طاہر القادری صاحب لوٹ کے اپنے گھر آئے

پاکستان میں کئی مہینوں سے جاری سیاسی بحران اب ختم ہونے کے دہانے پر ہے۔ عمران خان کا دھرنا پورے طور پربے جان ہوچکا ہے۔ ہر چند کہ وہ اب تک اس دعوے پر اٹل ہیں کہ نواز شریف سے استعفی لئے بغیر ہم واپس نہیں جائیں گے۔خیمہ میں مرجائیں گے لیکن دھرنا ختم نہیں کریں گے ۔لیکن اس درمیان ان کے لئے افسوسناک مرحلہ یہ رہاکہ ان کی تحریک کوقوت فراہم کرنے والے اوران کے قدم سے قدم ملانے والے عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹرعلامہ طاہری القادری پاکستان میں انقلاب لائے بغیر ہی لوٹ کر گھر واپس جاچکے ہیں۔

خبروں کے مطابق عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری نے اسلام آباد میں شاہراہ دستور پر دھرنا ختم کر کے پورے ملک میں دھرنا پھیلانے کااعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ شرکاء کو اپنے گھر جانے کی اجازت دے دی ہے اور کہا ہے کہ ہر شہر میں دو دن کادھرنا ہوگا۔دو ماہ قبل چودہ اگست کو لاہور سے طاہر القادری انقلاب مارچ کی قیادت کرتے ہوئے نکلے تھے اور تین دنوں بعد ان کا انقلاب مارچ اسلام آباد پہنچا تھا ، وہاں پہنچ کر طاہر القادری نے اپنے کئے مطالبات پیش کئے تھے جن میں وزیر اعظم پاکستان نواز شریف ، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا استعفیٰ اور سانحہ ماڈل تاؤن کی ایف آئی آرشامل ہیں۔ لیکن ان کے کسی بھی مطالبہ کو منظور نہیں کیا گیا ۔شروع کے ایام میں ان دونوں کی تحریک میں کافی شدت دیکھی جارہی تھی میڈیا میں آئی خبروں کے مطابق ایسا آیا کہ لگ رہا تھا کہ شایدنواز شریف کی حکومت ایک مرتبہ پھر ماضی کی تاریخ دہراتے ہوئے ختم ہوجائے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکا ۔پارلیمنٹ میں موجودبر سراقتدرا ر او رحزب اختلاف کے تمام لیڈروں نے وزیر اعظم نواز شریف کے مستعفی نہ ہونے کے حق میں متفقہ قرارداد پاس کیا او رعمران خان و طاہر القادری کے مطالبہ کو جمہوری اصول کے خلاف قرار دیا۔ نواز شریف بھی ڈٹ گئے۔ دھرنے کے شرکاء نے وزیراعظم ہاؤس جانے کی بھی کوشش کی جو ناکام رہی۔دو ماہ کا عرصہ دھر نے میں گذر گیا لیکن جن مطالبات پر طاہرالقادری بضد تھے ان میں سے کسی ایک کی بھی تکمیل نہیں ہوسکی ۔
ہم شروع میں یہ لکھ چکے ہیں نواز شریف کی حکومت کا تختہ پلٹنے کے لئے تحریک انصاف اور عوامی تحریک دونوں نے اپنادھرنا ایک ساتھ شروع کیا تھا۔ اب تک یہ دونوں ایک ساتھ اپنے مطالبات پر قائم تھے ، عید الاضحی کی نماز بھی دونوں لیڈروں نے ایک ساتھ اداکی تھی یہ الگ بات ہے کہ از روئے شرع علامہ صاحب کی امامت جائز نہیں تھی اور سیاسی مفاد کو پروان چڑھانے کے لئے انہوں نے نماز جیسی عبادت میں جواز او ر عدم جواز کے مسائل کا خیا ل نہیں کیا تھا جس پر وہاں کی علماء کونسل نے شدی رد عمل کا اظہار بھی کیا تھا۔ لیکن تعجب خیز بات یہ ہے کہ اختتام عوامی تحریک کا پہلے ہو گیا ہے۔ درمیان راستے میں ہی علامہ صاحب عمران خان کو چھوڑ کر اپنے گھر کو واپس لوٹ گئے ہیں۔اس طرح اچانک دھرناختم کرنے پر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی پریشان ہو گئے ہیں۔طاہر القادری کا یہ طویل ترین دھرنا بے فائدہ او ربے سود ثابت ہواہے ۔ کوئی ایک بھی مطالبہ منظور نہیں ہو اہے ۔صرف عوام کو پریشان کیا گیا ہے۔دو ماہ تک عوام کو گمراہ کیا گیا ہے۔ا طلاعات یہ بھی ہیں کہ جن لوگون کو کرایہ پر دھرنامیں لے جایا گیا تھا انہیں ان کی اجرت تک نہیں دی گئی ہے۔ حالاں کہ کرایہ کے مظاہر ین نے شدید بارش میں بھی طاہرالقادری کے انقلاب مارچ کا ساتھ دیا تھا۔

علامہ صاحب نے دھرناختم کرنے کی وجوہات کو بتلاتے ہوئے کہاہے کہ دھرنامیں شامل جماعت متحدہ وحدت المسلمین محرم الحرام کی وجہ سے کسی طورپربھی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکے گی ان کے بہت سے ساتھی یہاں دھرنے میں بیٹھے ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ محرم الحرام ایک ایسامہینہ ہے جس کااحترام ہم سب پرلازم ہے ،میں ایک مذہبی سکالربھی ہوں لوگ میری باتوں کومیرے عمل کومثال کے طورپرلیتے ہیں ،میں نہیں چاہتاکہ محرم الحرام جیسے مقدس مہینے میں کسی قسم کاکوئی ناخوشگوارواقع پیش آئے۔طاہرالقادری نے واضح طورپرکہاکہ لاہورسے صرف اکیلاچلا تھااور یہاں بیٹھابھی اکیلاہوں اب جانے کافیصلہ کررہاہوں وہ بھی اکیلاہونے کی وجہ سے کررہاہوں۔ میرے لوگ مقدمات میں پھنسے ہیں ،کتنے زخمی ہوکرہسپتالوں میں پڑے ہیں میں کس حدتک انہیں زبردستی یہاں بٹھاؤں۔

میراخیال ہے کہ طاہر القادری اور عمران خان نے اپنے دھرنے سے عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی میں اہم کردار اداکیا ہے ، ان کے دھر نوں کی وجہ سے وہاں کی معیشت کو کافی نقصان پہچاہے ، چینی صدر کے دورہ پاکستان کو منسوخ ہونے کا ذمہ دار بھی عمران خان کی مانا جارہا ہے ،اس دھرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک پاکستانی کالم نگار نے لکھا ہے کہ’’ دھرنا پالیٹکس نے عمران خان اور طاہرالقادری دونوں کو ایکسپوز کردیا ہے آج اگر کوئی سروے کرائے تو پتہ چلے گا کہ عمران خان اور طاہرالقادری کی عوامی مقبولیت میں کمی ہوئی ہے، جبکہ وزیر اعظم نواز شریف کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے، بہرحال یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ اگر عمران خان اور طاہرالقادری کی مقبولیت میں کمی ہو گئی ہے تو ان کے جلسوں میں لوگ کیوں آرہے ہیں؟ ....جواب یہ ہے کہ ان کے جلسوں میں لوگ کب نہیں آئے، مسئلہ یہ ہے کہ لوگ آتے تو ہیں لیکن ووٹ نہیں دیتے، جناب قادری صاحب کا عالم تو اس عالم سا ہے جس کی پوری تقریر کی تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ ووٹ جسے چاہے دیں مگر چندہ اور کھال اسے دیں اور جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے تو ان کے جلسوں کے بارے میں تو اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان کو دیکھ کر لڑکیاں آتی ہیں، لڑکیوں کو دیکھ کر لڑکے آتے ہیں اور یوں تحریک انصاف کا جلسہ بن جاتا ہے!‘‘۔

فیس بک ، ٹوئیٹر اور دیگر سوشل میڈیا کے واسطے سے میں بھی اس نتیجے پر پہچا ہوں کی عمران خان اور طاہر القادری کی رہی سہی مقبولیت بھی پاکستان میں ختم ہوگئی ہے ، جولوگ کل تک عمران خان کا ساتھ دے رہے تھے وہ آج ان سے بد ظن ہورہے ہیں ، جہاں تک بات ہے علامہ طاہر القادری کی تو ان کی حیثیت پاکستان کی سیاست میں نہ کل تھی اور نہ ہی آج ہے۔اور شاید انقلاب مارچ میں ملنے والی ناکامی کے بعد انہیں اپنی حیثیت کا اچھی طرح احساس بھی ہوگیاہوگا۔ اس لئے انہوں نے دھرنا ختم کرکے گھر واپس گھر لوٹ جانے میں ہی اپنے لئے بہتر سمجھا ۔

Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 164258 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More