تبدیلی اب ناگزیر ہے!

ملک اس وقت ایک ایسے سیاسی بحران کی زد میں ہے کہ جس سے نکلنے کا کوئی سیدھا راستہ دیکھائی نہیں دے رہا۔۔۔سیاست افہام و تفہیم کی بنیاد پر پلتی اور پنپتی ہے۔۔۔جو جتنا بڑا سیاست دان ہوگا وہ کسی بھی مسلئے کا شکار نہیں ہوگایا کسی مشکل میں نہیں پھنسے گا اور اگر پھنسے گا بھی تو اپنی سیاسی بصیرت کی بنا پر با آسانی نکل جائے گا۔۔۔یہ سیاسی بصیرت کیا ہے۔۔۔جی ہاں تحمل مزاجی اور ٹھراؤ۔۔۔سیاست میں ہٹ دھرمی کی کوئی گنجائیش نہیں ہے۔۔۔ہٹ دھرمی کی بدولت آمریت ، آمریت بنتی ہے اور جمہوریت میں بھی آمرانہ مزاج آجاتا ہے۔۔۔سیاست تو نام ہی کچھ دینے اور لینے کا ہے۔۔۔مطلب عوام کو کسی بھی طرح سے تکلیف نہ پہنچائی جائے۔۔۔دراصل سیاست دان کی اولین ترجیج عوامی مسائل کا حل ڈھونڈنا اور ان کے ذریعے عوام کہ لئے آسانی پیدا کرنا ہے۔۔۔

پاکستان میں ہر کام نرالا ہوتا ہے۔۔۔کوئی کچھ بھی کہنے اور کرنے کا مجاز ہے۔۔۔پاکستان کہ لوگ کسی عمل، چیز یا شخصیت سے بہت جلداوب یا اکتا جاتے ہیں۔۔۔اسی طرح مرعوب بھی ہو جاتے ہیں۔۔۔ ایک ہی موسم سے اکتا جاتے ہیں۔۔۔کسی ایک کو سپورٹ کرکر کہ اکتا جاتے ہیں۔۔۔مصباح کی کارگردگی اچھی ہے مگر ٹیم کی اچھی نہیں۔۔۔مصباح کو کپتانی سے ہٹاؤ ۔۔۔ٹیم کی کارگردگی اچھی ہے مگر مصباح کی اچھی نہیں۔۔۔مصباح کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی۔۔۔مصباح سے اکتا گئے ہیں۔۔۔آزادی ِپاکستان سے اب تک ۴ یا ۵ وزرائے اعظم ہونے چاہئے تھے(جمہوری دور کی مدت کہ حوالے سے)۔۔۔۲۷ وزرائے اعظم اس کرسی پر جلوہ افروز ہوچکے ہیں۔۔۔کوئی اداکار ہو یا اداکارہ، کوئی گلوکار ہو یا گلوکارہ۔۔۔کوئی مضمون ہو ۔۔۔کوئی شاعر ہو۔۔۔اگر یوں کہا جائے کہ جو چیز ہم بدل سکتے ہیں اسے جتنی جلدی ہوسکتا ہے بدل لیتے ہیں۔۔۔گاڑیاں والے گاڑیاں بدل رہے ہیں۔۔۔موٹر سائیکل والے موٹر سائیکل بدل رہے ہیں۔۔۔سائیکل والے سائیکلوں پر سائیکلیں تبدیل کئے جا رہے ہیں۔۔۔ہم طبعیتاًیا فطرتاً ایسے ہیں یا ہوگئے ہیں۔۔۔۔قانون کی بالادستی کا ہر کوئی رونا روتا دکھائی دیتا ہے۔۔۔دوسری طرف ہر کوئی اپنی مرضی کا قانون چاہتا ہے۔۔۔کسی سے نظریاتی اختلاف، کہیں شخصی، تو کہیں فقہی اختلاف ہونے پر پارٹیاں بدلتے نظر آتے ہیں۔۔۔ٹریفک کہ سگنل پر ایک منٹ کہ لیئے رکنا محال ہے ، ذر سی جگہ ملی یہ جا وہ جا ۔۔۔ہمارے ملک کہ مختلف کھیلوں سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں کو دیکھئے کبھی ایسی کارگردگی دکھائیں گے کہ دنیا کو حیران کردینگے۔۔۔دوسرے ہی دن ایسے جلوہ گر ہونگے کہ جیسے اس کھیل سے واقف تک نہیں۔۔۔اسکول جانے والے بچے اپنے لنچ بکس، تھرماس اور بستے کی تبدیلی کا تقاضہ کرتے نظر آتے ہیں۔۔۔موبائل تبدیل ہو رہے ہیں۔۔۔گھر میں رکھے ہوئے سامان کی جگہیں تبدیل ہورہی ہیں۔۔۔ملک کہ حالات و معیشت میں استحکام نہیں ہے۔۔۔صبح و شام چیزوں کی قیمتیں تبدیل ہو رہی ہیں۔۔۔یہی وجہ ہوگی جو لاتعداد فرقے بن چکے ہیں۔۔۔اچھے کو بہت دن تک اچھا نہیں کرنے دیتے ۔۔۔برے کی برائی بھی زیادہ دن برداشت نہیں کرتے۔۔۔یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے۔۔۔اختلاف آپ کا حق ہے۔۔۔جبکہ ہم وہ لوگ ہیں جو ایک اﷲ ، ایک رسول ﷺ اور ایک کتاب قرآن پاک کہ ماننے والے ہیں۔۔۔ہماری طبعیتوں میں تو انتہا کی یکسوئی ہونی چاہئے تھی۔۔۔مگر ایسا نہیں ہے۔۔۔

آخر ایسا کیوں ہے ۔۔۔جواب کم و بیش سب ہی دے دیں۔۔۔یعنی مرض سے سب واقف ہوں ۔۔۔مگر تشخیص پر کسی نے کبھی توجہ نہیں دی۔۔۔ اس مرض کی بہت سی وجو ہات ہونگی ۔۔۔اسکی اہم ترین وجہ قانون اور قائدے کا نہ ہونا ہے۔۔۔ہمارا وطن ہمیشہ سے غیر مستحکم ہے۔۔۔عدم استحکام آہستہ آہستہ ہماری عادت یا فطرت بن چکا ہے۔۔۔جہاں گاڑی نہ کھڑی کرنے کا بورڈ لگا ہو اور وہاں ایک یا دونہیں انگنت گاڑیاں کھڑی نظر آئینگی۔۔۔گزر گاہ پارکنگ کی شکل میں تبدیل ہوجائیگی۔۔۔منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوگا۔۔۔مگر کوئی کچھ کہنے اور کرنے والانظر نہیں آئیگا۔۔۔جس کا جو دل چاہے کرتا پھرے۔۔۔تو پھر پوری قوم وہی کرتی پھر رہی ہے۔۔۔جس کا جہاں دل چاہا وہیں گٹکے یا پان کی پیک مار کر جگہ کو رنگ دار کردیا۔۔۔ کوئی روکنے یا ٹوکنے والانہیں ۔۔۔جس کا جو چاہے کرتا پھرے۔۔۔کوئی موبائل ، بائک ، کار یا خواتین سے پرس چھینے ۔۔۔چھین لے۔۔۔کوئی کچھ کہنے اور کرنے والا ہے ہی نہیں۔۔۔اگر غلطی سے کوئی ہاتھ آبھی جائے تو سامان آدھا آدھا کی بنیاد پر خارج ہوجا تا ہے۔۔۔آپ اپنے دائیں بائیں دیکھیں ایک حجم ِ غفیر ہے ۔۔۔مگر سب اپنی موج میں اپنی ترنگ میں چلے جا رہے ہیں۔۔۔

اگر ایسا ماحول کسی گھر کا ہو تو وہ گھربہت دن تک نہیں چل سکتا۔۔۔ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائیگااور رہنے والے الگ الگ ہوجائینگے یا وہ بٹ جائیگا۔۔۔ اگر ایسے ماحول کو تبدیل کرنے کی کوئی ٹھان لے ۔۔۔اسکا ساتھ دینے والوں کی تعدادٹھیک ٹھاک ہو۔۔۔اکثریت کی بھرپور حمایت بھی حاصل ہو۔۔۔مگر پھربھی اسے روکنے والے کو آپ کیا کہینگے ۔۔۔آپ کو لازماً کچھ نہ کچھ کہنا پڑیگا۔۔۔اس فرسودہ اور بدبو دار نظام سے ہم سب ہی جان چھڑانا چاہتے ہیں۔۔۔مگر اس کیلئے کسی قسم کی قربانی دینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔۔۔بڑے بڑے سیاستدان تک یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ یہ لوگ جو سڑکوں پر نکلے ہیں ان کے جو تکاضے ہیں وہ بجا ہیں۔۔۔اگر واقعی یہ ٹھیک ہیں تو انہیں کیوں امتحان میں ڈالا ہوا ہے۔۔۔انہیں انقلاب اور آزادی ملنی ہی چاہئے ۔۔۔یہ پوری قوم کیلئے وہاں بیٹھے ہیں۔۔۔ہماری عقل ہم سے تقاضہ نہیں کر رہی کہ جس طرح بھی ان لوگوں کا ساتھ دیں۔۔۔کم سے کم یہ ہماری اخلاقی حمایت کہ مستحق تو ہیں۔۔۔جہاں جہاں جو جس سطح پر اس پیغام کو عام کرے ۔۔۔یا لوگوں میں اس شعور کو بیدار کرے ۔۔۔وہ سمجھے کہ اپنی ذمہ داری کسی حد تک ادا کر رہا یا رہی ہے۔۔۔یہ نظام بدل گیا تو استحکام آجائے گا۔۔۔ملک میں اور ہمارے اندر بھی۔۔۔ضد اور انا سے حالات خراب ہوتے ہیں، چیزیں ٹوٹتی ہیں۔۔۔اسکے بعد فقط رونا باقی رہے جاتا ہے یعنی پچھتاوا۔۔۔اس بعد کہ اپنی باقی زندگی کہ رونے سے اپنے آپ کو بچا لیجئے۔۔۔اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل بچا لیجئے۔۔۔ہمت اور حوصلے سے کام لیجئے۔۔۔تبدیلی اب ناگیزیر ہے۔۔۔
Sh. Khalid Zahid
About the Author: Sh. Khalid Zahid Read More Articles by Sh. Khalid Zahid: 526 Articles with 407562 views Take good care of others who live near you specially... View More