کراچی کے ملامتی سیاست

پاکستانی سیاست بھی ایک بڑا عجیب کھیل ہے کہ جس شخص نے مضبوط مرکز کیلئے متفقہ آئین بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا ، اسی شخص کو غداری کے الزام میں سندھ میں قائم حیدرآباد ٹریبونل نے پابند سلال کردیا ۔ولی خان ایک ایسے’ غدار ‘تھے جس کے ساتھ ملکر ہر محب الوطن پارٹی مخلوط حکومت بنانا چاہتی تھی تو اپوزیشن ان کے ساتھ ملکر جمہوریت کی بقا کے لئے جدوجہد بھی کرتی تھی۔پیپلز پارٹی نے انھیں غدار کہا تو ان کیساتھ ملکر صوبہ سرحد میں حکومت بھی بنائی،ذوالفقار علی بھٹو انھیں حزب مخالف کے بجائے نائب وزیر اعظم کا عہدہ پیش کرتے رہے، مسلم لیگ نے تو انھیں قیام پاکستان سے قبل بھی غدار کہا تو قیام پاکستان کے بعد ہمیشہ غدار ہی کہتے رہے ، آج اسی مسلم لیگی حکومت کی حمایت کیلئے ولی خان کے پیش رو بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں، جب کہ اس قبل اے این پی والے پیپلز پارٹی کے آگے بین بجاتے رہے تھے۔ نواز شریف نے ان کیساتھ ملکر مخلوط حکومت بھی بنائی ، جماعت اسلامی جو قیام پاکستان کے وقت سے ہی خدائی خدمت گاروں کی مخالف تھی ، ولی خان کیساتھ ملکر ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اتحاد میں شریک رہی۔ ولی خان نے مسلم لیگ اور بانی پاکستان کی سیاست سے بھی اصولی اختلاف کیا، ہندوستان کی تقسیم کو باچا خان مسلمانوں کا بٹوارہ کہتے تھے ۔ 1980ء کی دہائی میں ’حقائق حقائق ہوتے ہیں ‘ کے عنوان سے قیام پاکستان میں انگریزوں کے مبینہ کردار پر ایک اکتاب لکھ کر اپنا نقطہ نظر تاریخی حوالوں کے ساتھ بیان کیا۔لیکن جب آمریت کے خلاف اصولی سیاست کا مرحلہ آیا تو اسی بانی پاکستان کی بہن فاطمہ جناح کی صدارتی مہم کیلئے کھل کر حمایت کی۔پنجاب کی سیاست ہو یا اسٹیبلشمنٹ کی منصوبہ بندی ، ولی خان نے ہمیشہ امن کی سیاست کو ترجیح دی ، کراچی میں لسانی فسادات میں جب حالات انتہائی خراب ہوچکے تھے ، ولی خان نے الطاف حسین کا ہاتھ تھام کر انھیں یقین دلایا کہ اگر آپ کیساتھ اس وقت کوئی نہیں تو اس پٹھان نے جو ہاتھ آپ کے ہاتھ میں دیا ہے ، وہ کبھی نہیں چھٹے گا۔کراچی کی تاریخ نے ثابت کیا کہ ولی خان نے الطاف حسین کا ہاتھ ان حالات میں تھاما ، جب ایم کیو ایم کا وجود خطرے میں تھا ، ان پر غداری کے سنگین الزامات عائد کئے جاچکے تھے ، ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین سمیت صف اول کی تمام قیادت مصائب کا شکار ہوچکی تھی اور ریاست ان کے خلاف مختلف سنگین الزامات کے بعد آپریشن کر رہی تھی ۔ولی خان کے علاوہ پاکستان کی کوئی بھی سیاسی و مذہبی جماعت ایم کیو ایم کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کر رہی تھی لیکن ولی خان نے قیام امن کے خاطر بہت بڑا رسک لیکر لسانی فسادات و قتل وغارت کے منصوبے کو جس طرح ایوب خان کے دور میں فاطمہ جناح کی حمایت کرکے ختم کیا تھا اسی طرح کراچی میں مہاجر ، پختون دشمنی کو منوں مٹی تلے دبا دیا ۔کراچی میں امن قائم ہوا اور پختون مہاجر جھگڑا اپنے انجام پر پہنچا ، لیکن ایک بار پھر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کراچی و حیدرآباد میں ایم کیو ایم سے لڑانے کیلئے بھیانک کھیل بارہ مئی2007ء کو کھیلا گیا اور کراچی میں لسانی عدوات نے بام عروج حاصل کیا ۔مرادن کے علاقے بابو زئی سے آنے والے ایک غیر سیاسی شخص نے ، جو ناظم آباد میں مخالف امیدوار کو پچاس ہزار رشوت دینے کے باوجود ، کونسلری کا الیکشن بھی نہیں جیت سکا تھا اور پشتو فلموں میں کام کرنے کا انتہائی شوقین تھا اس نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا ، میرے کانوں میں آج بھی اقبال بونیری کی آواز گونجتی ہے" فروخت کردیا ، فروخت کردیاکروڑوں روپوں میں پختونوں کے خون کو فروخت کردیاگیا" ، اُس ولی خان نے جس نے کراچی میں قیام امن کیلئے مثال قائم کی تھی ، اس کے جانشین نے بارہ مئی کے واقعے کے بعد تین دن کی ہڑتال رکوانے کیلئے اس وقت اے این پی سندھ کے صدر شاہی سید کو تنبہہ کی اگر ان تین دن میں کوئی ایک شخص بھی قتل ہوا تو اس کی ایف آئی آر تم پر کٹوا دوں گا، جس پر شای سید ڈر گیا اور تین دن کی ہڑتال کی کال واپس لے لی۔اسفندیار ولی خان نے کراچی میں ہر اس پختون کے گھر و علاقے میں جاکر تعزیت کی جو بارہ مئی کے واقعے میں شہید ہوا تھا لیکن انھوں نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے سے گریز کیا اور ان کے پارٹی کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات اقبال بونیری مرحوم روتے ہوئے جب ڈیفنس کے بنگلے کی پہلی منزل کی سیٹرھی سے اتر رہا تھا تو اس کا کہنا وقت نے ثابت کردیا کہ" باچا خان کی جماعت آج پراڈو ، لینڈ کروزر والوں نے خرید لی ہے، کروڑوں روپے لیکر شہیدوں کے خون کو فروخت کردیا گیا" ۔ کراچی میں لسانی سیاست کا لوہا جتنا گرم کیا جاتا ، اس کے اثر براہ راست پاکستان پر پڑتا لیکن کراچی کو لاوارث چھوڑ دیا گیا اور مختلف قومیتوں کے درمیان غلط فہمیاں دور کرنے کی کسی نے کوشش نہیں کی ، اگر شاہی سید ایم کیو ایم پر الزام لگاتے تو ایم کیو ایم بھی الزام لگاتی کہ بارہ مئی کی پلاننگ عرفان اﷲ مروت کے گھر میں کی گئی اور اسلحہ گاڑیوں میں کھلے عام لے جایا گیا ۔چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری کی آمد و استقبال کیلئے اتنا اسلحہ کیوں لے جایا گیا ۔ پھرہر سال بارہ مئی کی برسی کے نام پر مفادات کی سیاست کی گئی اور بے گناہ انسانوں کے خون سے’ نامعلوم‘ دہشت گرد اپنے ہاتھ رنگتے رہے ، کراچی میں دہشت گردی ٹارگٹ کلنگ کا سوئچ یکدم آن ہوجاتا اور پھر یکدم آف ہوجاتا ، پھر ایک خفیہ مقام پر معاہدہ کرکے بارہ مئی کی برسی منانا ختم کردی گئی ، جو شخص کونسلر نہیں بن سکتا تھا ایسے اس لئے سینٹیر بنایا گیا کہ کراچی سے جب یہ رکشے والا سینٹ جائے گا تو کراچی میں قتل و غارت کا لسانی بازار کو سرد کرنے میں مدد ملے گی۔بالاآخر اس معاہدے پر عمل کیا گیا تو کراچی میں پچاس لاکھ پختونوں کی لیڈری کا دعوے دار ایسا غائب ہوا کہ آج وہ کراچی میں ہی نہیں پایا جاتا ، ولی خان کی اصولی سیاست کو مورثی سیاست بنا دی گئی ، کارکنان کو نظر انداز کردیا گیا ، شہدا کے گھر فاتحہ خوانی تو کیا جنازے میں بھی شرکت سے گریز کیا گیا۔ من پسند افراد کو عہدے دئیے جانے لگے ، جس کے سبب کراچی میں زمینیوں پر اور فلیٹوں پر قبضوں کا نہ رکنے والا سلسلہ چل نکلا ۔ جتنی لاشیں کراچی میں گرتیں ان کا ان دونوں جماعتوں کے ساتھ براہ راست تعلق نہیں ہوتا تھا ، لیکن اسکورنگ کیلئے اسے اپنا کارکن و ہمدرد بنا کر کراچی میں خوف و ہراس کی فضا میں اضافہ کیا جاتا ، اس موقع پر قصور کسی ایک جماعت کا نہیں تھا بلکہ مخالف جماعت بھی ہر عمل کو ردعمل کہتی رہی اور جو الزامات وہ لگاتی اس سے یادہ سنگین الزامات کا سامنا کرنا پڑتا لیکن ثبوت کوئی بھی فراہم نہیں کرتا۔ سندھ ، خیبر پختونخوا اور وفاقی حکومت میں ہونے کے باجود پختونوں کے مسائل نہ کراچی میں حل ہوئے اور نہ ہی خیبر پختونخوا میں حل ہوسکے اور پختون عوام نے قومیت کے نام پر کی جانے والی سیاست کو یکسر مسترد کردیا ۔گذشتہ دنوں ولی خان مرحوم کی بیوہ نے سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے ولی گروپ کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنا لی ، لیکن کراچی میں پذئرائی نہیں مل سکی، کراچی میں پختون قوم قیا م امن کیلئے عدم تشدد کی سیاست کرنے والوں کے منتظر ہیں ، پھر اے این پی میں الیکشن کا مرحلہ آیا تو اس بات کو بھی نظر انداز کردیا گیا کہ 2013ء کے الیکشن میں ناکامی کی سب سے بڑی وجہ اقربا پروری اور مورثی سیاست کے ساتھ کرپشن کو قرار دیا گیا تھا ، فیکٹ فائنڈنگ روپوٹ کے بعدنومبر2012ء میں ہونے والی پارٹی الیکشن کو معیاد پوری کرنے سے قبل ہی پورے پاکستان میں تحلیل کردیا گیا ،2014کے الیکشن میں پرانی تاریخ دوہرائی گئی اور اے این پی واضح طور پر ناراض گروپ اور کچن کیبنٹ میں منقسم ہوگئی۔ جس طرح ایم کیو ایم کے تنظیمی ڈھانچے کراچی تنظیمی کمیٹی اور رابطہ کمیٹی کو الطاف حسین نے بار بار توڑا اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین بار بار قیادت سے دستبرداری کا فیصلہ کرتے ہیں ، اس کی وجہ سے کراچی کی سیاست کے خدوخال واضح نظر آجاتے ہیں کہ احتساب کا عمل مسلسل نہ کئے جانے کے سبب بگاڑ پیدا ہوا ، اے این پی کی طرح ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے بھی جنرل ورکر اجلاس میں آن ریکارڈ کہا کہ" تنظیمی عہدے پسند و نا پسند کی بنیاد پر دئیے جارہے ہیں" ، کرپشن کے الزامات کی بنا ء پر تمام کارکنان و ذمے داران سے دوبارہ کوائف مانگے جارہے ہیں کہ جب ایم کیو ایم میں آئے تھے تو اس وقت ان کے اثاثے کتنے تھے اور اب کتنے ہیں ، گروپ بندیوں پر الطاف حسین کا سخت ایکشن ایم کیو ایم کے تمام کارکنان و ذمے داران بخوبی جانتے ہیں ، دیکھنا اب یہ ہوگا کہ ایم کیو ایم اپنے اس احتسابی عمل کے نتائج سے عام عوام کو آگاہ کرتی ہے یا نہیں کہ ایک شادی ہال میں بطور ویٹر کام کرنے والا کراچی کے آدھے سے زیادہ شادی ہالوں کا مالک کیسے بن گیا ،وغیرہ وغیرہ۔ اے این پی کو بھی چاہیے کہ وہ احتساب کا شفاف عمل کو یقینی بنائے کہ جس کے پاس ایک رکشہ تھا آج وہ ارب پتی کیسے ہوا اور جس کے موبائل فون کے بل ادا کرنے کے پیسے نہیں ہوتے تھے وہ ملائیش و دوبئی ا میں اربوں کے کاروبار میں پارٹنر کس طرح بنا ۔تظہیر کا عمل سیکورٹی اداروں کو اوپر ی سطح سے شروع کرنا ہوگا تب ہی جا کر سیاسی جماعتوں میں موجود کالی بھیڑوں سے نجات اور امن ملیگا۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 662095 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.