عافیہ صدیقی ہم سے کچھ مانگ رہی ہیں

امریکہ کی پاکستان میں ڈرون حملے اور افغانستان کے جنگ میں زبردستی دھکیلنا اپنی جگہ لیکن جس طرح اُنہوں نے پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اغوا کیا اور اُسے قیدی نمبر 650 بنایا، پاکستان کے سیاستدانوں اور عوام کے منہ پرایک طمانچہ ہے۔2 مارچ 1972 کو کراچی میں پیدا ہونے والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 2003 میں امریکہ نے 3 بچوں سمیت کراچی کے گلشن اقبا ل علاقے سے اغواکیا اور اُسے افغانستان لے گیا۔امریکہ کا دعوی تھا کہ انہوں نے عافیہ صدیقی کو 27 جولائی2008 کو افغانستان سے گرفتار کر دیا اور اُن پر مقدمہ چلانے کے لئے نیویارک بھیجا گیا۔اُن کا کہنا ہے کہ عافیہ صدیقی نے امریکی فوجی کی بندوق چھین کر اُن پر گولیاں چلائی اُن کی القاعدہ سے تعلق ہے اور وہ القاعدہ کے لئے ایک متحرک کردار ادا کر رہی ہے۔ 23 ستمبر2010 میں نیو یارک امریکی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 86 سال کی سزا سنائی اور شاید پہلی بار کسی پاکستانی کو، امریکہ کے کسی عدالت میں دہشت گرد ی کے الزام میں سزا سنائی گئی ہو۔

ڈاکٹرعافیہ صدیقی نے14مئی 2014کو 86 سال کی سزا کے خلاف ایک بار پھر امریکہ کے فیڈرل کورٹ میں درخوارست دائر کردی۔عافیہ صدیقی کی جانب سے درخواست میں موقف اختیارکیاگیاہے کہ 2010 میں86 سال کی سزا سناتے وقت انہیں مناسب قانونی نمائیندگی نہیں دی گئی تھی اور جج نے انہیں پاکستانی حکومت کی جانب سے نامزد کردہ تین وکیلوں کو قبول کرنے کے لئے مجبور کیا تھا۔

9 جولائی 2014 کوفوزیہ صدیقی ، عافیہ صدیقی کیس کے سلسلے میں اعلی حکام سے ملاقات کرنے اسلام آباد آئی، مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ ڈاکٹرفوزیہ صدیقی جوکئی سالوں سے اپنی بہن کی آزادی اور اسے باعزت ملک واپس لانے کی جنگ لڑرہی ہے اور ہمیشہ پُرامن جدوجہد پر یقین رکھتی ہے، میرے سامنے بیٹھی ہیں،اُس کی باتوں میں سچائی تھی اور دل میں اپنی بہن کیلئے پریشانی تھی۔خیر آمدم برسرمطلب۔۔۔۔۔اس نے وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان سے ملاقات کی،چوہدری نثار نے کہا کہ حکومت پاکستان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کیلئے مخلصانہ کوششیں کر رہی ہے،انہوں نے مزید کہا کہ وہ عافیہ صدیقی کے کیس کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں پوری طرح باخبر ہیں اور وزارت داخلہ اس سلسلے میں مختلف قانونی پہلووں پر غور کر رہی ہے، ملاقات کے بعد ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے نئی بات کے نمائیندہ خصوصی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے وزیر داخلہ کے سامنے مختلف آپشنز رکھے جو عافیہ کی وطن واپسی کے سلسلے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں، فوزیہ صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ اگست 2013کو وزارت داخلہ نے وزارت خارجہ کو کونسل آف یورپ کے معاہدے کے ذریعے عافیہ صدیقی کو وطن واپس لانے کیلئے پاکستان کو اگاہ کر دیا تھاکہ پاکستان میں چونکہ سزائے موت کا قانون لاگو ہے اس لئے پاکستان اس معاہدے کا ممبر نہیں بن سکتا، اس کے بعد اب تک حکومت نے پرواہ ہی نہیں کی کہ اب کیا کرنا ہے جبکہ خود امریکہ بھی اپنے ملک میں بعض ریاستوں میں سزائے موت کے قانون کی وجہ سے کونسل آف یورپ کا مبصر رکن ہے، مکمل رکن نہیں،انہوں نے مزید کہا کہ ان کی وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ کے حکام سے ملاقاتیں ہوئی ہیں جس میں وہ اس بات پر ششد رہ گئی ہیں کہ وزارت خارجہ اور داخلہ دونوں کہہ رہی تھیں کہ کونسل آف یورپ نے ابھی اس خط پر ہاں یا ناں نہیں کی ، معاملہ وہیں پر زیر التواء ہے کہ جب ان کو 4 اپریل 2014 کا خط حوالے کیا گیا جس میں کونسل آف یورپ نے پاکستان کے ساتھ سزائے موت کا قانون ہونے کی وجہ سے معاہدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا تو یہ ان کیلئے نئی بات تھی حالانکہ یہ خط خود انہیں مل چکا تھا، اس سے لا پرواہی کااندازہ ہوتا ہے۔چودھری صاحب نے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو یقین دہانی کرتے ہوئے کہا کہ کونسل آف یورپ کا دروازہ بند ہونے کے بعد اب وہ ایک ہفتہ کے اندر امریکہ سے سزایافتہ مجرمان کی حوالگی کے معاہدے کیلئے وزارت خارجہ کو خط لکھیں گے۔۔۔چوہدری نثار صاحب کی باتوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ واقعی اس کیس میں سنجیدہ ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ11 ماہ ضائع کرنے کے بعد اگر انہوں نے وزارت خارجہ کو خط نہ لکھا تو شاید اس کا قصوروار پھر چوہدری صاحب خود ہوگا،

2013 کے الیکشن سے پہلے جناب نواز شریف صاحب نے عافیہ صدیقی کی ماں سے ملاقات کی تھی، انہوں نے عافیہ کی ماں سے وعدہ کیا تھا کہ میں تین مہینوں کے اندر اندر عافیہ صدیقی کو وطن واپس لاونگا،اس وقت وزیراعظم کے آ نکھوں میں آنسو آئے تھے، کہہ رہے تھے کہ اگر ہم اپنے جان کا نذرانہ بھی پیش کر دیں اور عافیہ صدیقی کو بچا لیں تو بھی کم ہوگا۔اسطرح صدر ممنون حُسین صاحب نے بھی صدارت سے پہلے وعدہ کیا تھا کہ وہ قوم کی بیٹی کو واپس لائینگے اور ان کا پہلا کام یہی ہوگا مگر اب تک نہ تو وزیراعظم صاحب نے عافیہ صدیقی کی ماں سے وعدہ نبھایا اور نہ صدر صاحب نے۔۔۔۔۔اب خیرت کی بات یہ ہے کہ اگر سارے سیاستدانان صاحبان عافیہ صدیقی کو وطن واپس لانا چاہتے ہیں اور خود امریکی حکومت بھی یہی چاہتی ہے کہ عافیہ صدیقی کو پاکستان مانگ لیں اور باقی سزاپاکستان میں پوری کرے، اس پر نواز شریف صاحب نے کہا تھا کہ یہ تو بہت آسان کام ہے، یہ تو میں فورا کروں گا، اس بات کی تصدیق فوزیہ صدیقی نے بھی کی ۔اب ہماری بے حسی کو دیکھیں کہ امریکہ خود کہہ رہا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو لے جائے اور پاکستان میں اس کی سزا پوری کروا دیجئے،اب ایسا کونسا رُکاوٹ ہے جو ہمارے حکمران اُسے واپس لانے کیلئے تیار نہیں۔۔۔۔؟؟

اب میں ایک خاص موضوع کی طرف آتا ہوں وہ یہ کہ ایک White House Petitions ہے، جس میں یہ کہ اگردنیا بھر میں ایک لاکھ لوگ اس پر دستخط کر ے تو امریکی صدر براک اوباماکا وعدہ ہے کہ وہ اس پر ضرور نظر کرینگے،اب ہم سے اتنا تو ہو سکتا ہے کہ اپنی بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیلئے ایک دستخط کر دیں تاکہ ہماری بہن کی قید کی داستان ختم ہو جائے، اس Petition کی مدت 4 اگست 2014 تک ہے،ہمارے پاس صرف 22 دن ہیں، اس لئے میری اپنی بہن اور بھائیوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنی بہن عافیہ صدیقی کی آزادی کیلئے دو منٹ دیں، اس کے کیلئے آپ کو عافیہ موومنٹ کے اس ویب سائٹ پر جانا پڑیگا، www.aafiamovement.com بہت شکریہ۔اﷲ تعالی ہمیں نیکی کرنے اور نیکی پھیلانے کی توفیق عطا فرمائیں۔آمین