کیاپاکستان امریکہ کی نو آبادی بن چکا ہے؟

امریکی غنڈے پاکستان کے ہر حصے میں ُشتر بے مہار کی طرح منہ مارتے پھرتے نظر آتے ہیں۔امریکہ کاپاکستان میں وائسرئے بھی ان کے جرائم پر کان دبائے اپنی ماضی کی حرکتوں میں مست نظر آتا ہے۔اگر کوئی پاکستانی امریکہ میں کسی گوری چمڑی والے کو گھور کے بھی دیکھ لے تو اُس پر کئی دفعائیں لاگو ہوجاتی ہیں۔مگر پاکستان میں یہ بڑے سے بڑا جرم بھی کرلیں تو ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔یہ ظالم تو ایسے نامرد ہیں کہ نحیف و نزارعافیہ صدیقی جیسی نازک اندام کو بھی بگرام سے لیجا کر اپنے دیس میںاُس کی بے گناہی کے عیوض 86 سال کی سزا سناکر اپنی گیدڑ نماں بہادری پر نامردمی اتراہٹ دکھاتے پھر رہے ہیں۔واہ واہ امریکی دنیا کی کیا بہادر قوم ہے!!! جس کا مردوں پر تو بس چلتا نہیں مسلمان خواتین پر اپنی نامردمی کے جوہر دکھاتے پھرتے ہیں۔یہ ہی ہیںنا خواتین کے حقوق کے نام نہاد علمبردار؟؟؟ اور ان کے انصا ف پر بھی قربا ن جایئے کہ جس کی حقیقت عافیہ صدیقی کیس نے روز روشن کی طرح عیاں کردی ہے۔
پاکستان میںآئین کے ہوتے ہوے بھی یہ سر زمینِ بے آئین اسو لئے ہے کہ امریکہ سمیت ساری دنیا کے جرائم پیشہ لوگوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے ۔آمل کانسی کو یہ ظالم جھوٹے الزامات کے تحت پاکستان کے بھولے بادشاہ وزیر اعظم نواز شریف ، ہماری ایجنسیوں اور سی آئی اے کے ذریعے امریکہ لیجاکر زہر کے انجیکشن کے ذریعے سزائے موت دے کر موت کی نیند سلا نے پر جشن مناتے ہیں۔ اور اس کے گماشتوں نے تین معصوموں کو قتل کر دیا۔ایک نے دو نوجونوں کو گولیوں سے بھون ڈالا تو اور پھر انکی باقاعدہ وڈیو بناتا رہا۔ایسا لگتاہے کہ یہ دونوں اس کے کیئے ہوے کسی وعدے سے منحرف ہوچکے تھے۔جن سے سی آئی اے کے راز افشاں ہونے کا اندیشہ پیدا ہوگیا تھا اور ریمنڈ ڈیوس نے موقع پاتے ہی ان کا کام تمام کر دیا۔ دیگر نے سگنل توڑ کر رونگ سائڈ سے آکر ایک اور بے گناہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ریمنڈ ڈیوس نے ابتدائی تفتیش میں یہ ہی کہا تھاکہ وہ ٹیکنیشین ہے مگر وہ پاکستان میں آفیشل بزنس ویزے پر آیا تھا۔اس کے پاس سفارتی پاسپورٹ ہونے کے باوجود سفارتی ویزہ نہ تھا۔پنجاب حکومت کی طرف سے مطالبے کے باوجودبھی نوجون کو کچل کر مار دینے والے شخص اور گاڑی کو آج کئی دن گذر جانے کے باوجود قانون کے حوالے نہیں کیا گیا ہے۔گویا ہمارے اداروں اور سیاست دانو ں نے پاکستان کو امریکہ کی کالونی بنانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی ہے۔

ریمنڈڈیوس کے اصل نام پر امریکی دفتر خارجہ کا ترجمان بھی کہتا ہے کہ میں اس کا اصل نام ظاہر نہیں کر سکتا کیونکہ اس میں قانونی پیچیدگیاں ہیں۔ ایجنسی کے کسی فرد کی اصلیت ظاہر کرنا امریکی قانوں میں جرم ہے۔جس سے بالکل صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس امریکی جاسوس ہے ۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ وہ اردو اور پشتوزبانیں بہت اچھی جانتا ہے۔یہ تمام باتیں اس کے جاسوس ہونے کی غماز ہیں۔تین پاکستانیوں کو ناجائزطریقے پر قتل کر کے امریکی اپنے آپ کو بے گناہ کہہ رہا ہے۔بلکہ ہمارے ادارے بھی اس مذمو م کام میں بے گناہ پاکستانیوں کو ڈالرز کی چمک کے ذریعے ڈاکو ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہےں یہ بات بھی سامنے آچکی ہے کہ یہ شخص دو سال افغانستان میں بھی سی آئی اے کے مشن کی تکمیل کے بعد پاکستان پہچا تھا۔اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ یہ شخص گذشتہ تین سالوں میں اب تک نویں مرتبہ پاکستان میں داخل ہوا ہے۔یہ ٹیکنکل ویکنکل اسٹا ف نہیں ہے بلکہ سی آئی اے کا پختہ کار ایجنٹ ہے ۔جوپاکستان میں تخریبی سرگرمیوں کا لاہور کا انچارج بھی بتایا جاتا ہے۔

اس سے قبل اسلام آباد ،راولپنڈی اور پاکستان کے کئی دیگر شہروں میں اس قسم کے بے شمار واقعات رونما ہوچکے ہیں ۔امریکی اسلام آباد، پیشاور اور کوئٹہ میں سر گرمی کے ساتھ اپنی تخریبی کار وئیاں کر تے رہے ہےں۔جن میں متعدد بار ناجائز اسلحہ و گولہ بارود سمیت متعدد غیر قانونی ہتھیاروں کے ساتھ کئی کئی مرتبہ کئی کئی امریکی بھی پکڑ ے گئے تھے ۔ مگر مجرموں کو کبھی بھی سزا نہیں دی گئی۔ملک کی سا لمیت جائے بھاڑ میں۔ان امریکی مجرموں کا بال تک بیکہ نہ کیا جاسکا ہے۔امریکی جاسوسوں نے پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں مہنگے داموں رہائشیں کرائے پر حاسل کی ہوئی ہیںجن سے یہ اپنا نیٹ ور ک چلاتے رہتے ہیں۔یہ لوگ سفارتی تحفظ کے نام پر ملکوں میں تخریب کاریاں کرتے رہتے ہیں جب پھنس جاتے ہیں تو سفارتی چھتری استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔گو کے انہیں سفارتی استثنیٰ حاصل ہی نہیں ہوتا ہے۔ اور ان کے لوگ انہیں سفارتی تحفظ فراہم بھی کرتے ہیں جو اصولی طور پرغیر قانونی اور غلط ہوتا ہے۔ مگر ہمارے حکمران دباﺅ کا شکار ہو کر ملک کے مفادات کے خلاف بھی سب کچھ کر گذرتے ہیں۔ان کرائے کے قاتلوں سے امریکی حکومت کسی طرح بھی بری الزمہ نہیں کہی جاسکتی ہے۔

ہمارے سہمے ہوے حکمرانوں کو امریکہ کے اس خطرناک رویئے کے خلاف صحیح اور واضح موقف اختیار کرنا ہوگا۔دبکی ہوئی اور سہمی ہوئی وزارت خارجہ کو مردانگی کا ثبوت دیتے ہوے امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا رویئہ اختیار کرنا چاہئے۔میرا اس ملک کے حکمرانوں اور سیاستدانوں سے کہنا ہے کہ وہ اپنی اپنی سیاست چمکانے کے بجا اس ملک کے اقتدار اعلیٰ پر شب خون نہ لگنے دیں کافی کچھ ہوچکا اب بس کرےں۔ امر یکی سفیرمسٹر منٹرآپ کو معلوم ہونا چاہئے یہ پاکستان ہے یہاں پر پاکستان کا قانون چلنے دو ! مت نائز دباﺅ ہما ر ے کمزور حکمرانوں پر ڈالو کہ ان کے کند ھے بڑے ہی نازک ہیں۔ یہ تو آپکی ذراسی دھمکی پرپیشاب آلود ہوکر آپ کے وہ مطالبے بھی ماننے کو تیار ہو جائیں گے جو آپ نے کیئے تک بھی نہیں ہیں۔

یہ بات بھی سب کے علم میں ہے کہ ایک امریکی ایجنٹ گذشتہ سال چترال سے خطر ناک ہتھیاروں اور جاسوسی آلات کے ساتھ پکڑا گیا تھامگر امریکی مفادات کے رکھوالوں نے امریکی جاسوس حکومت سے معذرت کرتے ہوے اُسے صد احترام کے ساتھ امریکہ روانہ کر دیا تھا!ایک او ر اہم واقعہ بھی قائرین کو یاد ہوگا کہ ڈنمارک کے سفارت کار امریکی سفارت خانے کو ہتھیار سپلائی کرتے ہوے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے مگر ہماری پولیس نے رسمی کاروائی کرنے کے بعد امریکی سفات خانے کے ایک مقامی ملازم سنی کرسٹوفر کی ناجائز مداخلت پر ڈینش کے خلاف بھی کوئی مقدمہ درج نہ کیا اور معاملہ رفع دفع کر دیا گیا۔یہ خبریں بھی تمام پاکستانیوں کے علم میں ہیں کہ اکثر امریکی سفارت کار ہر قسم کا خطر ناک اور ناجائز اسلحہ لے کرپاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں دنداناتے پھرتے رہتے ہیں۔ایک انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق 22 جون 2003 کوخیبر پختون خواہ میں اایک ڈبل کیبن گاڑی کو ایک پولیس چوکی پر روکنے کی کوشش کی گئی تو وہ وہاںفر ار ہوگئے کی لہٰذا اگلی چوکی کو وائر لیس کے ذریعے مفرور امریکیوکی اطلاع پہنچی تو ان کو وہاں پر زبردستی روکا گیا۔جس میں تین امریکی سفارت کار پاکستانی لباس میں داڑھیوں کے ساتھ موجود تھے۔بظاہر دیکھنے میں یہ پٹھان لگ رہے تھے۔ ان کے پاس چار عدد M-4 مشین گنیں اور 9 ، ایم ایم پستول بھی برآمد ہوے مگر ان طالبان نماں امریکیوں کے خلاف بھی مشرف نے کوئی کاروائی نہ کرنے دی اور بات آئی گئی ہوگئی۔ان کے علاوہ بھی متعدد معاملات ہوے مگر ہماری حکومت صرفِ نظر کرتی رہی ہے۔اب ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اسلام آباد اور لاہور، امریکی دہشت گرد کے لئے پریشانی کا شکار ہےں۔مرکز صوبے پر اور صوبہ مرکز پر معاملات کی دھول پھینکنے مین مصروف دکھائی دیتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ واشنگٹن نے پاکستا ن کے دفترِ خارجہ پر اپنا دباﺅ شدید کر دیا ہے۔دوسری جانب امریکی دفتر خارجہ قاتل کو سفارتی استثنیٰ دلوانے کی سر توڑ کوشش کر رہا ہے۔اندروں، خانہ کچھ ایسی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے کہ مجرم کو سزاملنے کے بعد صدارتی استثنیٰ عمل میں آجائے گا۔اس وقت ریمنڈ ڈیوس کے سفارتی استثنیٰ کے ضمن میں حکومت کی جانب سے بظاہر یہ ہی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ کسی کار پینٹر،پلمبر یا الیکٹریشن کو سفارتی استثنیٰ ہر گز حاصل نہیں ہوتا ہے۔اسی طرح بظاہر دفتر خارجہ نے بھی اپنی رپورٹ میں حکومت پر واضح کیا ہے کہ مذکورہ قاتل کو جو حقیقتاََ سی آئی اے کا ایجنٹ ہے اور جس نے ہر قدم پر جھوٹ بولا، اس قاتل کو سفارتی سطح پرچھوٹ کیامعنی؟؟؟ویانا کنونشن میں کہیں یہ درج نہیں ہے کہ سفارت کار کو اسلحہ اور وہ بھی بغیر لائسنس کا غیر قانونی لیکر چلنے کی اجازت ہے۔

اب تو پاکستان میں امریکی سفیربھی دھمکیوں پر اتر آئے ہیں ایک قاتل سی آئی اے کے ایجنٹ کو بھی وہ دھڑلے سے سفارت کاری کے لبادے میں لپیٹنے کے لئے جتن کررہے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ پاکستان اپنے؟اور عالمی؟قوانین پر عمل کرے!!!تو بھولے بادشاہ جب ہم اپنے قوانین پر عمل پیرا ہیں توپھر تمہیں کس بات کی پیڑ ہے؟رہا عالمی قانوں تو پاکستان نے تو ہمیشہ اس پر عمل کیا ہے امریکیوں کے نزدیک ان قوانین کی کوئی حیثیت نہیں ہے!!!جس کی سینکڑوں مثالیں ماضی میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ یہ رعونت کے مارے کہتے ہیں کہ غیر قانونی گرفتارسفارت کار کو ویانا کنونشن کے تحت رہا کیا جائے؟قاتل ریمنڈ دیوس کی گرفتاری غیر قانونی نہیں ہے بلکہ اس کو قانون کے تقاضوں کے عین مطابق پکرا گیاہے۔لگتا یہ ہے کہ امریکہ خود اس مقدمے کی پیروی سے بھاگ رہا ہے۔جب ہی تو امریکی سفات خانے نے اُس کے لئے کوئی وکیل نہیں لیا اور پھر پاکستان پر ا س کاالزام دھر دیاکہ ریمانڈ کے وقت عدالت میں ریمنڈ ڈیوس کا نا کوئی مدد گار تھا اور نہ ہی کوئی وکیل؟؟؟امریکی حکومت کو بتائے بغیر ریمنڈ ڈیو س کو گرفتار کر لیا گیا!!! کیا تم نے ہماری حکومت کو عافیہ صدیقی کو غیر قانونی قید میں رکھنے اور اس مظلوم خاتوں کو غیر قانونی سزا دینے سے پہلے پاکستان کو بتایا تھا؟؟؟امریکہ پاکستان کو اپنی کالونی سمجھنے کاخناس نکال دے اور ساری دنیامیں اپنی اور اپنے حواریوں کی شکست و ریخت کا نظارہ کرتا رہے تو یہ اس کے لئے بہتر ہوگا۔
Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed
About the Author: Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed Read More Articles by Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed: 285 Articles with 192467 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.