یمن۔۔۔بات صرف اتنی سی ہے

بسم اللہ الرَّحمٰنِ الرَّحیم

جنگ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کو ماند کردیتی ہے۔لڑائی اور خانہ جنگی رشدو ارتقا کے راستے میں سب سے اہم رکاوٹ ہے۔کسی بھی قوم میں بیداری اور شعور کو روکنے کا آسان طریقہ خانہ جنگی کا آغاز ہے۔ سعودی عرب کے وزیر مذہبی امور الشیخ ڈاکٹر صالح عبداللہ بن عبدالعزیز پانچ رکنی وفد کے ساتھ ہنگامی دورے پر پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سعودی وزیر کے دورے کا مقصد یمن کی صورتحال کے تناظر میں پاکستان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔یادرہے کہ سعودی عرب کی ڈیڑھ ہزار کلومیٹر طویل سرحد یمن سے ملتی ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ یمن کی یہی طولانی سرحد اس ملک کی بد قسمتی کا باعث بنی ہوئی ہے۔سعودی عرب کی بے جا مداخلت کے باعث تقریباً ۲۸ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل جمہوریہ یمن کے اس وقت مجموعی طور پر چار ٹکڑے ہوچکے ہیں۔ ایک حصّے پر حوثی اور صالح عبداللہ کے ساتھیوں نے قبضہ کیا ہے دوسراحصہ ہادیوں کے قبضے میں ہے،تیسرے حصّے پر القاعدہ اور انصارالشریعہ کا قبضہ ہے اور چوتھے حصے پر دوعلاحدگی پسند گروپوں کے اتحاد سے تشکیل پانے والی جنوبی یمن نامی تحریک قابض ہے۔

اس وقت ایک کمزور یمن ،سعودی عرب کی ضرورت ہےاور یمن میں خانہ جنگی در اصل سعودی عرب کی بادشاہت کی بقا کی جنگ ہے۔کون نہیں جانتا کہ اب وہابی،سلفی اور دیوبندی مکتب میں بھی سعودی حکمرانوں کے بارے میں ایک شعوری بیداری کی لہر جنم لے چکی ہے۔اب نئی نسل ان سلطانوں اور شہزادوں کو ظِلِّ الٰہی سمجھنے کے بجائے اغیار کے پٹھّو سمجھتی ہے۔جہادِ کشمیر،جہادِ افغانستان اور جہادِ فلسطین کی ناکامی اور بدنامی کا تمام تر سہرا سعودی عرب کو ہی جاتاہے۔سپاہِ صحابہ سے لے کر داعش تک وہ کونسا دہشت گرد گروہ ہے جسے سعودی عرب کی ایماپر قائم نہیں کیا گیا اور ہندوستان سے لے کرامریکہ و اسرائیل سمیت وہ کونسا اسلام دشمن ملک ہے جس سے سعودی عرب کے اچھے روابط نہیں۔
مذکورہ بالا صورتحال میں سعودی حکومت کے لئے ضروری ہے کہ وہ مسلم دنیا کی نوجوان نسل کو مختلف محازوں پر مشغول رکھے۔چنانچہ پہلے انہیں جہادِ اسلامی کے نام پر افغانستان و کشمیر میں سرگرم کیاگیا۔پھر جب ان کی وطن واپسی کا موسم شروع ہواتو انہی میں سے دہشت گرد ٹولے تشکیل دیے گئے اور گیا پھر انہیں افغانستان کی داخلی جنگ اور شام کی خانہ جنگی میں دھکیلا گیا۔جس کے بعد اب یمن میں مسلمان جوانوں کو ایک دوسرے کے مدِّ مقابل صف آرا کیا گیا ہے۔

سعودی سلطانوں نے اپنی بادشاہت کالوہامنوانے کے لئے جہاں جنّت البقیع سمیت مکے اور مدینے میں سینکڑوں مقدّس مقامات کو منہدم کیا وہیں کی الاخوان کو کچلنے کے لئے اپنی توانائیوں کو صرف کیا۔
سعودی حکمرانوں کا یہ شاہی مزاج ہی انہیں بے نقاب کرنے کا باعث بنا ہے۔انہوں نے ہمیشہ شاہی انداز میں فیصلے کئے ہیں،اسلامی اقدار کو درہم و دینار میں تولاہے،اسلامی و دینی جذبات کو اپنے اقتدار کے تحفظ کے لئے استعمال کیاہے۔جہاد کو اپنے مخالفین کے خلاف ایک ہتھکنڈہ اور خادم الحرمین شریفین کے لقب کو اسرائیل کے لئے ڈھال بنایاہے۔

آئے روز بنگلہ دیش میں جماعتِ اسلامی کے لیڈروں کو سزائے موت دی جاتی ہے لیکن سعودی عرب کو اس کی کوئی پرواہ نہیں۔حماس کو خود سعودی عرب نے دہشت گرد قرار دے رکھاہے،حزب اللہ تو ہے ہی شیعہ ۔۔۔بحرین کی عوامی تحریک کو کچلنے کے لئے سعودی عرب نے جو کچھ کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، مصر میں اخوان المسلمین کے سربراہ ڈاکٹر محمد مرسی اپنے متعدد ساتھیوں سمیت ابھی تک گرفتار ہیں ان کے ساتھ سعودی عرب کا رویّہ انتہائی معاندانہ ہے بلکہ مصر میں الاخوان کا تختہ خود سعودی عرب نے ہی الٹایا اور اس وقت یمن میں موثر ترین گروہوں میں سے ایک گروہ الاصلاح ہے جو کہ الاخوان کے تفکر سے بہت قریب ہے اور بعض اطلاعات کے مطابق الاصلاح کو یمنی الاخوان بھی کہاجاتاہے۔

سعودی عرب کی حکومت یمن کی خانہ جنگی کو بڑھکا کردر اصل “الاصلاح “کو حوثیوں کے سامنے کھڑا کرنا چاہتی ہے تا کہ اس طرح الاصلاح[یمنی الاخوان]حوثیوں کے ساتھ مصروف رہے اور سعودی عرب یمن میں اپنے نظریاتی مخالفین کو کھپاتااور لڑاتارہے۔

بات صرف اتنی سی ہے کہ سعودی عرب یمنی الاخوان کومصروف رکھنا چاہتا ہے۔الاصلاح کی پشت پر دیگر سنّی گروہوں کو تیزی سے اکٹھا کرنے کا کام جاری ہے تاکہ مسلم دنیا خانہ جنگی میں مبتلا رہے اور بادشاہ رنگ رلیاں مناتے رہیں۔بات شیعہ ،سنّی،وہابی یا دیوبندی کی نہیں بلکہ سعودی حکمرانوں کے عشرت کدوں کی ماند پڑتی ہوئی رونق کی ہے۔سعودی حکمرانوں کا مزاج قطعا شاہانہ ہے۔ان کی سیاست کا کسی اسلامی مکتبِ فکر سے کوئی تعلق نہیں۔افغانستان اورمصر کے بعد یمن میں بھی سعودی عرب کے مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی ڈلوانے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سعودی حکومت نے اپنی بقا کے لئے غلط راستوں کا انتخاب کررکھا ہے۔

سعودی عرب کے وزیر مذہبی امور کے دورہ پاکستان کے موقع پر اب یہ پاکستان کے دیندار اور باشعور دینی و سیاسی مکاتب فکر کی ذمہ داری ہے کہ وہ سعودی حکمرانوں کی سیاسی طور پر رہنمائی کریں اور انہیں مزید غلطیاں کرنے سے روکیں۔ہمیں یمن کی جنگ کو وہابیوں اور شیعوں کے درمیان جنگ قرار دینے کے بجائے یہ سمجھنا چاہیے کہ ملوکیّت و بادشاہت بدمزج اور بانجھ ہی نہیں ہوتی بلکہ بے دین بھی ہوتی ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ سعودی عرب “یمنی الاخوان “الاصلاح کومصروف رکھنا چاہتا ہے۔اسے کسی دین ،مذہب یا فرقے کی پرواہ نہیں۔
نذر حافی
About the Author: نذر حافی Read More Articles by نذر حافی: 35 Articles with 29957 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.