شرق سے غرب تک شمال سے جنوب تک
اس عالم رنگ و بو میں جب چہار سو نظر دوڑاتا ہوں تو خون مسلم پانی کی طرح
بہتا نظر آتا ہے۔ لعشوں کے ڈھیر ہر سمت دکھائی دیتے ہیں مگر امت مسلمہ ہے
کہ نیند سے بیدار ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ ہر بڑے سانحہ کے بعد میرا یہ
خیال ہوتا ہے کہ اب کی بار امت مسلمہ خواب غفلت سے جاگ جائے گی لیکن میرا
خیال خیالات کے قبرستان میں کہیں دفن ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی تنہائی میں ان
مایوس کن حالات میں جب الله رب العزت سے باتیں اور چند سوالات کرنے کو جی
چاہتا ہے تو اقبال کے الفاظ میں الله سے عرض کرتا ہوں کہ عنائیتیں ہیں تیری
اغیار کے کاشانوں پر ، برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر۔ تو الله رب
العزت کے جواب کے لئیے جب قرآن شریف کھولتا ہوں تو ارشاد ہوتا ہے کہ تم پر
جو بھی مصائب آتی ہیں وہ تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ اس میں کوئی شبہ
نہیں کہ مصائب و آلم کے جتنے پہاڑ ہم پر ٹوٹتے ہیں وہ ہمارے اپنے کرتوتوں
کا نتیجہ ہے۔ ہم ناجانے کتنے فرقوں میں بٹ چکے ہیں اور یہ تقسیم آج بھی
جاری ہے ، ہم نے عراق و افغانستان کو پٹتے دیکھا ہم خاموش رہے کہ چلو خیر
ہے ہم تو بچ گئے، اکیلے اکیلے سب مریں گے اور ستم بالائے ستم اتنے مسلمان
کفار کے ہاتھوں نہیں مرے جتنے مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمان مرے ہیں اور آج
بھی عراق میں مر رہے ہیں اور ناجانے کب تلک یہ خون کی حولی کھیلی جاتی رہے
گی۔ حال ہی میں فلسطین کے مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں اسے بیان
کرنے کے لئیے حقیقت میں میرے پاس الفاظ نہیں ہیں اور نہ فلسطینیوں کے زخموں
پر میں لفظوں سے مرحم رکھ سکتا ہوں اگر الفاظ سے مرحم رکھ سکتا تو دنیا
جہان کی لائبریری کی کتابوں سے بہترین الفاظ کا انتخاب کرتا۔ چند دن پہلے
ایک دوست نے فلسطین کے موضوع پر کچھ لکھنے کا کہا تو میں نے یہ کہہ کر
معذرت کی کہ میرے پاس یہ ظلم بیان کرنے کے لئیے الفاظ نہیں ہیں میں برما
میں مسلمانوں کے قتل عام پر امت مسلمہ کی بےحسی اور خاموشی دیکھ چکا ہوں۔
لیکن آج فلسطین کے معصوم بچوں کی لعشیں دیکھ کر مجھ سے نہیں رہا گیا اور
ٹوٹے پھوٹے الفاظ اور بے ربط جملے لکھنے بیٹھ گیا ہوں ، ایک اور تصویر آج
میری نظر سے گذری ایک پانچ یا چھ سالہ بچی جسکی پیشانی خون آلود تھی اور
اسرائیلی فوجیوں کی بندوقوں کے سائے میں کھڑی تھی اور اس ننھی بچی کی
آنکھوں میں میں نے عجیب چمک دیکھی۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ تصوریں بولتی
ہیں مگر میں اسے فلسفیانہ اور کتابی بات سمجھتا تھا۔ لیکن آج اس بچی کی
آنکھوں میں جب میں نے تحریر دیکھی تو یقین ہوا کہ تصوریں بولتی ہیں ، اس
بچی کا چہرہ خون آلود و زخمی تھا مگر اسکی آنکھوں میں آنسو اور خوف نہیں
تھا بلکہ ایک آس اور امید تھی کہ کبھی تو ظلم کے بادل چھٹیں گے اور کبھی تو
کوئی ماں کسی صلاح الدین ایوبی کو جنم دے گی جو ہمارے زخموں پر مرحم رکھے
گا۔ یہ اس ننھی بچی کی آنکھوں کی تحریر و امید ہے لیکن شائد وہ یہ نہیں
جانتی کہ صلاح الدین غیرت مندوں میں جنم لیتا ہے اور آجکل غیرت ایمانی میں
ہمارا ہاتھ خاصہ تنگ ہے۔ پوری دنیا فلسطینیوں کے قتل عام پر خاموش ہے
کیونکہ دنیا کی اکانومی اور میڈیا کو یہودی کنٹرول کرتے ہیں کوئی اقوام
متحدہ کی جانب دیکھ رہا ہے تو کوئی آمریکہ اور دنیا کے چوھدریوں کی جانب
نظریں لگائے بیٹھا ہے لیکن مجھے ان سب سے کوئی سروکار نہیں یہ تو غیر ہیں
مجھے اگر گلہ ہے تو اپنوں سے ہے ، نہ ادھر ادھر کی تو بات کر مجھے یہ بتلا
کہ قافلہ کیوں لٹا ، مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں تیری راہبری کا سوال ہے۔
میرا گلہ ستاون اسلامی ریاستوں کے بے حس حکمرانوں سے ہے۔ رہی بات اقوام
متحدہ کی تو وہ صرف ہم جیسے بھیک منگ ملکوں کو دبا سکتا ہے، اسرائیل نے
اقوام متحدہ کے احکام کو جوتے کی نوک سے اچھال کر اسکے منہ پر دے مارے ہیں۔
دنیا میں بات اس کی چلتی ہے جو معاشی طور پر مستحکم ہو اور ہمارا حال یہ ہے
کہ ہمارے حکمرانوں ، عرب شیوخ ، شہزادوں کی دولت اور اثاثے مغرب میں ہیں تو
ان میں خالد بن ولید اور ایوبی والا جذبہ کہاں سے آسکتا ہے لاکھوں بچیاں
ایوبی اور محمد بن قاسم کی راہ تکتے تکتے اس دنیا سے چلی جائیں گی۔ کاش آج
اقبال زندہ ہوتا اور مسلم حکمرانوں کی بے حسی پہ مرثیہ لکھتا۔ بعض اوقات
امت مسلمہ کی زبوں حالی دیکھ کر اسکے حل تلاش کرنے کی غرض سے قرآن کھولتا
ہوں تو الله رب العزت کا ارشاد سامنے آتا ہے کہ تم ہی غالب آؤ گے اگر مومن
ہوے ، ہر چیز کا علم اور مسئلے کا حل قرآن میں ہے۔
وہ معزز ہوے زمانے میں قرآن خواں ہوکر ۔
ہم خوار ہوے زمانے میں تارک قرآن ہوکر ۔
ہم نے قرآن سے رشتہ توڑا ذلیل وخوار ہوگئے ، آؤ پلٹیں کتاب الله کی طرف ۔۔
آقا ایک بار پھر طیبہ سے فلسطین میں آ
کہ مسجد اقصی دیکھتی ہے رستہ تیرا ۔
آخر میں دعاگو ہوں کہ مالک ارض وسمآ امت مسلمہ پر فضل وکرم فرمائے اور جہاں
بھی مسلمان ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہیں الله انکی مدد فرمائے اور ظالموں
کو تباہ وبرباد کرے ۔۔ |