غزہ پر بمباری اور اقوام متحدہ کی خاموشی

فلسطین دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے،یہ اس علاقے کا نام ہے جو لبنان اور مصر کے درمیان تھا،جس کے بیشتر حصے پر اب اسرائیل کی ریاست قائم کی گئی ہے، اس خطہ سرزمین کو پیغمبروں کی سرزمین کہا جاتا ہے، 332 قبل مسیح میں یروشلم (بیت المقدس)پر اسکندر اعظم نے قبضہ کر لیا،168 ق م میں یہاں ایک یہودی بادشاہت کا قیام عمل میں آیالیکن اگلی صدی میں روما کی سلطنت نے اسے زیر نگین کر لیا،135 اور پھر 70 ق م میں یہودی بغاوتوں کو کچل دیا گیا، اس زمانے میں اس خطے کا نام فلسطین پڑ گیا۔

636 ء کو عرب فاتحین نے ایک بار پھر فلسطین کا فتح کر دیا،463 سال تک یہاں اسلام کا دوردورہ رہا تاہم یہودی ایک اقلیت حیثیت سے موجود رہے، گیارہیوں صدی کے بعد یہ علاقہ غیرعرب سلجوق کا حصہ رہا،1189 میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو فتح کر لیا اور مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگئی، چار صدیوں تک عثمانیوں کی حکمرانی کے بعد 1917 میں برطانیہ نے اس خطے کو اپنی تحویل میں لے لیا اور یہودیوں کیلئے ایک قومی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا گیا، فلسطین کی جانب یہودیوں کی نقل مکانی 17ویں صدی کے آخر میں شروع ہوگئی،1930 تک نازی جرمنی کے یہودیوں پرمظالم کی وجہ سے اس میں اضافہ ہوگیا، 1920، 1922، 1929 اور 1936 میں عربوں کی طرف سے یہودیوں کی نقل مکانی اور اس علاقے میں آمد کے خلاف پُر تشدد مظاہرے ہوئے لیکن پھر بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔

1947میں اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی نے ایک قراردادکے ذریعے فلسطین کو تقسیم کر کے ایک عرب اور ایک اسرائیل ریاست قائم کرنے کا اعلان کر دیا،1948 میں برطانیہ نے اس علاقہ سے اپنی افواج واپس بلا لیں اور 14 مئی 1948 کو اسرائیل کی آزاد حکومت کے قیام کا اعلان کر دیاگیا، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ فلسطینی ریاست بھی قائم کر دی جاتی لیکن ایسا نہ ہوا، عربوں نے اس تقسیم کو نا منظور کر دیا اور مصر، اُردن ، شام ، لبنان، عراق اور سعودی عرب نے نئی اسرائیلی ریاست پر حملہ کر دیا، تاہم وہ اسے ختم کرنے میں ناکام رہے بلکہ اس حملے کی وجہ سے یہودی ریاست کے رقبے میں اضافہ ہوگیا۔

اس کے بعد اسرائیل کا فلسطین اور فلسطینی لوگوں پر ظلم وستم کی داستان شروع ہو جاتی ہے جسے سُن سُن کر لوگوں کے ڈر سے اوسان خطا ہو جاتے ہیں، اسرائیلی درندگی اور دہشت گردی کی داستان میں کہاں سے شروع کروں؟ بے گناہ اور نہتے فلسطینی بوڑھوں اور جوانوں کی چیخ وپکار سے شروع کروں یا معصوم بچوں اور مظلوم عورتوں کی لہولہان ہونے شروع کروں۔۔،عراق کا ایٹمی ری ایکٹر کی تباہی سے شروع کروں یا لبنان پر کئے جانے والے حملوں اور تشدد کے واقعات سے شروع کروں۔۔، لبنان کے منتخب صدر بشیر جمائل کے قتل پر آنسو بہاؤ یا عیسائی شدت پسندوں کی مدد سے اسرائیل کا مہاجر کیمپوں میں گُھس کرسینکڑوں بے گناہ فلسطینیوں کے قتل عام پر انگُشتہ بدنداں ہو جاؤں؟؟؟؟؟؟یہ سب اپنی جگہ لیکن آج کل اسرائیلی درندوں نے غزہ کے مسلمانوں کا جینا حرام کیا ہے اور ہمیں خبر تک نہیں، وہاں کے مسلمانوں کو زمینی کاروائیوں میں بھی جانوروں کی طرح ذبخ کیا جا رہاہیں اور ہم خواب خرگوش مین مبتلا ہیں،دُنیا میں تقریبا 57 مسلم ممالک ہیں لیکن ان57 ممالک کے مسلمانوں میں ایک بھی صلاح الدین ایوبی نہیں جواسرائیل کے اینٹ سے اینٹ بجا دے،اب تک ان حملوں اور تشدد میں تقریبا 200 کے قریب بے گناہ افراد شہید جبکہ1400 کے قریب شدید زخمی ہوئے ہیں، اب ان بے گناہ لوگوں کے قتل عام پر اقوام متحدہ اور امریکہ کیوں خاموش ہے؟ کیا یہ ان کا انصاف ہیں کہ 9/11 کے واقعہ پرانہوں نے اور ان کے اتحادیوں نے دنیا کے مسلمانوں کو بالعمموم اور افغانستان کے مسلمانوں کابالخصوص جینا حرام کر دیا تھا اور اب فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیلی ظلم وستم پر اسرائیل کوخراج تحسین پیش کرتے ہیں؟؟؟افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم مسلمان آج بھی متحد نہیں ہو ئے اور شائد یہ ہماری سب سے بڑی غلطی ہوگی کیونکہ اگر ہم آج بھی ایک نہ ہوئے تو ہم ہونہی کٹتے مرینگے، رسوا اور ذلیل ہوتے رہینگے اور ایک دن ایسا آئیگا کہ ہمارے پاس شرمندگی اور افسوس کے سوا اور کچھ نہ ہوگا۔اب فیصلہ ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو کرنا ہوگاکہ ہمیں شرمندگی پسند ہے یا وقت پہ بیدار ی۔۔۔۔۔۔۔