نیرؔ سوز ۔ شاعرو ادیب ۔ایک مطالعہ

(یہ انٹر ویو گورنمنٹ کالج برائے طلباء، ناظم آباد کے مجلہ ’روایت ‘‘ کے لیے لیا گیا جو مجلہ روایت ۲۰۰۸ء میں شائع ہوچکا ہے )

معروف شاعر و ادیب نیرؔ سوز گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ناظم آباد کے ابتدائی سالوں کے طالب ہیں آپ کا مجموعہ کلام ’’غزل بساط‘‘ ۲۰۰۶ء میں منظر عام پر آچکا ہے۔ نیرؔ سوز کا تعلق شاہجہانپور کے ایک ادبی گھرانے سے ہے، شاعری آپ کو ورثے میں ملی، آپ کے والد سوزؔ شاہجہانپوری اپنے وقت کے پختہ مشق شاعر،ادیب، مشاق انشاپرداز تھے جن کا اردو ادب میں ایک بلند مقام ہے۔ آپ صحافت کے پیشے سے وابستہ رہے۔آپ کا مجموعہ کلا م ۱۹۳۸ء میں ’سوزو ساز‘ اور’ کلیات سوزؔ‘۱۹۹۳ء میں شائع ہوئے۔بقول سحر ؔ انصاری’’ نیرؔ نے نہ شاہجہانپور دیکھا اور نہ لکھنولیکن ان دونوں شہروں کا تہذیبی اور لسانی رچاؤ جو سوزؔ صاحب کی شخصیت میں تھا نیرؔ کے یہاں آگیا ہے‘‘۔ نیرؔ سوز کوطالب علم کی حیثیت سے گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ناظم آباد میں گزارے ہوئے اپنے ماہ و سال کی داستان بہت اچھی طرح یاد ہے ۔

پیر ۲۴ مارچ۲۰۰۸ء کی بات ہے میں کالج پہنچا خورشید صاحب سے کہا کہ میں رات نیر ؔ سوز کو فون کرچکا ہوں وہ گھر پر نہیں تھے شاید اس وقت موجود ہوں آپ بھی کوشش کرلیں ، خورشید صاحب نے فون کیا ، نیرؔ سوز صاحب سے بات ہوئی ، انہوں نے کہا کہ میں ابھی فارغ ہوں یہ کام ابھی ہوسکتا ہے ، اپنے گھر کا ایڈریس لکھوایا جو کالج کے نزدیک ہی تھا، میں کچھ دیر ہی میں نیرؔ صاحب کے گھر پہنچ گیا، وہ کچھ توقف کے بعد تشریف لائے، وضع قطع شاعرانہ تھی، تپاک سے ملے۔ آنے کا مقصد بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی ، وہ میرے ساتھ مکالمے کے لیے تیا ر تھے۔ نیرؔ سے مل کر سحرؔ انصاری کی نیرؔ سوز کے بارے میں یہ رائے جو انہوں نے نیرؔ کے مجموعہ کلا م ’غزل بساط‘ کے تعارف میں لکھی ہے سو فیصد درست لگی کہ ’’نیرؔ سوز ایک بے حد مخلص ، شائستہ، مہمان نواز اور یار باش انسان کا نام ہے۔ اس میں ایک خاص نوع کی زندہ دلی اور قہقہہ فشانی ہمہ وقت موجود رہتی ہے‘‘۔ گفتگو کا آغاز ہوا آپ نے سب سے پہلے تو ان طلبہ ساتھیوں کے نام بیان کیے جو ان کے ہمراہ گورنمنٹ کالج ناظم آباد کے طالب علم رہ چکے تھے۔ان میں سحر انصاری جو ان سے سینئر تھے، محمد احمد فاروقی (مر حوم) ،سید منور حسن جو اس وقت NSFمیں تھے، نفیس صدیقی،امیر حیدر کاظمی، علی اختر خان، مسرور علی خان، محمد غوری، س۔م۔صو لت، رسول احمد کلیمی ، شکیل احمد (اداکار)، انور مقصود، حسن علی، احمد علی (موجودہ سینیٹر)، سید احمد فاروقی ، کمال احمد صدیقی، عقیل دانش،زاہد محمود، ڈاکٹر حفصہ علیم، عمیم اختر اور انیس زیدی جو اس وقت انیس احمد تھے شامل ہیں۔آپ نے گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے اس دور کا ایک واقعہ سنایا کہ اس زمانے میں یونین کے الیکشن ہو اکرتے تھے۔بعض ساتھیوں نے مجھے یونین کے صدر کا امیدوار نامزد کردیا، میں اس دور میں این ایس ایف کا سرگرم رکن تھا، nominationفارم بھر کر میں اپنے گھر چلاآیا، اس دور میں ہمارے کالج میں شہنشا ہ حسین کا بہت نام تھا، اس کا مقابلہ رانا اظہر علی خان سے چلتا تھا اس کا تعلق نیشنل کالج سے تھا ۔ شام میں دروازے پر دستک ہوئی ، میں باہر گیا تو وہاں ضیاء الحسن خان کھڑے تھے ، سلام دعا کے بعد وہ مجھے گلی کے کونے پر لے گئے وہاں شہنشاہ حسین، امداد، کبیر اور دیگر چند لڑکے بھی کھڑے تھے۔ شہنشاہ حسین نے مجھ سے کہا کہ تم نے صدر کے انتخاب کے لیے فارم بھر ا ہے ، میں نے جواب دیا کہ ہاں، کہنے لگا کہ اگر جیت جاؤ گے تو کیا پروگرام کراسکو گے ، کہنے لگا کہ دیکھو یہ رہا تمہا را nomination form ،واقعی یہ وہی فارم تھا جو میں نے کالج یونین کے انتخابات کے انچارچ استاد کے پاس جمع کرایا تھا۔ کہنے لگا بہتر یہ ہے کہ آپ اپنا نام واپس لے لیں ، جب میں صدر ہوجاؤں گا تو وعدہ کرتا ہوں کہ تمام پروگرام آپ لوگوں کی مرضی اور خواہش کے مطابق ہوں گے۔ میں نے اور میرے ساتھیوں نے اس تجویز کو ہی اپنے لیے بہتر جانا اور شہنشاہ حسین صدر مقرر ہوگیا لیکن اس نے اپنے وعدے کا پاس کیا ہم نے کالج میں ادبی پروگراموں کا انعقاد کیا، مشاعرے منعقد کیے ان تمام پروگراموں میں اس نے ہماری مدد کی۔اس سے قبل کہ وہ اپنی گفتگو کو وہ مزید آگے بڑھاتے میں نے معذرت کرتے ہوئے نیرؔ صاحب سے درخواست کی کہ بہتر ہے کہ ہم اپنی گفتگو کو سوالوں کی اس ترتیب سے آگے بڑھائیں جو میں میرے پاس موجود ہے ۔ انہوں نے میری تائید کی ، اب گفتگو جس ترتیب سے ہوئی اس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

سوال : اپنی پیدائش، ابتدائی تعلیم اور بچپن کے بارے میں کچھ بتائیں ؟
جواب : میں ۱۵ اکتوبر ۱۹۴۱ء کو لکھنو میں پیدا ہوا ، ابتدائی تعلیم لکھنو ہی میں ہوئی، اسلامیہ اسکول؍ کالج لکھنو میں پڑھا، ۱۹۵۰ء میں پاکستان ہجرت کی اس وقت عمر نو سال تھی۔ پی آئی بی کا لونی میں رہائش اختیار کی، مارٹن روڈ پر ٹینٹو والا اسکول‘ میں داخلہ لیا، وہاں جو دوست بنے ان میں معروف آرٹسٹ طلعت حسین، ٹی وی پروڈیوسر محسن صدیقی مرحوم، سید نسیم حیدرشامل تھے۔ یہ اسکول آٹھویں جماعت تک تھا، چنانچہ ۱۹۵۴ء میں گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول نمبر ا، ناظم آباد میں داخلہ ہوا اور میٹرک اسی اسکول سے کیا۔ یہاں ہمارے ساتھی نعمت اﷲ صدیقی، ڈاکٹر مظاہر حسین اشرف، منورحسین، ضیاء عباس تھے۔ ۵۷ء۔۱۹۵۶ء میں میٹرک کیا، شروع میں داخلہ رضا علی کالج میں لیا لیکن سیکنڈ ائر میں سینٹر ل گورنمنٹ کالج موجودہ گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ،یہاں جو ساتھی تھے ان کے تفصیل میں آپ کو پہلے بتا چکا ہوں۔

سوال : آپ نے جب گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا تویہاں کا ماحول کیسا تھا ، اساتذہ ہم کون کون تھے ؟
جواب : اس دور کے اساتذہ واقعی طلبہ کی سر پرستی و رہنمائی کیا کرتے تھے۔ شاعری و ادب کی تمام تر سرگرمیاں جناب انجم اعظمی ، سعیدہ عروج مظہر اور ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر صفدر حسین اور ڈاکٹر عبد السلام کی سر پرستی میں ہوا کرتی تھیں۔میں شروع ہی سے شاعری کی جانب مائل تھا چنانچہ ادبی سرگرمیوں میں پیش پیش ہوا کرتاتھا۔ اس دور میں نصیر ترابی اور میں (نیرؔ سوز) نئی نسل کے نمائندہ شاعر سمجھے جاتے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ میں اس دور میں طلبہ کے مشاعروں کی بنیاد رکھنے والوں میں سے تھا۔ کالج کا ماحول ہر اعتبار سے اچھا تھا حالانکہ اس زمانے میں کالج میں طالبات بھی ہو اکرتی تھیں لیکن کبھی کوئی بد مزگی نہیں ہوئی۔ڈاکٹر صفدر حسین کے دور میں کالج نے بہت ترقی کی ، ان کی ایک خاص بات جو مجھے یاد ہے کہ ان کی قمیض کا کالر ہمیشہ دوسرے رنگ کا ہوا کرتا تھا۔

سوال : آپ ا پنے زمانہ طالب علمی کا موازنہ موجودہ دور سے کریں تو کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟
جواب : میرے زمانہ کے طالب علم اپنے اساتذہ کے مقبول اور قریب ہو ا کرتے تھے لیکن تہذیب کی جو حد تھی اس سے کبھی تجاوز نہیں کیا مثلاً مجال نہیں کہ ہم اپنے کسی استاد کے سامنے سیگریٹ پی لیں حالا نکہ بہت بے تکلف تھے لیکن ایک دائرے کے اندر آج تمیز ختم ہوگئی ہے۔ اُس دور میں ادب ایک ذریعہ تھا ، ادب کی جو تربیت ہورہی تھی وہ تمام طالب علموں کے لیے یکساں تھی آج کا طالب علم ادب سے نہ آشنا ہے ، باہمی اختلافات ، رنجشیں، حتیٰ کہ لڑائی اور مارپیٹ بھی ہوا کرتی تھی اس میں زیادہ سے زیادہ ہاکی کا استعمال ہوجا یا کرتا تھا آج کی طرح ٹی ٹی اور بندوق کا استعمال عام نہیں تھا ۔ حصول تعلیم ذریعہ روز گار نہیں تھا بلکہ ذہن کی پرورش مقصود ہوا کرتی تھی، آج حصول تعلیم صرف اور صرف ذریعہ روزگار ہے۔ہمارے دور میں تعلیمی ماحول خوشگوار ، اساتذہ کی عزت و تکریم تھی۔ کالج کے پہلے پرنسپل پروفیسر اطہر رشید صاحب کے ہاتھ میں ایک چھڑی ہو ا کرتی تھی جب وہ اپنے کمرے سے باہر نکلتے تو سنا ٹا ہو جایا کرتا تھا، ڈاکٹر صفدر حسین صاحب جو بعد میں پرنسپل ہوئے ، شاعر تھے ان کی کتاب کا عنوان شاید ’’رخت تاؤس ‘‘ ہے ۔کالج کی تزئین و آرائش ، رنگ و روغن اور پھولوں کی سجاوٹ پر وہ بہت توجہ دیا کرتے تھے کالج کو خوبصورت بنانے میں صفدر صاحب کا بہت ہاتھ ہے۔

سوال : جب آپ اس کالج میں طالب علم تھے ، کوئی ناقابل فراموش واقعہ ، اگر آپ کو یاد ہو۔
جواب : طلبہ یونین کے انتخابات تھے ، ہمارا امیدوار امیر حیدر کاظمی تھا، ہم کالج میں اس کاانتظار کررہے تھے وقت گذرتا گیا وہ نہیں آیا ، ہم سمجھ گئے کہ کوئی بات ہے ، ہم نے تھانے میں اس کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرادی، پتا چلا کے اسے اغوا کرکے سمندر کے کنارے لے گئے ہیں، وہاں کھڑا کرکے سمندر کی لہریں گنوارہے تھے، جب وقت گزرگیا تو اسے کالج کے سامنے چھوڑ گئے ، ہماری درج شدہ رپورٹ کام آئی اور اسے فارم جمع کرنے کا موقع دیا گیا۔میرے ساتھ جو واقعہ ہوا وہ میں آپ کو شروع ہی میں سنا چکا ہوں۔

سوال : اپنا کوئی شعر سنائیں جو آپ نے گورنمنٹ کالج کے زمانہ میں کہا ہو۔
جواب: ایوب خان کے خلاف تحریک شروع ہوئی تو میں نے ایک نظم کہیں تھی اس کا ایک شعر سنیے ؂
قمری کے گلے میں طوق پڑا گلشن عنادل بھاگ گئے
ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہوگا
۲۴ مارچ ۲۰۰۸ء

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1287291 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More