جلتی پر تیل کا کام اسرائیلی وزیر اعظم کا وائٹ ہاؤس کی مرضی کے بغیر دورہ

ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر امریکی صدر اوباما اور اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو ایک دوسرے کے مقابل
جلتی پر تیل کا کام اسرائیلی وزیر اعظم کا وائٹ ہاؤس کی مرضی کے بغیر دورہ امریکہ ہے

ایرانی نیوکلیئر پروگرام پر معاہدہ دو قدیم ترین حلیف امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات میں زبردست کشیدگی کا سبب بن گیا ہے۔ ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر امریکی صدر بارک اوباما اور اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں۔ دونوں رہنماوں کے درمیان لفظی جنگ ایک بڑے سیاسی تنازع کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ جلتی پر تیل کا کام اسرائیلی وزیر اعظم کا وائٹ ہاوس کی مرضی کے بغیر دورہ امریکہ ہے۔کیونکہ مروجہ روایات کے مطابق، دعوت نامہ وائٹ ہاؤس سے مشورے کے بعد جاری ہونا تھا،اسرائیلی وزیر کے امریکی کانگریس سے خطاب کی خبر صدر براک اوباما کے اسٹیٹ آف یونین خطاب سے ایک روز بعد آئی تھی۔ جس میں امریکی صدر نے کانگریس کو خبردار کیا تھا کہ اگر اس نے ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں عائد کیں تو وہ اسے ویٹو کر دیں گے۔ امریکی صدر براک اوباما نے اسرائیلی وزیر اعظم سے ان کے دورہ امریکہ کے ملاقات بھی نہیں کی۔ وائٹ ہاوس نے اس کا جواز یہ دیا ہے کہ کیونکہ یہ ملاقات اسرائیل میں انتخابات کے بہت قریب ہوگی۔امریکی صدر براک اوباما اور بن یامین نتن یاہو کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام کے معاملے پر تناو بڑھتا جا رہا ہے۔اسرائیلی وزیر اعظم ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے بات چیت پر نالاں ہیں۔ منگل کو امریکی کانگریس سے متنازعہ کلیدی خطاب کے موقع پر نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ ایران کے نیوکلیئر پروگرام میں تخفیف سے متعلق ایران۔ امریکہ معاہدہ اسرائیل کے وجود و بقا کو خطرہ میں ڈال سکتا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیاوباما پر الزام عائد کیا کہ انھوں نے جوہری ہھتیاروں کے حصول کے لیے ایران کو روکنے کی کوششیں ترک کر دی ہیں۔ اوبامااور ان کی خارجہ پالیسی کے سرکردہ عہدیدار اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے موقف کو درست نہیں سمجھتے ، ان کا اصرار ہے کہ کیا کہ سمجھوتہ ہی ایسے تمام مبینہ خطرات پر قابو پانے کا بہترین طریقہ ہے۔امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے بھی ایران کے جوہری معاملے پر اسرائیل کے وزیراعظم کی رائے کو غلط قرار دیا ہے۔جان کیری نے کہا کہ امریکی صدر اس بات کو واضح کر چکے ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیار تیار نہیں کرنے دیں گے۔ان دنوں نیتن یاہو ایرانی نیوکلیئر پروگرام پر سمجھوتہ کے خلاف واشنگٹن کے دورہ پر ہیں جبکہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری اس سمجھوتہ کو یقینی بنانے کیلئے جنیوا میں ایرانی ذمہ داروں سے بات چیت میں مصروف ہیں۔اسرائیلی وزیراعظم ایک ایسے وقت میں واشنگٹن کا دورہ کر رہے ہیں جب چھ عالمی طاقتیں ایران کے جوہری پروگرام پر اس سے مذاکرات کر رہی ہیں۔ایران اور گروپ فائیو پلس کے درمیان ایٹمی مذاکرات سوئزرلینڈ کے شہرمونٹیرو میں جاری ہیں۔ ان مذاکرات میں ایرانی وفد کی قیادت وزیرخارجہ محمد جواد ظریف جبکہ امریکی وفد کی قیادت جان کیری کر رہے ہیں۔مذاکرات میں ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے سربراہ علی اکبر صالحی، امریکی وزیر توانائی ارنسٹ مونیز، ایران اور امریکہ کے نائب وزرائے خارجہ سید عباس عراقچی، مجید تخت روانچی اور وینڈی شرمین، یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی نائب سربراہ ہلگا اشمیت اور ایرانی صدر کے خصوصی نمائندے حسین فریدون شریک ہیں۔ منگل کو ان مذاکرات کو دوسرا دور ختم ہوا۔ مذاکرات میں فریقین نے مختلف تیکنکی مسائل پربات چیت کی۔مذاکرات کی پہلی نشست پیرکی رات بھی ڈھائی گھنٹے تک مذاکرات جاری رہی تھی۔ دونوں فریقون کو اس معاہدے کے فریم ورک کو 30 مارچ تک حتمی شکل دینی ہے، تاکہ 30 جون تک حتمی معاہدہ کیا جاسکے۔نیتن یا ہو کوکانگریس سے خطاب کی دعوت بھی متازعہ ہے۔نتن یاہو کو ایوانِ نمائندگان کے رپبلکن سپیکر جان بوہینر نے کیپیٹل ہل میں خطاب کے لیے مدعو کیا تھا۔اس دعوت پراوباما انتظامیہ کو اعتماد میں نہیں لیاگیا۔ ریبپلکن پارٹی کی جانب سے اسرائیلی وزیراعظم کو کانگرس سے خطاب کی دعوت پر ڈیموکریٹک پارٹی ناراض ہے۔ ڈیموکریٹک رہنما نائب صدر جو بائڈن سمیت متعدد رہنماوں نے اسرائیلی وزیراعظم کے کانگرس سے خطاب میں شرکت بھی نہیں کی۔ پارٹی کے چند رہنما دباؤ محسوس کر رہے ہیں کہ ایسے میں وہ کس کا انتخاب کریں صدر اوباما کا یا اپنی اس خواہش کا کہ اسرائیل کو ناراض نہ کیا جائے۔دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کا امریکی کانگریس سے خطاب کرنے کا مقصد امریکی صدر کی بے عزتی کرنا نہیں ہے۔اس سے پہلے انھوں نے امریکی اسرائیلی لابی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ امریکہ میں اسرائیل کے بارے میں رائے کو ہرگز منقسم نہیں کرنا چاہیں گے۔دوسری جانب اسرائیل میں دو ہفتے بعد انتخابات ہو رہے ہیں جن میں نیتن یاہو کی جماعت کو داخلی دباؤ کا سامنا ہے۔اسرائیلی وزیراعظم کے اس دورے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ اس کے ذریعے اسرائیل میں اپنا مقبولیت بڑھانا چاہتے ہیں۔ شائد اسی لئے انھوں نے واشنگٹن روانگی سے قبل کہا تھاکہ ان کا یہ دورہ ’نتیجہ خیز اور تاریخی مشن‘ ہوگا۔ نتین یاہو ایران کو اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) سے تشبیہہ دیتے ہیں۔انھوں نے امریکی کانگریس سے اپیل کی کہ تہران کے خلاف سخت تر موقف اختیار کیا جائے تاکہ اسے نیوکلیائی اسلحہ کے حصول سے روکا جاسکے اور سرکشی کے رجحان کی سرکوبی کی جاسکے۔ نیتن یاہونے کہا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل اس بات پر متفق ہیں کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے نہیں دیے جائیں گے، لیکن یہ ہدف کیسے حاصل ہو، اس پر اْن کی سوچ مختلف ہے۔ اوباما انتطامیہ کا اصرار ہے کہ وہ ایران کو جوہری بم نہیں بنانے دے گی اور وہ اسرائیل کی سلامتی پر یقین رکھتی ہے۔ تاہم وہ اس بات پر برہم ہے کہ بوہنیر نے وائٹ ہاؤس کو بغیر بتائے وزیراعظم نیتن یاہو کو کانگرس سے خطاب کرنے کی دعوت کیسے دی۔ا مریکی صدر نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ایران کے ساتھ تمام امور پر مذاکرات ہو رہے ہیں اور تعلقات میں گزشتہ سات ماہ کی نسبت بہتری آئی ہے،، اوباما کا کہنا تھا کہ ایران کے ایٹمی معاملے پر امریکا کا رویہ جارحانہ نہیں ہے،، ہم مسئلہ سفارتی طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں،اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے بارے صدر اوباما نے کہا کہ امریکا کے اسرائیل سے تعلقات اٹوٹ ہیں تاہم وہ اسرائیل پر یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ مذاکرات مکمل کیے بغیر ایران کے خلاف کوئی اقدام نہیں کریں گے۔ ادھرایران نے اپنے جوہری پروگرام کو دس سال تک منجمند کرنے کے امریکی صدر کے مطالبے کو مسترد کردیا ہے۔ایران کے وزیرِخارجہ نے صدر اوباما کے مطالبے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ صدر امریکی صدر نے غیر مناسب اور دھمکی دینے والے انداز میں گفتگو کی ہے۔تاہم انہوں نے مذاکرات کی میز چھوڑنے سے انکار کیا۔مبصرین کا کہنا ہے کہ ’ایران کے جوہری پروگرام پر امریکا اور اسرائیل کے درمیان شدید اختلاف پایا جاتا ہے لیکن یہ تنازعہ واشنگٹن اور مشرق وسطی میں اس کے سب سے قریبی حلیف کے رشتوں کو ہمیشہ کے لیے متاثر نہیں کرے گا۔‘امریکہ کی امریکہ کی قومی سلامتی کی مشیر سوزان رائس نے امریکہ میں صیہونیوں کی سب سے بڑی لابی آپیک کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ،،ایسا کوئی راستہ نہیں ہے جس کے ذریعے ایران کو مجبور کیا جاسکے کہ وہ ایٹمی شعبے میں حاصل شدہ اپنی کامیابیوں سے دستبردار ہوجائے۔ انہوں نے ایران سے مذاکرات کرنے پر مبنی امریکی صدر اوباما کی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہوئے دعوی کیا کہ ایران کو ایٹمی ہتھیار سے دور رکھنے کے لئے اس کے ساتھ جامع ایٹمی معاہدے سے بہتر کوئی اور راستہ نہیں ہے۔واضح رہے کہ ایران جینوا عبوری ایٹمی معاہدے پر عمل پیرا ہے اور ایٹمی انرجی کی عالمی ایجنسی ایران کی اہم ایٹمی تنصییبات کی سرگرمیوں کی نگرانی کررہی ہے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 390534 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More