پروفیسر محمد مظہر الحق

پروفیسر محمد مظہر الحق ،سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ناظم آباد سے ایک مکالمہ

(یہ انٹر ویو گورنمنٹ کالج برائے طلباء، ناظم آباد کے مجلہ ’رایت ‘‘ کے لیے لیا گیا جو مجلہ روایت ۲۰۰۸ء میں شائع ہوچکا ہے۔
اس ملاقات میں کالج کے ایک استاد عبد الرشید بھی شریک تھے)

پروفیسر محمد مظہر الحق گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ناظم آباد کے چار سال اور چار ماہ (۲۷ اگست ۱۹۹۶ء ۔ ۳۰ دسمبر ۲۰۰۰ء) پرنسپل رہے،آپ کو کراچی کے اولین ایگزیکٹیو ڈ سٹرکٹ آفیسر (E.D.O)ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ آپ کی تعلیمی خدمات ۴۶ سال پر محیط ہیں۔ آپ نے ۱۹۶۲ء میں لیکچرر کی حیثیت سے درس و تدریس کا آغاز کیا،گورنمنٹ کالج ’ژوب‘ بلوچستان، گورنمنٹ کالج ، کو ئٹہ، گورنمنٹ سائنس کالج، لیاری ، ڈی جے گورنمنٹ سا ئنس کالج کراچی کے وائس پرنسپل اور گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ناظم آبادمیں پرنسپل کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں، ۲۰۰۲ء میں بحیثیت ایگزیکٹیو ڈ سٹرکٹ آفیسر ریٹائر ہوئے۔ مجلہ ’’روایت‘‘ ۲۰۰۸ء کے خصو صی شماے کے لیے ہم نے آپ سے خصو صی انٹر ویو کیا ، ہم آپ کے ممنون ہیں کہ آپ ہماری درخواست پر کالج تشریف لائے اوراپنے خیالات کا اظہار کیا۔

سوال: اپنی پیدائش، ابتدائی تعلیم اور بچپن کے بارے میں کچھ بتائیں ؟
جواب: میری جائے پیدائش ’ابو پور‘ ُپٹنہ ، صوبہ بہار ہے جہاں میں ۱۹۴۲ء میں پیدا ہوا۔ہندوستان میں مختلف شہروں کلکتہ، آگرہ ، شاہجہاں پور میں قیام رہا۔قیام پاکستان کے وقت میری عمر پانچ برس تھی ،ابتدائی تعلیم گھر پر والد صاحب سے ہی حاصل کی، یاد پڑتا ہے کہ مجھے اسمائیل میرٹھی کی کتاب والد صاحب نے پڑھنے کو دی جسے میں نے پڑھا، ۱۹۴۷ء میں ہمارا خاندان ہجرت کرکے پاکستان آیا اور والد صاحب نے لاہور میں قیام کیا، سیالکوٹ کے قومی ہائی اسکول (رام تلائی) میں پانچویں جماعت تک پڑھا، رام تلائی کی تاریخی اہمیت اس اعتبار سے اہم ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان نے تقریر کے دوران اپنا’’تاریخی مکا‘‘ اسی جگہ لہرا یا تھا ۔ پرائمری کے بعد مڈل تک ٹیکسلہ میں پڑھا ہم چونکہ واہ کینٹ میں رہتے تھے اور وہاں اسکول کا قیام ۱۹۵۴ء میں عمل میں آیا۔ میٹرک واہ کینٹ ہی سے کیا۔ میرے والد صاحب کی شدید خواہش تھی کہ میں اپنی پڑھائی پر خصو صی توجہ دوں اور اس سلسلے کو ہر قیمت پر جاری رکھوں واہ کینٹ میں اس وقت کالج نہیں تھا اس لیے صرف اس مقصد کے حصول کے لیے ہم پنجاب سے کراچی منتقل ہوگئے۔ کراچی میں ایس ایم سائنس کالج سے انٹر سائنس کیا ، میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا ، نمبر بھی اچھے خاصے آگئے تھے لیکن عمر کم ہونے کی وجہ سے میڈیکل کالج میں داخلہ نہ ہو سکا، چنانچہ جامعہ کراچی کے شعبہ ‘حیوانیات ‘ میں داخلہ لیا ، پہلے بی ایس سی آنرز اور پھر ۱۹۶۲ء میں زولوجی میں ایم ایس سی کیا۔یہ کہانی ہے میرے بچپن سے ماسٹرز کرنے تک کی۔

سوال: تعلیم کے شعبہ میں کب اور کیسے آئے ، لیکچرر سے پرنسپل اور پھر ای ڈی او(تعلیم ) (E.D.O) تک کا سفر کیسے طے کیا ؟
جواب: جیسا کہ میں نے آپ کو بتا یا کہ میری خواہش اور ارادہ ڈاکٹر بننے کا تھااور میرے اتنے نمبر بھی تھے کہ میڈیکل کالج میں داخلہ ہو سکتا تھالیکن جب میں نے انٹر کیا تو میری عمر کم تھی جس کی وجہ سے میڈیکل کالج میں داخلہ نہیں ہوسکا ، اس وقت صرف ایک ہی میڈیکل کالج یعنی ڈاؤ میڈیکل کالج تھا، آجکل کی طرح پرائیویٹ کالج بھی نہیں تھے۔ اس وجہ سے یونیورسٹی کا رخ کیا ایم ایس سی کرنے کے بعد اسی سال یعنی ۱۹۶۲ء میں ہی میرا تقرر بلوچستا ن کے علاقے ’ژوب‘ میں گورنمنٹ کالج میں بحیثیت لیکچرر ہوگیا، وہاں سے گورنمنٹ کالج کوئٹہ ٹرانسفر ہوا کچھ عرصہ وہاں پڑھا یاوہاں سے میرا ٹرانسفر کراچی میں ڈی جے سائنس گورنمنٹ کالج میں ہو گیا ، گورنمنٹ سائنس کالج ، لیاری میں بھی کئی سال پڑھایا، اسی دوران میں نائجیریا چلا گیا اور دوسال غیر ملک میں بھی درس و تدریس سے منسلک رہا، واپس آیا تو ڈی جے سائنس کالج میں وائس پرنسپل کی حیثیت سے خدمات کا آغاز کیا،۲۶ اگست ۱۹۹۵ء تک اس کالج کا پرنسپل رہا، اب میں درس و تدریس کے علاوہ انتظامی امور کی طرف بھی آگیا، یہ ایک اچھا تجربہ تھا، ۲۷ اگست ۱۹۹۶ء کو میں گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ناظم آباد بطور پرنسپل آگیا۔ ملک میں بلدیہ کی سطح پر نیا نظام متعارف ہوا، اور ای ڈی او یعنی ایگزیکٹیو ڈ سٹرکٹ آفیسر(ایجو کیشن) کا عہدہ قائم ہوا جس کے ماتحت کراچی کے تما م تعلیمی ادارے یعنی پرائمری و سیکنڈری اسکول اور تمام کالجوں کا انتظام تھا، مجھے اس نئے نظام کے تحت کراچی کا ایگزیکٹیو ڈ سٹرکٹ آفیسرّتعلیم )بنایا گیا۔ ۱۴ اگست
۲۰۰۱ء کو میں نے یہ عہدہ سنبھا لا اور اسی حیثیت سے اپنی مدت ملازمت پوری ہونے پر مئی ۲۰۰۲ء میں ریٹائر ہوا۔

سوال: آپنے بہ حیثیت پرنسپل کالج کی بہتری کے لیے کیا اقدامات کیے اور مسائل پر کیسے قابو پایا ؟
جواب: میں جب پرنسپل کی حیثیت سے اس کالج میں آیا تو اس وقت کراچی کے حالات ہر اعتبار سے بہتر نہیں تھے۔ یہ میرے لیے ایک چیلنج تھا کہ میں ایسے حالات میں اور پھر اس کالج کے خصو صی حالات میں تمام مسائل سے کیسے خوش اسلوبی سے نمٹوں۔کالجوں میں سب سے اہم اور گھمبیر مسئلہ داخلوں کا تھا ۔ اس وقت داخلوں کی سینٹرل پالیسی متعارف نہیں ہوئی تھی ، ہر کالج اپنے طور پر داخلہ دیا کرتا تھااور سارا پریشر پرنسپل پر ہوا کرتا تھا۔میں نے اولین فیصلہ یہ کیا کہ داخلے صرف میرٹ پرہوں اور اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے میں نے اپنے آپ کو پوری طرح تیار کرلیا، اس فیصلے پر عمل کے دوران میں کئی بار شدید دباؤ کی کیفیت سے بھی دوچار ہوالیکن میں کسی دباؤ کو خاطر میں نہیں لایااور اصولی طور پر داخلے اپنے دور میں ہمیشہ میرٹ کی بنیاد پر دیے۔میرے اس اقدام سے کالج کے تعلیمی ماحول پر خوشگوار اثرات مر تب۔

میری دوسری ترجیح یہ تھی کہ کالج میں نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں پر بھر پور توجہ دی جائے۔ اس دور میں ہم نصابی سرگرمیاں کراچی کے کالجوں میں مفقود ہوچکی تھیں بوجوہ کالج پرنسپل صاحبان سوائے بورڈ اور یونیورسٹی کے اسپورٹس میں حصہ لینے کے لیے طلبہ بھیجتے تھے۔کالج کی حدود میں کسی قسم کی ہم نصابی سرگرمی کا انعقاد ناممکن ہو چکا تھا۔ میں نے ایک عرصہ کے بعد اس سلسلے کو کامیابی سے جاری کیا اور پھر یہ سلسلے دیگر کالجوں میں بھی شروع ہو گئے۔ہم نصابی سرگرمیوں میں کھیل کے مقابلوں کے علاوہ حمد، نعت، تقریری مقابلے، بیت بازی، مقابلہ معلومات عامہ وغیرہ کے انعقاد پر خصو صی توجہ دی، بین الجماعتی مقابلوں کے علاوہ بین الکلیاتی مقابلوں کے انعقاد کو ممکن بنایا، مجھے یہ بتاتے ہوئے بڑا فخر محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے کالج کے طلبہ نے پورے ملک میں ہونے والے ہم نصابی مقابلوں میں بھر پور شرکت کی اور نمایاں مقام حاصل کیا ،کراچی کے مختلف کالج ہر سال اس بات کا انتظا ر کیاکرتے تھے کہ اس کالج میں سالانہ پروگرام کب منعقد ہوں گے،اس کالج کو اس حوالے سے ایک خاص مقام حاصل ہوا، کالج کے طلبہ نے اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے، اس دور کے بعض طلبہ اب ملک کی سطح پر معروف ہیں۔

امتحانات میں نقل کے رجحان پر قابو پانے کے اقدامات کیے، امتحانی سینٹر پر سخت نگرانی کی، اساتذہ کو بھی پابند کیا کہ وہ بھی کالج میں جب بھی امتحانی سینٹر قائم ہو اپنے اس قومی فرض کو ایماندری سے انجام دیں اور ایسا ہوا، میرے دور میں یہ کالج کراچی بھر میں مشہور ہو گیا تھا کہ یہاں امتحان کے دوران بہت سختی ہوتی ہے۔ ایک اور قد م یہ بھی اس حوالہ سے کیا کہ کالج میں ہونے والے عملی امتحانات میں جو بے قاعدگیاں تھیں انہیں دور کرنے کی پوری کوشش کی، عملی امتحان کا پروگرام واضح الفاط میں اور نمایاں جگہ لگانے کو یقینی بنا یاتاکہ طلبہ کو بر وقت یہ معلوم ہوسکے کہ انہیں کس دن امتحان دینے آنا ہے۔طلبہ سے براہِ راست مخاطب ہوا کرتا تھا ،تمام کلاسیں مقررہ وقت پر ہوں اس بات کو یقینی بنانے کی پوری کوشش کی۔

کالج لائبریری عرصہ دراز سے ایک چھوٹے سے ہال میں چلی آرہی تھی، میرے دور میں لائبریری کے لیے مزید ایک کمرے کا اضافہ ہوا جس کے باعث طلبہ کو ریڈنگ روم کی سہولت میسر آئی، میں نے کتب کی خریداری پر کبھی قدغن نہیں لگائی ، میری طرف سے پوری آزادی تھی کہ جس قدر لائبریری بجٹ موجود ہے کتا بیں خریدی جائیں اور ایسا ہوا کہ ہزاروں روپے کی کتابیں خریدی گئیں۔یہ وہ بڑے بڑے اقدامات تھے جو میں نے اس کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، سب سے بڑھ کر یہ کہ میں نے اپنے طور پر کوشش کی کہ اس کالج کی بہتری کے لیے ، اس کالج کی ترقی کے لیے جو بھی ممکن ہو کروں۔میں اس کام میں اکیلا شامل نہیں ہوں ۔چند اساتذہ(اگر انہیں استاد کہہ سکیں) کے علاوہ سب استادوں نے میری بھر پور مددکی۔ ان کی مدد کے بغیر یہ ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔ میں نے تو صرف اپنا فرض نبھا یا اور ربِ کائنات نے میری مدد کی۔

سوال: آپ استاد اور شاگرد کے رشتہ کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟
جواب: استاد اور شاگرد کا رشتہ بڑا مقدس رشتہ ہے عام طور پر شاگرد اپنے استاد کو ہی اپنا آئیڈیل سمجھتا ہے۔اس وجہ سے یہ استاد کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ اپنے علم اور اپنی شخصیت کو اتنا با وقار بنالے کہ شاگردوں کے دلوں میں ہمیشہ اپنے اساتذہ کی عزت اور تکریم بر قرار رہے۔

سوال : کالج کیا ہے مختصر الفاظ میں وضاحت کیجئے ؟
جواب : کوئی بھی کالج در اصل طلبہ، اساتذہ ، عمارت اور اپنی روایات سے مل کر تا ہے۔

سوال: اپنی زندگی کا کوئی ناقابل فراموش واقعہ بتائیے؟
جواب: جب میری تقرری ای ڈی او(ایجو کیشن) کے طور پر ہوئی اور میں پہلے دن جب اپنے دفتر پہنچا تو ایک مفلوک الحال عورت کو دیکھا جو سخت پریشانی کے عالم میں سیڑھیوں پر بیٹھی ہوئی تھی ۔ میں نے اسے اپنے دفتر میں بلایا اور اس کا مسئلہ پوچھاتو اس نے بتا یا کہ اس کے مرحوم شوہر کی پینشن ‘ جو کہ ایک پرائمری اسکول ٹیچر تھا‘ایک سال سے جاری نہیں ہورہی تھی اور وہ سخت مفلسی اور لاچاری سے دوچار تھی۔ میں نے اسی وقت اس کی فائل طلب کی اور اس کی پینشن جاری کروائی۔ اس کام کے بعد میں نے باقاعدہ ایک حکم نامہ جاری کیا کہ کسی بھی ملازم کی پینشن کا معاملہ ایک ہفتہ سے زیادہ نہیں رکنا چاہیے اور بڑی سختی کے ساتھ میں نے اس حکم نامہ پر عمل در آمد کروایا۔

سوال: یہ فرمائیں کیا آپ مطمئن ہیں کہ آپ نے اس کالج میں آپ نے اپنے جانشین کا انتخاب درست کیا ؟
جواب: بالکل ! میں مطمئن ہوں کہ میں نے اپنے جانشین کا انتخاب بالکل درست کیا۔ خورشید زیدی صاحب نے کالج کی بہتری کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے اور آ ج اگر کراچی میں گورنمنٹ کالج ، ناظم آباد اچھے معیاری کالجوں میں گردانا جاتا ہے تو اس میں یقینا خورشید زیدی صاحب کا ایک بہت اہم اور گرانقدر حصہ ہے۔

سوال: نوجوان نسل کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
جواب: نوجوان نسل کو میرا پیغام یہی ہے کہ اپنی زندگی کا ایک مقصد متعین کریں اور پھر پوری محنت کے ساتھ اس کے حصول کی کوشش کریں۔ تعلیم پوری تندہی سے حاصل کریں اور پھر اپنی تعلیم اور قابلیت سے اپنا‘ اپنے خاندان اور اپنے ملک کا نام روشن کریں تاکہ معاشرے میں ایک قابل رشک مقام حاصل کرسکیں۔
۳۰ جنوری ۲۰۰۸ء

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1287518 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More