ہندوستان کا ضلع مظفر نگر(یو پی) ۔ میرا آبائی وطن

(مصنف کی کتاب شیخ محمد ابراہیم آزادؔ۔شاگردِ رشید استاذ الشعراء افتخارالملک سید وحید الدین احمد بیخودؔ دہلوی جانشیں فصیح الملک داغ ؔدہلویشخصیت وشاعری سے موخوذ)

مظفر نگر ہندوستان کے یو پی (اتر پردیس) کا ایک ضلع ہے، یہ شمالی مغربی اضلاع میں شمار ہو تا ہے۔مظفر نگر کی چار تحصیلیں بڑھانہ ، کیرانہ، جھنجانہ اور شاملی ہیں۔اس کی آبادی مسلمانوں اور ہندوں پر مشتمل ہے۔ اس کے اطراف نزدیک ترین شہروں میں بجنور، کرنال، پانی پت، ہسار، ہریانہ، روھتک، بڑہانہ،میرٹھ، سہارنپور، آگرہ، اور دیوبند واقع ہیں۔ خاندان باری بخش(حسین پور) کے بے شمار گھرانے آج بھی مظفر نگر اور اس کے گرد و نواح کے قصبوں اور دیہاتوں میں آباد ہیں۔مبشر احمد واحدی نے اپنی تحقیق ’’گلشن واحدی ‘‘ میں قصبہ بڑھانہ ضلع مظفر نگر کے بارے میں تحریر کیا کہ ’’ قصبہ بڑھانے میں ہر قسم کے لوگ بکثرت آباد تھے ۔آب و ہوا خوشگوار ، علاقہ بارونق اور پرُ فضا تھا۔ دکانوں کا تو ذکر کیا منڈی میں باون مہاجن فقط ہنڈی والے تھے۔ لین دین میں ہنڈی کا کاروبار ایسا تھا جیسا آج کل بنک سر انجام دیتے ہیں۔ شاہان مغلیہ کے دور میں یہ قصبہ دارالقضا، دار لا فتا اور دارالعلم تھا۔ ’دارالقضا ‘یعنی بذریعہ قاضی مقدمات کے فیصلوں کا مرکز، ’دارالفتا‘ جہاں سے بذریعہ مفتی سند فتویٰ حاصل کی جاتی تھی، ’دارلعلم ‘ یعنی رائج الوقت تعلیم کا مرکز۔چونکہ باشندگا ن علاقہ کو علما ، فقہا اور صوفیہ کی صحبت حاصل تھی اس لیے عرصۂ دراز سے مظفر نگر نہایت مر دم خیز علاقہ مشہور ہے۔ یہاں سے بڑی بڑی نامور ہستیاں وجود میں آئیں‘‘ ۔

حضرت شاہ ولی اﷲکا مولد مظفر نگر کا موضع ’پھلت‘ تھا، اسے قریہ اولیاء بھی کہا جاتا ہے۔معروف عالم دین حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ۱۸۶۳ء مطابق ۱۲۸۰ھ میں بمقام قصبہ تھانہ بھون، ضلع مظفر نگر میں پیدا ہوئے، وہ اپنے والد کی جانب سے فاروقی اور والدہ کی جانب سے علوی تھے۔ابتدائی تعلیم تھانہ بھون اور میرٹھ میں حاصل کی۔احمد حمید نے اپنے مضمون ’’حکیم الا امت مولانا اشرف علی تھانوی ‘‘ میں حکیم الا امت کی ولادت و سیادت کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’ہندوستان میں مسلمانوں کی حکمرانی سے قبل راجہ بھیم سنگھ نے ضلع مظفر نگر میں ایک قصبہ اپنے نام سے بسایا جو ’’تھانہ بھیم‘‘ کہلایا۔پھر مسلمانوں کی آمد و سکونت پر اس کا نام ’’محمد پور ‘‘ رکھا گیامگر یہ نام مقبول و مشہور نہ ہوا اور وہی پرانا نام معروف رہا۔البتہ تھانہ بھیم سے ’’تھانہ بھون‘‘ ہوگیا۔آگرہ شہر کے نواح میں واقع یہ چھوٹا سا قصبہ اپنی مردم خیزی میں مشہور چلا آرہا ہے اور یہاں کے مسلمان شرفاء اہل شوکت و وقوت اور صاحب فضل و کمال رہے ہیں ۔ مجد دالملتہ حضرت شاہ اشرف علی تھانوی قدس سرہ کے اجداد نے آج سے صدیوں قبل تھانیسر ضلع کرنال سے نقل سکونت کرکے تھانہ بھون میں اقامت اختیار کی تھی‘‘۔

پاکستان کے اولین وزیر اعظم شہید ملت خان لیا قت علی خان کا تعلق بھی مظفر نگر سے تھا۔ کہا جاتا ہے لیاقت علی خان کے سلسلہ ٔ نسب شہرۂ آفاق ایرانی بادشاہ نوشیر وان عادل سے ملتا ہے۔ آپ کے آباؤ اجداد نے ایران سے ہجرت کر کے ہندوستان کو اپنا مسکن بنا یا۔ جب آگرہ اکبر آباد بنا تو اس خاندان کے چند افراد نے بھی پایۂ تخت کو جا بسایا اور بعض ہندوستان کے ضلع مظفر نگر منتقل ہوگئے جہاں انہیں جاگیریں عطا کی گئی تھیں۔انیسویں صدی عیسویں کے شروع میں مغل سلطنت زوال پزیر ہوئی اور برطانوی حکومت زور پکڑ رہی تھی ، اس خاندان والوں نے مظفر نگر کو بھی خیر باد کہا اور کرنال میں سکونت اختیار کی کیونکہ ان دنوں وہاں کی فضازیادہ سازگار اور ماحول زیادہ دلپزیر تھا۔ مظفر نگر سے کرنال منتقل ہونے والوں میں سے ایک نوجوان نواب احمد علی خان کا خاندان بھی تھا۔نواب احمد علی خان نے کرنال کے قریب راجپورہ ضلع سہارنپور کے ایک نواب ماہر علی خان کی صاحبزادی سے شادی کر لی موصوف ذوقِ علم و ادب رکھنے کے علاوہ فن سپہ گری میں بھی خاص مہارت رکھتے تھے۔ ان کی شہرت و نیکنامی کا حال سن کر سرکارِ انگلشیہ نے ان کا اچھی طرح نوازا۔ ’’رکن الدولہ ‘‘،’’ شمشیر جنگ‘‘ اور’’ نواب بہادر‘‘ کے خطابات کے علاوہ انہیں مزید جاگیریں عطا کیں اور اپنے مشیران میں شامل کرلیا۔ان کے انتقال کے بعد سرکاری خطابات ان کے بڑے بیٹے عظمت علی خان کو مل گئے اور سرکاری منصب بھی بدستور قائم رہا۔ لیکن اولاد سے محرم ہونے کے باعث وہ بہت جلد متا ع دینوی سے بیزار ہوگئے ۔ چنانچہ ظاہری جاہ و جلال کو چھوڑ کر اور ذاتی جائیداد نیک کاموں کے لیے وقف کر کے وہ ہمیشہ کے لیے گوشہ نشین ہوگئے۔ حکومت نے ان کے اعزازات و خطابات ان کے چھوٹے بھائی نواب رستم علی خان کو تفویض کر دیئے۔نواب رستم علی خان نہ صرف جائداد بلکہ خاندانی روایات کے بھی جائز وارث ثابت ہوئے۔ انھوں نے آباواجداد کی طرح خدمتِ خلق میں اس طرح حصہ لینا شروع کیا کہ ان کی شہرت کرنال اورسہارنپور کے محدود دائرے سے نکل کر سارے شمالی ہند میں پھیل گئی، ان کے ہاں نواب زادی محمودہ بیگم سے چار بیٹے ہوئے ، سجاد علی خان
لیاقت علی خان، خورشید علی خان اور صداقت علی خان۔ لیاقت علی خان یکم اکتوبر ۱۸۹۵ء میں کرنال میں پیدا ہوئے۔

معروف عالم دین ڈاکٹر اسرار احمد (پیدائش ۲۶ اپریل ۱۹۳۲ء وفات ۱۴ اپریل ۲۰۱۰ء)، کا تعلق خاندان حسین پور ضلع مظفر نگر سے تھا، ڈاکٹرالطاف حسین قریشی (اردو ڈائجسٹ ) خاندان حسین پور سے تعلق رکھتے ہیں ضلع مظفر نگر ان کا آبائی شہر ہے۔ جناب مبشر احمد واحدی صاحب جن میں ادبی ذوق بدرجہ اتم پا یا جات ہے انہوں نے خاندان واحدی کا نسب نامہ (شجرہ ) بھی مرتب فرمایا ۔اس کے علاوہ مضامین کا مجمو عہ بعنوان ’’تمنائے نا تمام ‘‘ ۱۹۹۸ء (۶) میں شائع ہوا کا تعلق بھی مظفر نگر سے ہے ۔معروف شاعر احسانؔ دانش جو شاعر مزدور بھی کہلاتے ہیں مظفر نگر سے تعلق رکھتے تھے،آپ اسی ضلع کے شہر کاندھلہ میں ۱۹۴۱ء کو پیدا ہوئے اور ۲۱ مارچ ۱۹۸۲ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ احسانؔ دانش کے خاندان کا تعلق تو ضلع میرٹھ کے شہر باغپت سے تھا لیکن ان کے والد قاضی دانش علی نے باغپت کو خیر باد کہہ کر ضلع مظفر نگر کے شہر کاندھلہ میں سکونت اختیار کرلی تھی،احسان دانش نے اپنی سرگزشت میں لکھا ہے کہ ’’میں قصبہ کاندھلہ مظفر نگر (یو پی)میں ایک مزدور کے گھر پیدا ہوا۔ کاندھلہ کی سرزمین علم نوازی‘ اور ادب پروری کے لحاظ سے تاریخی اورمشہور جگہ ہے۔چناں چہ کم لوگوں کو علم ہوگا کہ مولانا روم کے ساتویں دفتر کا شاعر اسی خاک پاک سے اٹھا تھا۔ اور آج تک برابر یہاں سے علمی چشمے پھوٹتے رہے ہیں‘‘۔ تابشؔ صمدانی معروف نعت گو شاعر ، جن کے نعتیہ مجموعے ’ برگ ثنا‘، ’ مر حبہ سیدی ‘ کے علاوہ کئی کتب منظر عام پر آچکی ہیں۔آپ کے والد بزرگوار محترم خلیل احمد صمدانی بھی شاعر تھے آپ کا مجموعہ کلا م ’ گلزار خلیل‘کے عنوان سے جناب تابش صمدانی نے ہی مرتب کیا ۔ ہندوستان کے ضلع مظفر نگر سے تعلق رکھتے ہیں۔معروف ادیب ،افسانہ نگار اور ناول نگار شوکت تھانوی کا وطن بھی تھا نہ بھون مظفر نگر تھا۔

رقم الحروف کو اس بات پر فخر ہے کہ اس کا تعلق ہندوستان کی ایک ایسی مردم خیز خطے سے ہے جس کا نام ہندوستان کے جغرافیہ میں ’مظفر نگر‘ کے نام سے معروف ہے۔اس سر زمین نے علماء دین، صوفیا ئے اکرم اور فقہا اسلام کو جنم دیا، اہل دانش کی ایک بڑی جماعت پیدا کی ،اعلیٰ منتظمین، معلمین ، منصفین و مصنفین پیدا کیے ہیں ، جن کے خیالات اور تصنیفات سے ہمارے کتب خانے مالا مال ہیں ۔ان کی خدمات کو عالمی سطح پر معتبر حیثیت حاصل ہے ۔ ان نامور شخصیات نے برصغیر پاک وہند میں علم و ادب، اسلامی علوم۔ تہذیب و ثقافت پر گہرے نقوش
چھوڑے ہیں۔ کبھی میں نے عرض کیا تھا ؂
مظفر نگر تری عظمت کو سلام
کیسے کیسے گوہر نایاب پیدا کیے تونے
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1287467 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More