تضاد

تحریر۔آشاہینؔرا ٹھور
پاکستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہوتے اورصدر آصف علی زرداری کے رخصت ہوتے ہی اُردو لغت کے اندر ایک نیا انقلاب آگیا ہے جس سے اُردو لغت میں ایک نئے لفظ کا اندراج ہونے جا رہا ہے اوروہ لفظ ہے’’ ممنون حسین‘‘ جسکے معنی ہوں گے ’’غائب ہو جانا‘‘کٹ جانا’’گُم ہو جانا‘‘’’قید ہو جانا‘‘لا پتہ ہو جانا‘‘آج سے اگر آپ اپنے کسی عزیز کو دوست کو رشتے دار کو پڑوسی کو غائب پائیں ،اگر آپ کی کوئی چیز گُم ہو جائے یا کوئی آپ کے سامنے’’ قید‘‘ ہو جائے تو آپ غائب ہو جانے،قید ہو جانے،کٹ جانے اور گُم ہو جانے کے لیے نئی اُرد ولغت کی رو سے لفظ’’ممنون حسین ‘‘کا استعمال کریں۔مثلاً ،آپ کے گھر میں پانی نہیں آرہا تو آپ ٹونٹی کھول کر کہہ سکتے ہیں کہ پائپ سے پانی ’’ممنون حسین ‘‘ ہو گیا ہے۔مثلاً اگر آپکا موبائل کہیں گُم ہو جائے اور لاکھ کوشش کے باوجود آپ کو نہ مل سکے تو آپ نئی اردو لغت کی رو سے پوچھنے والوں سے کہہ سکتے ہیں کہ میرا موبائل ’’ ممنون حسین‘‘ ہو گیا ہے۔مثلاً آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ آج کل پاکستا ن کے صدر’’ ممنون حسین ‘‘ہیں ،مثلاً اگر آپ کے حلقے کے وزیر،ایم ،این اے،ایم پی اے،یا ایم ایل اے کا رابطہ عوام سے کٹ جائے تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ آ ج کل ہمارے عوامی نمائندے کا عوام کے ساتھ رابطہ ـ’’ممنون حسین ‘‘ ہو گیا ہے اور مثلاً آپ ملائشیاء کے گمشدہ طیارے لیے بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ ملائشیاء کا طیارہ چند ماہ قبل ’’ممنون حسین‘‘ ہو گیا وغیر وغیرہ-

اب آ جاتے ہیں جی پاکستان کے سب سے غریب وزیر سراج الحق کی طرف جو خود کہتے ہیں کہ میں پاکستان کا سب سے غریب وزیر ہوں اور موصو ف نکل پڑے ہیں بادشاہت بچا نے کے لیے (معافی چاہتا ہوں) نواز، زرداری یا زرداری نواز جمہوریت کو بچانے کے لیے ۔غریب کو تو بادشاہت کے خاتمے کی کوشش کرنی چائیے لیکن سراج الحق صاحب تو اشرافیہ کی’’جمہوریت‘‘ بچا نے کی کوشش کر رہے ہیں، پچھلے پانچ سال یہ بادشاہت(زرداری جمہوریت) کی صورت میں مسلط رہی جسے نواز ،زرداری جمہوریت کے نام سے جانا جاتا تھااب یہ جمہورریت زرداری نواز جمہوریت ہو گئی ہے ۔پہلے زرداری نوازتا تھا اب زرداری کونوا زا جا رہا ہے صرف اور صرف ’’جمہوریت‘‘ بچانے کے لیے وہ جمہوریت جس میں’’ جمہور‘‘ بھوکا ننگاہے،بے بس، لاچار ہے،جسے،روٹی کی جگہ کھانے کو گولی،کپڑے کی جگہ کفن،اور گھر کی جگہ قبر مل رہی ہے، ہم بدلیں گے پاکستان کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آنے والوں نے واقعی پاکستان کو بدل کر رکھ دیا ہے۔جہاں سستی روٹی،لیپ ٹاپ،دانش سکول،میٹرو بس جیسے بے ڈھنگے اور فلاپ منصوبوں پر اربوں روپے لگا دیئے گئے جن سے صوبے کے صرف عشاریہ ایک فیصد لوگو ں کو فائدہ ہو گا باقی ساری قوم منہ تکتی رہ جائے گی۔خیر بات ہو رہی تھی سراج الحق صاحب کی اگر سراج الحق صاحب اپنے آپ کو غریب اور عوام کا نمائندہ سمجھتے ہیں تو انہیں اس بادشاہت نما جمہوریت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا نی کی کیا ضرورت تھی۔این ۔آر۔ او ز دہ ،کرپشن میں سر تا پا ڈوبی ہوئی،اور منافقت سے بھر پور جمہوریت ۔کاش آپ بھی اصول، سچائی،اور حق کا ساتھ دے سکتے۔وہ جمہوریت جس میں وزیر اعظم کی کابینہ میں سارے گھر کے رشتے دار ہوں ۔اور وزیر یا مشیر بننے کے لیے قابلیت کا سب سے پہلا معیار،رشتے داری،دوسرا معیار چاپلوسی،تیسرا معیار دوستی،چوتھا معیارکرپٹ ماضی ہو۔جہاں نام نہاد جمہوری کابینہ میں وزیراعظم کا بھائی ایک صوبے کا وزیراعلی ہوبیٹی سو ارب روپے کی سکیم کی مالک ہو،سمدھی وزیر خزانہ ہو،بیوی کا بھانجا بجلی کا وزیر ہو،جہاں پورے ملک کا ستر فیصد ترقیاتی بجٹ ایک صوبے پر لگایا جاتا ہو اور اُس ستر فیصد میں سے بھی 80 فیصد صرف ایک شہر پر لگایا جاتا ہو وہ شہرجس میں بادشاہ سلامت کا گھر ہو ،فیکٹریاں ہوں،ااور ذاتی کاروبار ہو،جہاں خواتین کی خصوصی نشستوں میں سے 60فیصد ایک شہر کی خواتین ہوں،جہاں 20 سال سے زائد ایک صوبے میں بادشاہ سلامت کی حکومت ہواور ایک دن کی بارش سے پورا شہر پانی میں ڈوب جائے اور وزیر اعلیٰ موصوف ہر سال پانی میں کھڑے ہو کر تصویر بنوائیں اخبارات میں ٹی وی چینلپر خبر چلائیں کے متاثرین کے ساتھ کھڑے ہیں۔20 سال میں جو سیورج کا سسٹم نہ بنا سکیں انہیں کیا حق ہے حکومت کرنے کا؟جہاں چھبیس ارب روپے صرف بیرونی دوروں پر خرچ ہوتے ہوں اور ان دوروں سے صرف آئی ایم ایف سے قرضے کی قسط جاری ہونے کا معاہدہ ہو سکے جہاں وزیر اعظم بیرونی دوروں پر عوام کے ٹیکس سے دئیے ہوئے پیسوں پر اپنے قریبی عزیزوں کو کاروبار کے لیے ساتھ لے جائے،جہاں ثواب کمانے کے لیے عمرے پر جانا ہو تو سرکاری اخراجات پر عمرہ کی ادئیگی کی جائے اور جہاں وزیر اعظم ٹریفک میں پھنس جائے یا وزیراعظم ہاؤس کے ایک مور کو آوارہ بلا کھا جائے تو اسکی پاداش میں ،ڈی سی او،ایس پی اور ڈی ایس پی سمیت متعدد اہلکار معطل ہو جائیں مگر ماڈل ٹاؤن میں 20/20 لوگ قتل ہو جائیں سینکڑوں لوگ سر عام ریاستی ظلم کا نشانہ بن جائیں اور کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگے اور جہاں سیکیورٹی کے نام پر پچیس لاکھ کے کتے بیرون ممالک سے منگوائے جائیں،اور جہاں ایک لیڈر اپنی بیٹی اور دوسرا اپنے بیٹے کو پارٹی کا مختار کُل بنا کر مستقبل میں حکومت کرنے کے لیے آج سے تیار کرلے اور عوام بھی بخوشی نسل در نسل انکی غلامی کو تیار ہو جائیں ۔لعنت ہے ایسی جمہوریت پر جس کو بچانے کے لیے سراج الحق صاحب جیسے لوگ بھی میدان میں کھڑے ہیں کیا یہ تضاد نہیں ہے۔کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہو اور یہ حقیقت ہے۔پھر وزراء معیشیت کا رونا روتے ہیں کہ دھرنوں نکی وجہ سے معشیت کا بیڑا غرق ہو گیا ہے ۔ لیکن جب ملک میں قتل و غارت کا بازار گرم ہوتا ہے،جب ملک میں بجلی کے نہ ہونے کی وجہ سے فیکٹریاں بند رہتی ہیں ملیں بند رہتی ہیں دہشت گردی کے باعث کاروبار متاثر ہوتے ہیں بھتہ خوروں کی غنڈہ گردی کی وجہ سے لوگ لوٹے جاتے ہیں ،آئے دن ملک میں سوگ منائے جاتے ہیں ،جبری ہڑتالیں کروائی جاتی ہیں،بازار کاروباری مراکز بند کروائے جاتے ہیں فائرنگ کر کے لوگوں کو گھروں میں محصور رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے تب تو کسی کو معشیت کی فکر نہیں ہوتی مگر آج جب قوم اپنے حقوق کے لیے کھڑی ہو گئی ہے آج پاکستان کی68 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی بھی حکومت کو حقیقی اپوزیشن کا سامنا ہے ورنہ اس سے پہلے تو حکومت اور اپوزیشن اپنے ذاتی مفادات پر مُک مکا کر لیا کرتی تھیں۔ جسکی واضع مثال اٹھارویں، انیسویں اور بیسویں ترامیم ہیں۔جسکی واضع مثال حالیہ دھرنوں کے نتیجے میں حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام چوروں ،ڈاکوؤں ،لٹیروں،غاصبوں، سرداروں،جاگیرداروں،وڈیروں، موقع پرستوں کا اکٹھ ہے۔ مجھے عمران خان کی ضد اور ہٹ دھرمی سے بھی گلہ ہے اگر اس دھرنے کے بجائے عمران خان خیبر پختون خواہ میں الیکشن ریفارمز کر لیتے،اپنے صوبے میں کچھ ڈلیور کر تے،قومی سمبلی میں میں تحریک پیش کرتے اور صوبائی الیکشن کمیشن کو صوبے کے اختیارات میں لے آتے بائیو میٹرک سسٹم خریدتے اور پورے صوبہ خیبر پختون خواہ میں بائیو میٹرک سسٹم کے تحت بلدیاتی انتخابات کرواتے اور اختیارات نچلے طبقے تک پہنچاتے،پرویز مشرف کا بلدیاتی نظام دنیا کا سب سے بہترین بلدیاتی نظام تھا جس میں گاؤں کے کونسلر سے لیکر یونین کونسل کے ناظم ،نائب ناظم تک اور تحصیل کے ناظم اور نائب ناظم سے لیکر ضلع کے ناظم اور نائب ناظم تک ایک مثالی سیٹ اپ تھا اگر مشرف دشمنی پر اس سسٹم میں کونسلر ،ناظم یا نائب ناظم کے عہدے سے بھی اختلاف تھا تو ان عہدوں کے کچھ اور نام جیسے ،تحصیل کا امیر اور نائب امیر،ضلع امیر اور نائب امیریا پھر کوئی انتظامی عہدے کا نام رکھ لیتے اور ایک مثالی حکومت بنا کر پیش کرتے ،بائیو میٹرک سسٹم سے پولنگ ہوتی جس میں دھاندلی کاتصور بھی نہ ہو سکتا اور اقتدار حقیقت میں جمہور کو ملتا لیکن وزیر اعظم کا استعفیٰ مانگ کر اور اس پر ہٹ دھرمی سے ایک جگہ بیٹھ جانا یہ عمل نہ صرف عمران خان کی سیاست کو پیچھے لے جا رہا ہے بلکہ ان چوروں لٹیروں اور ڈاکوؤں کو اکٹھے ہونے کا موقع بھی مل گیا ہے اب یہ سب مل کر کرپشن سے سارے سابقہ ریکارڈ توڑیں گے اور عمران خان صاحب کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہو گی کیونکہ ،ان غاصبوں کا یہ گروپ اپنے ذاتی مفادات کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے کچھ بھی۔آج سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے عمران خان صاحب کو دھرناختم کر کے امدادی کاموں میں لگ جانا چاہیئے اور جب تمام متاثرین بحال ہو جائیں اس کے بعد بے شک دوبارہ منظم ہو کر دھرنا دے لیں کیونکہ ان کے اپنے لوگ بھی چوروں سے ملتے جا رہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ مستقبل قریب میں عوام کو نئی اردو لغت کی رو سے یہ لکھنا پڑے کہ آج کل تحریک انصاف اور تحریک انصاف کے چئیر مین عمران خان کہیں ’’ممنون حسین ‘‘ ہو گئے ہیں۔
Asif Rathore
About the Author: Asif Rathore Read More Articles by Asif Rathore: 14 Articles with 11530 views writer . columnist
Chief Editor Daily Haveli News web news paper
.. View More