دم نہ کشیدم

ہر سال بارشیں ہوتی ہیں اور دریا بھی بپھرتے ہیں مگر اب کے سیاسی دریا ایسا بپھرا ہے (یا بپھرایا گیا ہے!) کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ مون سون گزر رہا تھا اور لوگ حیران تھے کہ جن بادلوں کو برسنا تھا وہ تو برسے نہیں اور اسلام آباد کی فضاء سے اُٹھنے والے احتجاجی بادل ایسے برسے ہیں کہ اب کسی مقام پر رُکنے اور سانس لینے کا نام نہیں لے رہے۔ ریڈ زون میں ہونے والی احتجاجی بارش نے سیاست کی سڑک کو محض زیر آب لانے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اچھی خاصی دلدل کی سی کیفیت پیدا کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔
قوم حیران ہے کہ اب کے ایسا کیا ہوگیا ہے کہ حالات کی نزاکت بھی دھرنوں کو ختم کرنے میں ناکام ہے۔ آپ حالات کی نزاکت کو کوئی الزام نہ دیں۔ مرہم کا کام ہے زخم کو مندمل کرنا۔ اب اگر مرہم استعمال کرنے سے گریز کرے بلکہ مرہم کی شکل دیکھنا بھی پسند نہ کرے تو اِس میں مرہم کا کیا قصور؟

منتخب وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ کرنے والوں نے ’’ثابت قدمی‘‘ اور ’’اولوالعزمی‘‘ کے معاملے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ حد یہ ہے کہ قدرت نے اتمامِ حجت کا اہتمام کرتے ہوئے دریاؤں کو بَھر ہی نہیں دیا بلکہ بے قابو بھی کردیا ہے مگر دھرنے دینے والوں کا دِل ابھی بھرا نہیں۔ وہ ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔ لاکھوں افراد نقل مکانی کرگئے ہیں مگر لے دے کر ایک دھرنے والے ہیں کہ معمولی سی نقل مکانی کا بھی نہیں سوچ رہے۔

انسانوں کی پیدا کردہ ہنگامی حالت کے مقابلے میں قدرت کی پیدا کردہ ہنگامی حالت فوری ریسپانس کی متقاضی ہوتی ہے۔ وسطی پنجاب کے بیشتر علاقے اور آزاد کشمیر سیلاب کی لپیٹ میں ہے مگر قوم حیران ہے کہ اُسے بے یقینی کی کیفیت سے دوچار کرنے والے اب بھی کسی کی بات ماننے کو تیار نہیں۔ خدا جانے اِس بار کون سے خفیہ حکیم کی معجون کھائی ہے کہ احتجاجی اسٹیمنا ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ قوم مصیبت میں ہو اور قوم کو مشکل سے نکالنے کے دعویدار وطن میں یا وطن سے دور سیر و تفریح میں مشغول ہوں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ چار سال قبل سندھ میں سیلاب آیا تھا تب بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری اہل خانہ کے ساتھ فرانس میں تعطیلات گزارتے رہے۔ سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے پیش نظر تجزیہ کاروں نے اُس تفریحی دورے کو سَفّاکی قرار دیا۔ اور ایسا کہنا کچھ غلط بھی نہ تھا مگر اِسے کیا کہیے کہ قوم کے تازہ ترین نجات دہندہ ملک کے دارالحکومت میں ہیں اور سیلاب کی تباہ کاریاں دیکھ کر بھی جذبات کی رَو میں بہنے کو تیار نہیں؟

عمران خان اور طاہرالقادری نے جن نکات کی بنیاد پر احتجاج کا ڈول ڈالا تھا وہ سارے کے سارے غلط یا بلا جواز نہ تھے۔ سبھی چاہتے ہیں کہ نظام کو درست کرنے کی راہ ہموار ہو۔ مگر درست کرنے کی کوشش میں نظام کو مزید خراب کرنے میں کہاں کی دانش مندی ہے؟ 2013 کے انتخابات میں کی جانے والی مبینہ دھاندلی اور انتخابی نظام کی خرابیوں کو دور کرنے کے نام پر احتجاج شروع ہوا تو ہزاروں افراد ساتھ ہولیے۔ سب کو یقین تھا کہ حکومت پر دباؤ بڑھے گا تو بہتری کی کوئی تو صورت نکلے گی۔ قوم حیران و پریشان ہے کہ ابتلا کی اِس گھڑی میں بھی یارانِ وطن سیلاب زدگان کی مدد کے لیے کمر کَسنے کے بجائے احتجاجی ریلے ہی میں بہے جارہے ہیں!

سیاست دان کون ہوتے ہیں؟ وہ جو حالات اور واقعات پر نظر رکھتے ہیں اور وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنے فکر اور حکمتِ عملی میں تبدیلی لاتے ہیں۔ پھر ہمارے سیاست دانوں کو کیا ہوگیا ہے کہ حالات پر نظر رکھنے سے بھی کترا رہے ہیں۔ اور حالات بھی کیا؟ ہنگامی حالت کہیے۔ ملک کا ایک بڑا حصہ سیلابی ریلوں میں غلطاں ہے۔ کچے مکانات گرتے جارہے ہیں، اُن میں دب کر لوگ جاں بحق ہو رہے ہیں، کھڑی فصلیں تباہی سے دوچار ہوچکی ہیں، مال مویشی بھی سیلابی ریلوں کی نذر ہوئے۔ ایسی حالت میں بھی یاروں کو سسٹم کی پڑی ہے۔ احتجاج برحق ہے مگر یہ کیسا احتجاج ہے کہ وقت اور حالات کی نزاکت کو بھی خاطر میں لانے سے اِنکاری ہے؟

قوم کو خلفشار سے لڑتے ہوئے ایک ماہ ہوچکا ہے۔ احتجاج اور انتشار کی کیفیت ایک ماہ قبل پیدا ہوئی تھی۔ اِس دوران میڈیا کے ذریعے جو کچھ اِس قوم کے گوش گزار کیا گیا ہے اور جو مناظر اہلِِ وطن نے دیکھے ہیں وہ کسی بھی اعتبار سے اطمینان بخش نہیں۔ اسلام آباد کی ہتھیلی پر دھرنوں کی سرسوں جمانے والوں نے سیکڑوں بار یقین دلایا ہے کہ خوش خبری ملنے والی ہے مگر اب تک ایک بھی ایسی خبر نہیں آئی جو اہلِ وطن کے مُرجھائے ہوئے چہروں پر مسکراہٹ کی تابانی بکھیر دے۔ ذہانت بلا کی ہے اِس لیے اپنی ہر خوش خبری اور پیش گوئی کو یہ لوگ open-ended رکھتے ہیں، یعنی کوئی بھی مفہوم کشید کیا جاسکتا ہے۔ اگر اِتنا بھی نہ جانتے ہوں تو سیاست کیا خاک کریں گے!

تحریک انصاف کی کور کمیٹی نے بدھ کی شام عمران خان کے کنٹینر پر اجلاس میں طے کیا کہ وزیر اعظم کے استعفے تک دھرنا جاری رہے گا۔ گویا ملک سیلابی نالوں میں بہتا رہے، تحریک انصاف کا پرنالا وہیں گرتا رہے گا! ملک کی مجموعی صورت حال میں دھرنا چھوڑ کر امدادی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینا کیا ایسا فیصلہ ہے جو عمران خان کو سیاسی معاملات میں کوئی ایڈوانٹیج دلاسکتا ہے؟ یہ وقت تو اور سب کچھ بھول بھال کر سیلاب زدہ علاقوں میں غریبوں اور لاچاروں کی مدد کرنے کا ہے۔ ملک میں سیلاب زدگان کی بھرپور امداد کا ماحول بن رہا ہے۔ ایسے میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی ساری پبلک سپورٹ کہیں دھرنوں میں نہ بہہ جائے!

سندھ اِس اعتبار سے خوش نصیب صوبہ ہے کہ وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ اور اُن کی کابینہ کے ارکان ہر طرح کی صورت حال سے چند پُرلطف لمحات کشید کرلیتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا دل فریب باتوں سے عوام کا دل بہلایا کرتے تھے۔ یہ منصب اب خاصے پُرلطف انداز کے ساتھ منظور وسان صاحب کو مل گیا ہے۔ اور خود شاہ صاحب کیا کم ہیں۔ پیر جو گوٹھ (خیرپور) میں دریائے سندھ کے حفاظتی پُشتوں کا معائنہ کرتے ہوئے اُنہوں نے یہ پتے کی بات بتائی کہ ’’دریا تو بادشاہ ہے۔ وہ اپنی مرضی سے رُخ بدلتا ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ وہ سیدھے راستے سے سمندر میں جائے۔‘‘

شاہ صاحب کی حِسِ مزاح کے قُربان جائیے۔ اگر وہ دریا کو سیدھے راستے سے سمندر میں بھیجنے کی کوشش کرسکتے ہیں تو ذرا دھرنے والوں کو بھی کوئی سیدھا راستہ دکھادیں۔ یہاں شاہ صاحب کو ذرا زیادہ محنت کرنی پڑے گی کیونکہ دھرنے والے ہیں تو دریا مگر سمندر میں گرنے کے بجائے اِس امر کے لیے کوشاں ہیں کہ سمندر اُن میں آ گرے! یہ سب کچھ ایسا سِحر انگیز ہے کہ قوم ’’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بن کر رہ گئی ہے۔

M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 486014 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More