پا کستان کا قو می ایکشن پلان اور خطرے میں جمہوریت

پا کستان کے حوالے سے یہ لکھناکہ پا کستان کی وجہ سے دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کی بدنا می ہو رہی ہے کہاں تک درست ہے؟ ۔ویسے مجمو عی طور پرہم سب ہی اس کے ذمہ دار ہیں ۔کسی ایک ملک یا قوم کو مورد الزام ٹھہرانا قرینہ اور قیاس دونوں اعتبا ر سے درست نہیں۔پھر بھی پا کستا ن کے ذکر کے ساتھ اس کی وضاحت ہو جائے کہ آ خر حقیقت کیاہے۔ اور ہما را یہ دعوی درست ہے یا محض الزام تراشی۔ واقعہ یہ ہے کہ پا کستا ن بر صغیر کے مسلما نو ں کے تحفظ اور اسلام کی بقا کے نا م پر وجود میں آیا ہے۔اور یہی اس ریا ست کا طرہ امتیاز ہے۔اگر یہ ریا ست اسلا م کے نا م پر وجود میں نہ آتی تو کسی کو کچھ بھی کہنے اور لکھنے کا کو ئی حق نہیں تھا ،لیکن معا ملہ اب ٖصرف پا کستا ن ہی کانہیں بلکہ اسلام اور مسلما نوں کا ہے۔اور تما م دنیا کے مسلما ن جسد واحد کی طرح ہیں ۔اس لیے کسی مسلمان کا کو ئی اجتما عی یا انفرادی عمل اگر ایسا ہو گا جو قر آن و سنت ،یا اجما ع امت اور سواد اعظم سے ہٹا ہو ا ہو گا تو اس سے پو ری امت کو تکلیف بھی ہو گی اور دنیا کے سا منے پو ری امت سے اسکی جوا بدہی بھی ہوگی،اس تنا ظر میں اگر پا کستان کا جا ئزہ لیا جا ئے اور اس حقیقت کو جا ننے کی کو شش کی جا ئے کہ کیا واقعی پا کستان کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کی دنیا میں بدنا می ہوئی یا یہ اسلامی ملک کے خلاف ایک پرو پیگنڈا propaganda ہے بہر حا ل اس میں سچ کیا ہے اس کو جا ننا ہے ویسے میرا دل اور دماغ اس کے لیے با لکل تیا رنہیں کہ ما ضی کے ان واقعات کا تذکرہ کروں جن سے اپنی رسوائی بڑھ جا نے کا اور مزید خد شہ ہے لیکن پھر بھی ما ضی کا تجزیہ ضروری ہے ۔ کیونکہ حال کی درستگی اور مستقبل کی تعمیر ما ضی کے ذکر کے بغیر نہیں ہو سکتی ۔ دوسری طرف اگر پچھلے واقعات کو نظر انداز کر دیا جائے اور ان سے سبق حا صل نہ کیا جا ئے تو یہ ا پنے ماضی سے بیزاری ہو گی۔

ظلم ظلم ہے چا ہے وہ کو ئی مسلما ن کرے یا غیر مسلم ہر مذ ہب ظلم کو نا پسند کرتا ہے اور دنیا کا کو ئی بھی مذہب اس کی اجا زت نہیں دیتا ۔جبکہ اسلام میں ظالم اور ظلم کا معا ملہ اور سخت ہے۔ خدا اور رسول کی طرف سے بے شمار سخت وعیدیں ہیں۔ اس لیے اسلام ناصرف ان تما م افعال کو نا پسند کرتا ہے جن سے ظلم کی ذرہ برابر بھی بو آتی ہو بلکہ اسلام انسان کی ان حرکتوں کو بھی نا جائز اور غلط قرار دیتا ہے جس میں ادب اور حقوق کی ادنی سی خلاف ورزی بھی شامل ہو۔اسی لیے اسلام نے خاندان، پڑوسی،، آقا ، غلام سماج، اور شہری زندگی کے جتنے بھی حقوق اورآداب ہیں سب پر عمل داری کو یقینی بنا تا ہے ۔پھر ایک مسلمان جس کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو پو ری انسانیت کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہو۔ایک مسلما ن جس کو خدا آخرت حساب و کتاب جزا سزا سب پر سو فیصد ایمان اور یقین ہو، تو وہ کیسے اپنے خدا اور رسو ل کے بتا ئے ہوے طریقوں کی خلاف ورزی اور بغاوت کر سکتا ہے اس کا تصور ایک مسلمان سے نہیں کیا جا سکتا ہے ۔

ذکر تھا ایک اسلامی ریاست پا کستان کا جس کے تشکیلی نعروں میں اسلام کی سر بلندی، اس کی بقا وتحفظ،اور اسلامی شریعت کے نفاذ کے ساتھ ساتھ وہ سب کچھ تھاجو ایک خالص اسلامی ریاست کا امتیاز ہو تا ہے لیکن افسوس! وہ تما م دعوے کھو کھلے،اور ریت کے پیوستہ ذرات کے ما نند تھے۔جن میں بقا، ثبا ت اور استحکام کا کہیں تصور نہیں تھا۔پھر ان کھوکھلے اور سیاسی نعروں کے نتیجہ میں کیا ہوا۔ایک اسلامی ریاست جس کودنیا میں اسلام کی عملی تصویر بننی تھی،وہاں کے لوگوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ ایک ایسی اسلامی جمہوری ریاست کا نمونہ دنیا کے سا منے پیش کرتے جہا ں امن وسکون ،عدل وانصاف پیا ر ومحبت بھا ئی چارگی ، اور انسانی روادری کی ایسی مثالیں پیش کیجا تی جو پوری انسانی دنیاکے لیے آئیڈیل ہوتی ۔لیکن زیا دہ تر معاملہ پا کستان کے تعلق سے اس کے بر عکس ہی دیکھنے کو ملا ،بلکہ پا کستان کی تا ریخ کے ساتھ ایسے پر آشوب واقعات بھی وا بستہ ہیں جن کے ذکر سے کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔اور سوچا نہیں جا سکتا ہے کہ مسلمان ایسی بھی حرکت بھی کر سکتے ہیں ۔جن سے پوری مسلم امہ کا سر رسوائی سے جھک گیا ۔ اور یہ غیر انسانی حرکت جس میں انگلیا ں اپنے ہی خون سے لبریز ہوئی اس وقت پیش آئی جب مسلم اتحاد کے نا م پر آنے وا لی ریا ست دوحصوں میں تقسیم ہو رہی تھی، یعنی بنگلہ دیش کی تقسیم کے وقت دسمبر ۱۹۷۱؁ء میں ،مفکر اسلام مولانا علی میاں ندویؒ اس وقت کی صورت حال پر تبصرہ کر تے ہو ے لکھتے ہیں۔

ابھی چند روز کا واقعہ ہے کہ قدیم اسلامی ملک اور مسلمانوں کی خالص اکثریت والے علا قے میں جو علماء اور مشائخ اور مدارس و خا نقا ہوں کی سر زمین تھی ،جس کے چپہ چپہ پر مسجدیں اور خا نہ خدا تھے، جس کے لیے صدیوں اولیائے کرام نے آب دید ہ اور خون جگر بہا یا،اور جس کی زمین ان کے آنسوؤ ں سے نم اور جس کی فضا ان کے نا لہائے نیم شبی سے گرم تھی، زبان و تہذیب کے جنو ن کی ایک تیز و تندلہر اٹھی اور دیکھتے دیکھتے صدیوں کی محنتوں پر پا نی پھر گیا،مسلمان نے بتکلف مسلمان کا گلا کاٹا بے گناہ انسان اس طرح ما رے گئے جیسے سانپ اور بچھو ما رے جا تے ہیں، اور ان پر کو ئی رحم نہیں کھایا جاتا،جن لو گوں نے اس ملک میں پنا ہ لی تھی ان کے لیے اب اس ملک میں کہیں پنا ہ نہ تھی،نہ کسی دل میں ان کے لیے حم کا جذبہ تھا، نہ کسی آنکھ میں ان کے لیے کو ئی آنسو،انسانوں کا شکا ر اسطرح کھیلا جا رہا تھاجیسے کسی جنگل میں درندوں اور پر ندوں کا اور کسی تا لاب میں مچھلیوں کاکھیلا جا تا ہے،نہ شریف عرتوں کی عصمت محفوظ رہی، نہ بو ڑھوں کے بڑھا پے پر ترس کھایا گیا،نہ معصوم بچوں کی چیخ وپکارپر کا ن دھرے گئے،بھوک، پیاس کا عذ اب سنگ دلی اور شقاوت کی کو ئی مثال ایسی نہ تھی جو اپنے بھا ئیوں کے لیے روا نہ رکھی گئی ہو ، زبا ن کی ’’وثنیت‘‘(بت پرستی) عقیدۂ تو حیدپر ، قوم پرستی اور نسل پرستی اسلامی وحدت پر،اور حمیت جا ہلیت اور عصبیت اخوت اسلامی پر،اس طرح غالب ا ٓکر رہی کہ ابتدائے اسلام سے آج تک کسی خطۂ زمین پراس طرح غالب نہیں آئی تھی، اور اسلام اور مسلمان ایک دوسرے کے ہا تھوں کبھی اس طرح ذلیل نہیں ہوے جس طرح اس زما نے میں۔

یہ سب وا قعات ہیں جو بنگلہ دیش میں پیش آئے چمچوں سے آنکھیں نکا لی گئیں چا رہ جس طرح کا ٹا جا تا ہے اس طرح انسانوں کے سر قلم کیے گئے مسجد میں نمازیوں پر بم پھیکے گئے ، اور بعض دوستوں نے بتا یاکہ انسانوں کو زندہ بھی د فن کردیا گیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پو ری آبادی ا س جنون کا شکا ر نہیں تھی امت کے با شعور اور با حمیت مسلمانوں نے اس کی مخالفت کی اور اس صورت حال پر خون کے آنسوں بہا ئے۔

ان واقعات کا سب زیادہ شرمناک پہلو یہ ہے کہ اس سے مخا لفین کو اسلام کی نا کا می کے ثبوت کے لیے ایک دلیل ہا تھ آئی اور انہوں نے اس سے یہ نتیجہ نکا لاکہ اسلام میں رابطہ بننے اور مختلف قوموں اور نسلوں کو ( جن کی زبا نیں اور رنگ ونسل مختلف ہیں) متحد کر نے کی صلاحیت نہیں ہے نیز یہ کہ اسلامی عقیدہ پرکسی معا شرہ اور کسی ریاست کے قا ئم ہو نے ا ور اگر قا ئم ہو جا ئے تو با قی رہنے کا امکان نہیں، یہ وہ معنوی خسا رہ ہے جس کا کو ئی خسارہ مقا بلہ نہیں کر سکتا ، اس سے اسلام کی سا کھ کو زبردست نقصان پہونچا ہے ، اور آپ جا نتے ہیں کہ تجا رت میں اصل چیز سا کھاور اعتبا ر ہے ۔

یہ تو صرف وہ درد انگیز داستان تھی جو دو مسلم ملکوں کی تقسیم کے وقت پیش آئی ،ور نہ اس کے علاوہ اور بہت سا رے ایسے حادثات اور واقعات مملکت خداداد کے زخم خوردہ سینے پر واقع ہیں ہیں جو زوال پذیر قوموں کی علامت اور ان کے مقدرات میں سے ہیں۔حا ل ہی میں پشاور آرمی اسکول میں معصوم بچوں پر حملہ،اس سے پہلے سا بق صدر پرویزمشرف نے لال مسجد پر معصوم بچے اورننھی بچیوں پر گو لیاں بر سا کر ان کے خون سے اپنے ہوس اقتدار کی پیاس بجھا ئی، اور اب ایک مرتبہ پھر ایکشن پلان کے ذریعہ ما ضی کی تا یخ دوہرائی جا رہی ہے ۔اور نو بت یہاں تک پہنچنے کی آ گئی کہ جمہو ریت کو پا کستا ن میں خطرہ محسوس ہو نے لگا، خدا خیر کرے ، بحرحال یہ تو ایک طویل درد بھری داستان ہے۔بس دسرے الفاظ میں یہی کہا جا ئیگاکہ پا کستان میں جو کچھ ہوا یاجو کچھ ہو رہا ہے ،وہ ایک با ضمیر اور زندہ قوم کی ذلت اور رسوائی کے لیے کا فی ہے،
 
Fateh Muhammad
About the Author: Fateh Muhammad Read More Articles by Fateh Muhammad: 30 Articles with 30056 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.