داعش امن کے لئیے خطرہ ۔۔۔۔

چند ماہ پیشتر میں نے داعش پر ایک آرٹیکل لکھا تھا - اسوقت جب انھوں نے مزارات اور قبور کو عراق میں مسمار کرنا شروع کیا تھا، سلفی علماء سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنا کردار ادا کریں - کردار کیا ادا کرنا تھا دلائل دینے لگے کہ انکا اقدام درست ہے کیونکہ مزارات اور قبور شرک کا گڑھ ہیں ۔ معذرت کیساتھ صدیاں گذرنے کے بعد بھی آجتک یہ لوگ شرک کی تعریف نہیں جان سکے ۔ آقا کریم صلی الله علیہ وسلم کا ایک فرمان عالیشان میرے ذہن میں آرہا ہے جسکا مفہوم بیان کرتا ہوں - رحمت عالم محبوب سبحانی فخر نوع انسانی احمد مجتبی محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میرے صحابہ آخر وقت میں میری امت پر ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب ہمسایہ ہمسائے کا گلا کاٹے گا اور اسے مشرک سمجھتے ہوئے قتل کردے گا - حضرت حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ نے پوچھا یارسول الله صلی الله علیہ وسلم کیا قتل ہونے والا واقع مشرک ہوگا میرے آقا صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا نہیں مقتول مشرک نہیں ہوگا بلکہ قاتل ایک مسلمان کو مشرک کہنے اور اسے قتل کرنے کی وجہ سے خود مشرک ہو جائے گا ۔ غور کرنا آپکا کام ہے کن پر شرک کے فتوے لگتے ہیں اور کون لگاتے ہیں ۔

آج کا آرٹیکل لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ پیر کی صبح کو ایک مسلح شخص نے وسطی سڈنی کے مصروف کاروباری علاقے مارٹن پلیس میں واقع لنٹ کیفے میں موجود متعدد افراد کو یرغمال بنا لیا تھا - اس کے کچھ ہی دیر بعد کم از کم دو افراد جو بظاہر کیفے کے ملازمین لگ رہے تھے ایک کھڑکی کے پاس سیاہ جھنڈے کے ہمراہ دکھائی دیے۔ بی بی سی کے نامہ نگار فرینک گارڈنر کا کہنا ہے کہ یہ پرچم شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے پرچم سے مماثلت رکھتا ہے لیکن بالکل ویسا نہیں جیسا کہ تنظیم استعمال کرتی ہے۔ آسٹریلیا میں گذشتہ چند ماہ کے دوران دہشت گردی کے خطرات میں اضافہ ہوا ہے اور ان کے تانے بانے عراق اور شام میں سرگرم شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ سے ملتے ہیں۔ عراق سے اٹھنے والی داعش نامی یہ تنظیم دنیا کے امن کے لئیے خطرہ اور اسلام کے لئیے بدنامی کا باعث بنتی جارہی ہے ۔ اس سے پہلے القاعدہ اور طالبان کے بوئے کانٹے آجتک مسلمان چن رہے ہیں ۔ اسلام ایک امن و آشتی کا مذہب ہے جو ان فسادیوں کی وجہ سے دہشت گردوں کا مذہب مشہور ہوگیا ہے ۔ دنیا ہمیں شک کی نظر سے دیکھتی ہے ہم پر اعتبار نہیں کرتی - ہماری ساکھ اور کریڈیبلٹی برباد ہو چکی ہے ۔ دنیا ہماری داڑھی اور عمامے سے گبھراتی ہے۔ جبکہ یہ چند فیصد دہشتگرد پورے عالم اسلام کی نمائندگی نہیں کرتے لیکن ہم یہ اہم نکتہ دنیا کو سمجھانے میں ناکام ہوچکے ہیں اور اسکی وجہ شائد یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایسا طبقہ موجود ہے جو کہ القاعدہ ، طالبان اور داعش کے نظریات سے متفق ہے ۔ یہ ہمارے علماء کی ناکامی ہے جو کہ دہشتگردوں کے باطل نظریات کو ببانگ دہل رد نہیں کرسکے اور علماء کی اسی ناکامی کے پیچھے حکومتوں کی نااہلی اور غفلت چھپی ہے کیونکہ جس شخص نے دہشتگردوں کے خلاف آواز بلند کی یا تو وہ سرعام مار دیا گیا یا اسے جان بچانے کے لئیے پاکستان چھوڑنا پڑ گیا ۔ پہلے تو کوئی دہشتگرد پکڑا نہیں جاتا اگر پکڑ جائے تو جج سزا نہیں دے پاتا - یہ داعش نامی تنظیم دنیا کے امن کے لئیے خطرہ بنتی جارہی ہے - مسلمان علماء کو چاہئیے کہ میدان عمل میں اتریں اور دہشتگردوں کے نظریات کا رد قرآن و حدیث سے کرکے انکی نظریاتی کمر توڑیں ۔ اور حکومتوں کو انکے مالی ذرائع کا پتہ لگا کر انکو منقطع کرنا ہوگا چیرٹی اور چندہ سسٹم کی کڑی نگرانی کرنا ہوگی ۔ مسلم ممالک کو چاہئیے کہ اپنے ہاں قائم مدارس کی نگرانی کریں کیونکہ دہشتگرد تنظیموں کو اکثر افرادی قوت اور مالی امداد مدارس ہی سے ملتی ہے ۔ والدین کو بھی اپنی اولاد کی سرگرمیوں پر نظر رکھنی چاہئیے ۔ گلی محلوں میں سول سوسائٹی کو مشکوک افراد کی حرکات و سکنات کی خبر سیکورٹی اداروں کو دینی چاہئیے ۔ میں یہ سب اس لئیے عرض کررہا ہوں کیونکہ پاکستانی قوم کو طالبان کے بعد داعش کو بھی فیس کرنا پڑے گا ۔ گو کہ ہمارے وزیر داخلہ نے فرمایا تھا کہ داعش کا پاکستان میں وجود نہیں مگر بعد میں سیکورٹی اداروں کو داعش کی موجودگی کے شواہد مل گئے ۔۔۔

یہ آرٹیکل کے ختم ہونے تک یہ خبر آچکی ہے کہ آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں پولیس نے ایک کیفے میں کمانڈو آپریشن کے بعد یرغمال بنائے گئے افراد کو رہا کروا لیا ہے مگر اس کارروائی میں حملہ آور سمیت 3 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 173826 views System analyst, writer. .. View More