انقلاب کوئی کھیل نہیں !!

ملک بھر دہشت و سفاکیت اور بے یقینی نے اس قدر گہرے اندھیرے سائے ڈیرے ڈال دئیے ہیں کہ نہ جانے کب پاکستان کے باسیوں کو خوف کے کالے پانی سے رہانجات ملے گی۔مملکت خداداد ِ پاکستان میں جس طرف نظر دوڑائی جائے تو ایسی کوئی بھی شخصیت نظر نہیں آتی جو پاکستان کو درپیش مسائل سے آزاد کراسکے ۔ ہر بات کیلئے عوام کو سزا ،ظالمان وارباب اختیار کا وطیرہ بن گیا ہے۔قوموں کیلئے جد وجہد اور اس کیلئے تکلیفیں برداشت کرنا ہر کس و ناکس فرد کی بات نہیں ، اسی لئے تو جن قوموں کو زندہ رہنا ہوتا ہے وہاں ایسے لیڈر بھی پیدا ہوجاتے ہیں جو انھیں حیات جاوید کا نسخہ کیمیا ء بھی بتاتے ہیں لیکن بد قسمت ہوتی ہے وہ قوم، جو اپنے رہنماؤں کی قربانیوں سے کوئی سبق سیکھنے کے بجائے خود کو مزید تباہیوں کے گھپ اندھیروں میں گرا دیتے ہیں ۔جدید انقلاب کے نام نہاد لیڈروں کی اصلاح کیلئے تاریخی کرداروں کی جد وجہد کا ذکر ضروری ہے تاکہ عوام میزان میں ازخود فیصلہ کرسکیں۔

خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے ۔ برصغیر پاک و ہند میں انکی قربانیوں پر روشنی ڈالنا ، سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے ۔ پختون قوم میں ہی نہیں بلکہ مسلم امہ کی بیداری کی تحریک میں بھی ان کی لازوال جدوجہد تاریخ کا سنہری باب بن چکا ہے ۔باچا خان بابا مجموعی طور انگریز دور اور پاکستان میں 35سال سے زائد عرصہ پس زنداں رہے۔ جس میں 19سال سے زائد عرصہ قیام پاکستان کے بعد نوکر شاہی نے بھی انھیں اسیر رکھا۔جنگ آزادی اور بلوچستان کے معروف قوم پرست رہنما ادیب و صحافی خان عبدالصمد خان اچکزئی المعروف خان شہید کو 2دسمبر1973ء کو ان کی رہائش گاہ پر گرینیڈ بم پھینک کر شہید کیا گیا ۔ انھوں نے مجموعی طور پر 32سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔جس میں انگریز دور میں گیارہ بارہ سال ، جبکہ پاکستان بننے کے بعد کم و بیش بیس اکیس سال جیل میں رہے ، عبدالصمد خان اچکزئی بلوچستان میں صحافت کے بانیوں میں بھی شامل ہیں اور صحافت کے میدان میں تمام تر مشکلات کے باوجود گراں قدر خدمات سر انجام دیکر خود کو امر کرلیا۔جی ایم سید تحریک پاکستان کے صفِ اول کے رہنماؤں میں سے ایک تھے ، قیام پاکستان کیلئے ان کی قربانیوں کو نظر انداز کرنے سے تاریخ پاکستان کبھی مکمل نہیں ہوسکتی۔سندھ اسمبلی میں قرارداد ِ پاکستان پیش کرنے والے جی ایم سید ہی تھے اور اس قرار داد کو بھاری اکثریت سے پاس بھی کروایا۔ان کے حوالے سے مشہور کہاوت ہے کہ جب قائد اعظم پر حملے کے الزام میں پکڑے جانے والے شخص کے بارے انھیں علم ہوا کہ وہ سندھی ہے تو انھوں نے حیرت و استعجاب کے عالم میں کہا کہـ"کیا کوئی سندھی بھی انتہا پسند ہوسکتا ہے".جی ایم سید کو پاکستان میں 25سے زائد برس قید و بند کی صعوبتوں میں نظر بند و اسیر رکھا گیا اور انھیں کبھی کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا حتی کہ ان کی وفات بھی ایام اسیری کے دوران ہوئی۔ تینوں قوم پرست شخصیات میں وجہ مشترک یہ ہے کہ انھوں نے انگریزوں کے خلاف برصغیر کی آزادی کیلئے جدوجہد کی ، ظلم وستم برداشت کئے اور بلاتخصیص قوم کے حقوق کیلئے ہر سطح پر آواز بلند کی، انقلاب برپا کیا ، لیکن ایک موقع پر ان کی زندگیوں میں ایسا بھی آیا کہ اپنی قوم کیلئے حقوق حا صل کرنے کی پاداش میں انھیں استعماری قوتوں نے، پاکستان کو تسلیم کرنے کے باوجود غدار کہہ کر پابند سلال کردیا اور انگریز دور حکومت سے زیادہ پاکستان میں ان شخصیات نے جیلیں کاٹیں۔ان پر الزام سنگین نوعیت کے لگائے گئے اور کوشش یہی کی گئی کہ کسی بھی طرح انھیں سخت سے سخت تکلیف دیکر اپنے موقف سے ہٹایا جائے اور استعماری واستبدادی قوتوں کے ساتھ مفاہمت کیلئے راضی کیا جائے لیکن ہر ظلم کو برداشت کیا لیکن اپنے اصولی موقف میں تبدیلی نہ آنے دی اور یہ اپنے موقف مرتے دم تک ڈٹے رہے اور پاکستان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا۔

تاریخ یہی درس دیتی ہے کہ اٹل اصول پرست رہنما ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں اور اپنے پیروکاروں کو امن و عدم تشدد کا درس دیتے ہیں اور جو قومیں ان کی ہدایات پر عمل کرتیں ہیں وہ بالاآخر ترقی و کامرانی پا لیتی ہیں۔ اگر یہ رہنماء اپنی صعوبتوں پر تشدد کی راہ پر گامزن ہونے کا درس دیتے تو کیا آج تاریخ میں انھیں کوئی یاد رکھتا ؟۔یہ ضرور ہے کہ جن جن مفاد پرستوں نے جب اپنے رہنماؤں کی تعلیمات سے صرف نظر کیا تو پھر پوری قوم کو مشکلات نے آن گھیرا۔لیکن قدر مشترک بات یہی ہے کہ جب تک یہ تینوں رہنما زندہ رہے ، کبھی اپنی قوم سے دل برداشتہ نہ ہوئے انھیں تشدد کی راہ پر نہیں ڈالا ، اپنی قوم کے مخالف گروہ کی تنقید کو عدم تشدد سے برداشت کیا اور کبھی بھی اپنے پیروکاروں ذاتی مفادات کی بھینٹ نہیں چڑھایا۔

ان میں قدر مشترک ایک بات یہ بھی تھی کہ ان پر کبھی ملکی بد عنوانی ، کرپشن ، قتل وغارت ، جلاؤ گھیراؤ، لوٹ مار اور فسطائیت کے الزامات نہیں لگے ،ان میں قدر مشترک یہ بھی تھا کہ انھوں نے کبھی اپنی گرفتاریوں کی ڈر کی وجہ سے قوم کو مشکلات میں ڈال کر امتحان نہیں لیا بلکہ کالے قوانین کے دائرے میں ہی رہ کر بے گناہ سزا کاٹنے کو ترجیح دی۔ ا نکا بس ایک ہی جرم تھا کہ یہ مظلوم طبقے کیلئے حقوق مانگتے تھے تو بھلا جن کے حقوق کیلئے انھوں نے اپنی زندگی داؤ پر لگائی انھیں آزمائش میں کیوں ڈالتے ۔لیکن اب ان جیسے رہنماء کہاں ہیں ۔ہمیں کسی لیڈر کے انقلابی نعروں پر ان کے انقلابی منشور کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ کیا آج کے انقلاب کے داعیوں کا اپنے منشور میں قول و فعل تضاد ہے کہ نہیں ، کیا ان کا انقلاب فساد تو نہیں ، جو وہ اصلاح کے نام پر قوم پر زبردستی مسلط کرانا چاہتے ہیں۔جب بھی عالمی انقلابی شخصیات کی مجموعی زندگی اور ان کی جد وجہد پر اجمالی نظر بھی دوڑائیں تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ جو مشن لے لیکر اٹھے تھے تو ان کا مقصد اقتدار کا حصول نہیں بلکہ انسانی حقوق کی بالادستی اور مستحکم نقلابی نظرئیے کی بنیاد تھا ۔ آج بھی ان کے مخالفین انھیں نہ جانے کس کس القابات سے یاد کرتے ہیں۔ لیکن تاریخ ثابت کرتی ہے کہ انھوں نے کبھی پُر تشدد سیاست نہیں کی کیونکہ یہ سیاست کو کاروبار نہیں بلکہ خدمت سمجھتے تھے۔آج پاکستان میں گلی گلی سے انقلاب کی آواز اس طرح اٹھتی ہیں جیسے کوئی کباڑی ، فالتو اشیا ء خریدنا چاہتا ہو۔ انقلاب ، محلات میں بیٹھ کر نہیں آتا کہ اپنے لئے تو اربوں روپوں مالیت کے پرتعیش محلات ،لیکن غریبوں کیلئے قبر کی دو گز زمین بھی میسر نہیں۔انقلاب ایسا نہیں آتا کہ اپنے لئے تو کروڑوں روپوں مالیت کی بم پروف گاڑیاں ، لیکن غریب عوام کو سفر کرنے کیلئے گاڑیوں کی چھتوں پر بیٹھ کر اپنی جان جھوکھم میں ڈال کر عزیز رشتے داروں کے پاس جانا۔انقلاب ایسے نہیں آتا کہ اپنے لئے تو یورپ سے کپڑے اور غریب کو کفن بھی ملے تو ایدھی سینٹر کی زکوۃ سے۔ اپنے لئے تو اعلےٰ سے اعلیٰ تعلیمی ادارے ، اور غریب عوام کیلئے بنائے گئے ٹاٹ اسکولوں پر بھی قبضہ کرکے بھنیس کے باڑے ۔ اپنے لئے تو صحت کی اعلیٰ سہولیات ، غریب کو تو مرنے کا زہر بھی میسر نہیں ۔انقلاب لانے والے خود بتائیں کہ جب فائیو اسٹار ہوٹلز و تقریبات میں انقلاب کا اعلان کرتے ہیں تو کیا کوئی غریب عوامی نمائندہ ان کے شانہ بہ شانہ ہوتا ہے یا پھر جاگیر دار ، وڈیرہ ،سرمایہ دار، ملک ، خوانین ، بیورو کریٹس اور خوشامدی ٹولہ ان کے ساتھ ہوتا ہے ؟۔ دو فیصد مراعات یافتہ طبقے کے نمائندے ہوکر غریبوں کے خون کی ہولی کو انقلاب کہتے ہو۔اپنی اولادوں کو محفوظ و پر تعیش محلات اور بیرون ملک میں اربوں روپوں کی جائیداد و کاروبار کیساتھ ، پاکستانی عوام پر حکومت کرنے کیلئے بادشاہی طرز عمل اختیار کرنے والے انقلاب کس چڑیا کا نام ہے کیا جانیں، انقلاب لانے کیلئے انقلابی تو بنیں۔ عوام ایسے انقلابیوں کو مسترد کردیں جن کے قول و فعل کے تضاد اظہر من الشمس ہیں۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 662826 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.