ہم عہد ٹھگ کے زندہ لوگ

ھمارے خطے کی تا ریخ میں ٹھگ ہر عہد میں زندہ رہے ہیں طویل عرصہ گزرا جب عہد مغلیہ کے زوال پرنفسا نفسی کا عالم تھا ٹھگ بر صغیر میں لو ٹ ما ر کا با زار گرم کئے ہوئے تھے جب ملک میں سیاسی انتشار پیدا ہوجا ئے تو ڈاکو اور ٹھگ بھی اپنا دا ئرہ کا روسیع کر لیتے ہیں ایسٹ انڈیا کمپنی کے لئے اقتدار سنبھالنے کے بعد سب سے بڑا چیلنج یہی تھاکہ کس طرح ان کا خا تمہ کیا جا ئے ادھر ٹھگوں کی کو شش ہوتی کسی طرح کا بھی کو ئی سراغ یا نشان جرم کانہ چھوڑیں وہ زبان بھی خفیہ استعما ل کر تے تھے جیسے’’ مصلحا ت ٹھگی ،، سے رضا علی عا بدی لکھتے ہیں اگر کو ئی کہے آلہ بھائی سلام ! تو اس شخص سے ہو شیا رر ہیئے اور سمجھ لیجے کہ یوں عجیب سا نا م لے کر آپ کو سلام کر نے والا شخص در اصل ٹھگ ہے اور یوں سلام کر کے محض اطمینان کر نا چا ہتا ہے کہیں آپ تو ٹھگ نہیں چنا چہ اگر آپ نے ٹھگوں کے مخصوص زباں میں جواب نہیں دیتے تو سمجھئے خیر نہیں ،،ٹھگ سفا کی سے معصوم لو گوں کو اپنا نشا نہ بناتے تھے ان کے قاعدے میں شگون اور اپنے کام سے متعلق کئی اصلا حیں تھیں مصلحا ت ٹھگی میں ٹھگوں کی مخصو ص زبان رماسی میں ایک ہزار چھ سو سے زیادہ الفاظ جمع ہیں جیسے آنسو توڑ! بن مو سم کی بارش کو کہتے تھے جو برا شگون تھا ،پگڑی! جسے با ندھے بغیر با ہر نہ نکلتے تھے اگر پگڑی گر پڑے توبرا شگون سمجھ کر وا پس آجا تے تھے،تلہا! بھید لا نے والا جا سوس ٹھگ ، سودا! میٹھی میٹھی با تیں بنا کر مسا فر کو پھنسا نے والا ٹھگ، اوبارنا ! پھا نسی لگتے وقت نر خرے سے نکلنے وا لی آواز، سیم سیا ! پھا نسی لگتے وقت مسا فر کا ہا تھ پکڑنے وا لا شخص۔ جھر نی ! پھا نسی دینے کا اشارہ،ٹھگوں کا جمعدار قتل کا اشارہ دیتا اور کہتا آئے ہو تو گھر لے چلو،یا حقہ پی لو، یا تمبا کھالو، یا پان دو یہ اشارہ پا تے ہی دوسرا ٹھگ رومال کو بل دے کرشکار کے گلے میں ڈال کر اس طرح کھینچتا کہ وہ وہیں مر جا تا ٹھگوں کے نز دیک مسا فر کو مارے بغیر اس کے مال کو اپنے اوپرحرام سمجھتے تھے ان کااعتقاد تھا کہ مارا ہوا آدمی بھوت پریت نہیں بنتا کیو نکہ وہ دیوی کی مرضی سے ما ر تے ہیں ٹھگوں کے ساتھی حملے سے پہلے اپنے سردار کے گا ؤں میں جمع ہو تے یہ دن اور آپریشن کا وقت کا تعین کر تے اس کے بعد کدال کو پا ک کر نے کی رسم ادا کر تے اس سے وہ شکار کی قبر کھودتے تھے اس لئے ان کا عقیدہ ہو تا تھا کہ کدال کو پا ک کر نے سے ان پر کوئی آفت نہیں ا ٓئے گی بکری کو قربا ن کر کے کھو پرے کے ساتھ بھو انی دیوی کو پیش کرتے پھر گا وں سے با ہر نکل کر کچھ دیر خا موش کھڑے رہ کر شگون لیتے چڑیوں کی چہچا ہٹ اچھا شگون ہو تا دوسری اہم رسم روما ل کو استعما ل کر نے کی ہو تی جس کے اجازت گرو کی مرضی کے بناء نہ ہو تی جب کو ئی ٹھگ اس کی تر بیت لیتا تو اس کے بعد ایک محفل میں دیوی کی دعا کے بعد رومال اس کے سر پر رکھا جا تا دستور کے مطابق رومال سے ہی مسا فروں کو پھا نسی دی جا تی تھی، بلہا !قبر کھو دنا والا ٹھگ ،کدال گر جا ئے تو یہ بد شگونی تصور کی جا تی تھی ٹھگ فورا وہ جگہ چھو ڑ کر چلے جا تے تھے ۔

غرض ٹھگوں نے اپنے پیشہ کو اس قدر مخفی رکھا تھا کہ خود ان کی بیو یوں کو بھی نہیں معلو م ہو تا تھا کہ وہ کیا کام کر تے ہیں اسی لئے ایک عر صے تک یہ قا نون سے محفو ظ رہے ان کے ہتھے لگنے والے بے گناہوں کے الواحقین کو کبھی معلوم ہی نہ چلتا تھا کہ کہاں لا پتہ ہوگئے ٹھگ کسی جما عت کو لوٹنے کا منصوبہ بناتے حیلے بہا نے سے ان کا اعتماد حا صل کرتے ٹھگ کبھی مسافروں کا بھیس بدل کر قا فلوں میں شا مل ہو جا تے معصومیت کا لبا دہ اوڑھے یہ سب میں گھل مل جا تے ان کاا عتماد پا جا تے سب کا بھید لیتے پھرتے خفیہ زبان میں اپنے سا تھیوں سے رابطہ بنا ئے رکھتے پھر کسی مو قع کی جگہ پر سب مسا فروں کو سوتے میں یا ان کی بے خبری میں اچا نک ھملہ کر دیتے قابو میں لینے کے بعد وہ کبھی اپنے شکار کو زندہ نہیں چھوڑتے تھے اسے مار کر زمین میں دفن کر دیتے یا کنویں میں ڈال جا تے مال و اسباب آپس میں تقسیم کر لیتے تھے ۔

اسی قسم کا ایک واقعہ ڈاکٹر مبارک اپنی کتاب میں سیتا رام کی ڈاکوؤں سے مڈ بھیڑ پر لکھتے ہیں کہ سیتا رام اپنے چچا کے ہمراہ سفر پر تھے کہ چار دن بعد ایک خا نہ بدوش گانا بجانے والوں کی جماعت ان کے ساتھ سفر میں شریک ہو گئی ان کے پاس مختلف قسم کے ساز تھے یہ گا نے بجا نے والے راستے میں اپنے سازوں کے ساتھ مسافروں کو محظو ظ کرتے رہے ایک رات اچا نک سیتا رام کی آنکھ کھل گئی دیکھا ٹھگوں کا پورا گروہ ایک جگہ جمع ہو کر کسی انجانی زباں میں کھسر پھسر کر رہا ہے انھوں نے سب کو جگا کر خبردار کر دیا یہ سب ٹھگ ہیں سب نے انھیں اپنے سا تھ لے جا نے پر معذرت کر لی وہ لو گ گڑاگڑائے مگر کسی نے حامی نہیں بھری اور دوسر ے را ستے پر ہو لئے دو دن کو ئی بات نہ ہو ئی مگر تیسرے دن گیارہ آدمیوں کی جما عت ہم سے آن ملی ان کے پاس حقہ بنا نے کے با نس تھے انھوں نے سفر میں شریک ھو نے کی گزارش کی ساتھ ھو لئے ان کی زبان مو سیقاروں سے بلکل مختلف تھی کپڑے بھی بہت گندے پہنے ہوئے تھے قلی معلوم ہو تے تھے مجھے ان میں ایک آدمی ان خا نہ بدوشوں کی شکل کا نظر آتا تھا میں نے چچا سے اس کے بارے میں بتا یا میں اس رات با لکل سو نہیں پا یا پھر رات اک پہر میری آنکھ لگی ہی تھی کہ اچا نک خطرہ محسوس کر کے میری آنکھ کھلی تو لگا جیسے کو ئی مر غ اذان دے رہا ہو میں زور سے چیخا فورا چچا اٹھ گئے اور تلوار کھیچ کر کھڑے ہو گئے یہ سب لمحے بھر میں ہوگیا تھا مگر اس دوران وہ لوگ دیو نا رائن کے بھا ئی کو ریشمی رومال سے گلا گھو نٹ کر ما ر چکے تھے تلک دری بے ہو ش ہو چکا تھا اس کی جان چچا نے بچا لی تھی انھوں نے ٹھگ کے دو ٹکڑے کر دیئے تھے یہ دیکھ کر باقی ٹھگ فرار ہو گئے تھے مگر اس ذرا سے وقفے میں ٹھگوں نے چچا کے سونے کے بٹن اور دری کی بندو ق چرا لی تھی ایک بار ایسا ھوا کہ انگریز سرکار سے رخصت لے کر سپاہی اپنے گاوں واپس جا رہے تھے کہ ان ٹھگوں کے ہتھے چڑھ گئے ایک دو سپا ہی کی بات ہوتی توآئی گئی ہو جا تی مگر یہا ں معا ملہ سینکڑوں سپا ہیوں کا تھا سرکار نے پوری تندہی سے سراغ لگا نے کی ٹھانی ولیم سلیمن کو اس کا چا رج دیا گیا کچھ قبائل کا پیشہ لوٹ مار ڈاکہ زنی تھا ھکومت ہند نے انکو مجرم قبا ئل کا نام دیا انھی میں سے کچھ نے مخبری کا کام انجا م دیا اور کئی بڑے نا می گر امی ٹھگ گر فتارکروائے سلیمن نے اپنے تجر بات کی رو شنی میں ایک رپورٹ کلکتہ سے پیش کی جس کے مطا بق ایک ٹھگ بہرام نے 941 لو گوں کی جان لی بعد کے سالوں میں اس نے گنتی چھوڑ دی تھی اسی طرح سید امیر علی سات سو سے زائد قتل کر چکا تھا مکھن، امراؤ، رتی را م، ہیرا مدن، فر ہگنیااور جمعہ ٹھگ جیسے سفاکوں نے سینکڑوں بے گناہوں کو قتل کیا انگریز سرکار نے ان مجرموں کو ساتھ سخت سزائیں دیں سیکڑوں پھا نسی چڑھا ئے گئے کالے پانی اور عمر قید کی سزائیں دی گئی پورے ہندوستان میں جہاں کہیں کوئی ٹھگی کی واردات کی خبر ملتی حکومت فورا سختی سے قانون پر عمل در آمد کرتی بالا خٓر چند سالوں میں پورے ملک میں ٹھگوں کی اجارہ داری ختم ہو گئی۔

ٹھگ ہر دور میں زندہ رہے ہیں طر یقہ واردات بدل گیا ہے ھم عہد ٹھگ میں جی رہے ہیں زندگی کی کسی بھی شعبے پر نظر ڈا لئے آپ کو ٹھگ مل جا ئیں گے بلکہ آج کے ٹھگ زیادہ دلیر ہیں جو شکار کو دن دھاڑے لوٹ کر زندہ در گور کر دیتے ہیں نہ کوئی شور اٹھتا ہے نہ آہ و فغا ن بلند ہو تی ہے دیکھا جا ئے تو ہماری اسمبلیاں بھی تو اسی میں شامل ہے ۔
Ainee Niazi
About the Author: Ainee Niazi Read More Articles by Ainee Niazi: 150 Articles with 148162 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.