان و ہم خیال ہیں کہ ساڑھے سات ارب ڈالر کے امریکی امداد کے بل پر خدشا ت بلاجواز ہیں اور یہ دونوں ملکوں کے درمیان مضبوط اور طویل المدتی تعلقات کی بنیاد بنے گا۔ ملاقات سے چند گھنٹے پہلے اسلام آباد میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے نواز شریف نے اس توقع کا اظہار کیا تھا کہ اگر متنازع قومی مصالحتی آرڈینس یعنی این آر او، سترھویں ترمیم اور کیری لوگر بل پر مسلم لیگ (ن) کے تحفظات دور کیے جانے کی یقین دہانی کرائی گئی تو وہ اسے یقیناً ایک بڑی پیش رفت سمجھیں گے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ طے پا گیا ہے۔ مبصرین کے مطابق فریقین کے بیانات میں تو کوئی بڑی بات سامنے نہیں آئی لیکن ملاقات کے بعد مسلم لیگ (ن) کے رہنما بظاہر جس طرح مطمئین نظر آئے اس سے ایسا لگتا ہے کہ دونوں کے درمیاں کوئی در پردہ معاملہ طے پا گیا ہے جس کی تفصیل دونوں فی الحال ذرائع ابلاغ کو بتانا نہیں چاہتے۔ دونوں رہنماؤں میں ججوں کی بحالی پر اختلافات کے بعد پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم کر کے گورنر راج نافذ کرنے کے بعد پیدا ہونے والے سخت اختلافات کے بعد سترہ جولائی کو رائیونڈ میں ملاقات ہوئی تھی۔ جس کے بعد تین ماہ سے زیادہ عرصے کے بعد اب دوبارہ ملاقات ہوئی ہے۔

اس ملاقات میں آئین میں تمام غیر جمہوری شقیں میثاق جمہوریت کے مطابق ختم کرنے اور مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ دونوں رہنماؤں میں یہ 11ویں ملاقات تھی٬ دونوں رہنماؤں میں 101 روز بعد یہ ملاقات ہوئی ہے۔۔ دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ آئین میں ترامیم میثاق جمہوریت میں طے شدہ اصولوں کے مطابق کی جائیں گی۔ ترامیم سیاسی پارٹیوں کو اعتماد میں لے کر کی جائیں گی٬ دونوں رہنماؤں نے عسکریت پسندی کو قومی سلامتی کے لئے بڑا چیلنج قرار دیا ہے اور اس سے فوری اور مؤثر طور پر نمٹنے کی ضرورت پر زور دیا۔ صدر زرداری اور میاں محمد نوازشریف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج٬ دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوام کی قربانیوں کو سراہا ہے٬ ملاقات کے دوران آئینی اصلاحات٬ میثاق جمہوریت٬ بلوچستان کی صورتحال٬ دہشت گردی کے خلاف جنگ٬ معاشی خودمختاری کے حصول اور احتساب کے نظام کو مؤثر بنانے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا دونوں رہنماؤں نے تمام معاملات میثاق جمہوریت کے مطابق حل کرنے پر اتفاق کیا۔ ملاقات میں پیپلز پارٹی کے ایک رہنما نے کہا کہ ”میاں صاحب“ آپ کے ساتھی اندھیروں میں عسکری قیادت سے ملاقاتیں کر رہے ہیں مگر دن کی روشنی میں جمہوریت کو مضبوط بنانے کے لئے ہونے والی ملاقات میں شرکت نہیں کرتے۔‘ ایک اور سوال کے جواب میں نواز شریف نے جواب میں کہا کہ وہ حکومت گرانے کی کسی کوشش کا حصہ نہیں بنیں گے‘ البتہ پیپلز پارٹی کے طرز حکمرانی کی وجہ سے حکومت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ چھری خربوزے پر گرتی ہے یا خربوزہ چھری پر گرتا ہے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 391848 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More