قصور کا قصور ؟

جہاں پر عدالتیں انصاف کرتی نظر نہیں آتی وہاں پر جرائم پیشہ عناصر اپنی بنیادیں مضبوظ سے مضبوط بنا لیتے ہیں اور جرائم نگریاں بنتی جاتی ہیں اور جرائم کی ایسی اندھی آندھی چلتی ہے جس کے سامنے لوگوں کو بیدردی سے قتل کیا جاتا اور انکی عزتوں کوپامال بھی کیا جاتا ہے۔پاکستان میں ایسا ہی ایک تاریخی اسکینڈل سامنے آیا ہے جس میں کمسن بچوں اور بچیوں کو ورغلا کر تو کہیں گن پوائنٹ پر دھمکا کر انکی عصمتیں لوٹی گئیں۔قصورکا حسین والا گاؤں میڈیا پر تب ان ہوا جب ایک متاثرہ خاندان تھانہ گنڈا سنگھ رپورٹ کے لیے پہنچا تو پنجاب پولیس کے جوانوں نے ا ور معزز افسران نے رپورٹ درج کرنے کی بجائے انکے ڈرا دھمکا کر بھیج دیا اور مقدمہ درج نہ کیا ۔ اہل خانہ کے بارہا اصرار پر جب کوئی حل نہ نکلا تو انہوں نے میڈیا سے رابطہ کر لیا اور یوں یہ پنڈورابکس کھلا تو ہرصاحب شعور اور جذبہ انسانیت رکھنے والا ایک عجیب کرب میں مبتلا ہو گیا ۔ حسین والا گاؤں میں284بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا یا گیا اور ویڈیو بنا کر انکا بلیک میل کیا جاتا رہا۔ایک کے بعد دوسرے گھر کا کوئی نہ کوئی بچہ یا بچی جنسی زیادتی کرنے والے گروہ کے ہتھے چڑھااور جب یہ گھناؤنا کام ہوتا تو اسکی ویڈیو بھی بنائی جا رہی ہوتی ۔جنسی حوس پوری ہونے کے بعد کچھ دنوں کے بعد ویڈیو دکھا کر اہل خانہ کو ذلیل کیا جاتا یا پھر بچوں کو بلیک میل کیا جاتا کہ یہ ویو یڈو انٹرنیت پر اپلوڈ کر دی جائے گیا اسطرح اس انسانی لبادہ اوڑھے بھیڑیوں نے پیسے بٹورئے۔کسی ماں نے بچے کی ویویڈو ضائع کروانے کے لیے زیور بیچ کر لاکھوں دیے تو کچھ نے 10لاکھ دیا کہ انکی بچی کی ویڈیو کو deleteکیا جائے مگر گینگ نے پیسے ہتھیا لیے اور ویڈیو ضائع نہ کی۔284یہ وہ واقعات ہیں جو کہ لوگ احتجاج کر رہے ہیں پاکستان میں ایسے واقعات بے شمار ہیں میرے ذرائع کے مطابق اس بھیڑیوں نے کچھ فی میل ٹیچرز کو بھی جنسی تشدد کا نچانہ بنایا اور فلمایا بھی ااور انکو بلیک میل کیا کہ وہ فی میل سٹوڈنٹس مہیا کریں جسکی وجہ سے کئی لڑکیاں انکی حوس کا نشانہ بنی اور ویڈیو بنتی گئی لڑکیاں بلیک میل ہوتی رہی اور ایک کے بدلے ایک بلیک میل کے ڈر سے انکے ہاں پہنچتی رہی اور یہ سلسلہ چلتا رہا۔یہ واقعات گزشتہ 6,7سال سے حسین والا گاؤں میں دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔بچوں نے تو ڈرتے بات نہیں کی تو دوسری جانب ماں باپ عزت بچانے کی خاطرآواز نہ اٹھا سکے جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ آج سارا گاؤں ہی انکی حوس کا نشانہ بن چکا ہے۔متاثرہ بچوں کے مطابق وہ جان بچانے کی خاطر گھر سے چیزیں چوری کرتے اور فروخت کرکے بلیک میلرز سے جاں کی امان پاتے وہ بھی محض کچھ دنوں کے لیے ۔۔۔اﷲ اکبر بچوں اور بچیوں پر کیا گزرتی ہوگی؟ بچوں کی خداداد صلاحتیں تو اندر ہی اندردم توڑ چکی ہونگی اوور مستقبل دھندلا دکھائی دیتا ہوگا۔اس دلخراش سانحے کے بعد افسوس اپنے نااہل حکمرانوں پر ہوتا ہے جنہوں نے مجرموں کو قرار واقعہ سزا دینے کی بجائے اسکو زمینی تنازعہ قرار دیا حالانکہ میڈیا پر فوٹیج دن رات چل رہی ہے مگر اک نیا رنگ دیا گیا۔متعلقہ پولیس بھی ان بھیڑیوں کو سلاخوں کے پیچھے کرنے کی بجائے انکی پوری سپورٹ کرر ہی ہے جسکا عملی ثبوت تب سامنے آیا جب گاؤں کے مولوی نے بچوں سے زیادتی کے لیے اہل خانہ کے کہنے پر اعلان کیا کہ گاؤں والے اتنے بجے احتجاج کے لیے فلاں جگہ اکھٹے ہوجائیں تو پولیس کے جوانوں جوتوں سمیت مسجد میں گئے قاری صاحب پر تشدد کیا اور دہشتگردی کا پرچہ دینے کی بھی دھمکی دے ڈالی اور پھر شہریوں کی گاڑیاں پنکچر کر دی گئیں ان پرلاٹھی چارج ہوا پتھراؤ اسی اثنا میں ایک شخص ہلاک ہو گیا۔ جو ملزم پولیس کی حراست میں ہیں ان سے 400کے قریب ویڈیو کلپ منظر عام پر آچکے ہیں ۔پولیس مجرموں کو ساتھ دے کر کار خیر میں حصہ ڈالنے کی بجائے دوزخ میں قبریں بنا رہی ہے۔کے پی کے اور قومی اسمبلی میں مذمتی قراردایں منظور ہوگئیں قرارداد کا متن کچھ یوں ہے کہ ملوث افراد کو کڑی سزا دی جائے مگر سب بے سود، ہر بار ایسا ہی ہوتا ہے قراردادیں، کمیٹیاں،کمیشن۔۔جنسی گینگ میں تنزیل الرحمن نامی شخص جو کہ ہائی کورٹ کا ملازم ہے جسکو گرفتار کر کے معطل کر دیا گیا ہے۔آخر کیوں پولیس اتنی پروٹیکشین فراہم کر رہی ہے بظاہر تو لگتا یوں ہے کہ قصور کی سیاسی قیادت کو اسکی پشت پناہی حاصل ہے جو اس سارے معاملات میں کمیشن کھاتے رہے ہیں اور ہمارے ہاں تو تھانے کلچر کا گھٹیا نظام ہے جو علاقے کا ایم پی اے ،ایم این اے ہو اسکی مرضی کے ایس ایچ او ہوتے ہیں جسکی بدولت انکی کالی کرتوتوں کا پردہ چاک نہیں ہوتا۔ خادم اعلی صاحب جو ہر جگہ فوٹوسیشن کروانے کے لیے جاتے ہیں اور بوگس چیک بھی دیتے ہیں مگر اتنی کیا مصروفیت کہ دو قدم پر قصور نہ جا سکے؟؟ایران میں 20بچوں سے زیادتی کا کیس سامنے آیا تھا ایران حکومت نے سرعام اسکو 100کوڑے مارے اور پھانسی دے ڈالی اسطرح بھار ت میں لڑکی سے گینگ ریپ ہوااور سارا بھارت بند کرا دیا گیا تھا یہ وہ لوگ ہیں جنکو اپنی عزتیں پیاری ہیں مگر ہمارے ہاں بے غیرتی کی تمام حدوں کی بھی حد ہو گئی ہے ! ہمارے ہاں میڈیا پر آکر کبھی زمین کا تنازعہ تو طلال چوہدری فرماتے ہیں ایسے کیس ہر صوبے میں ہوتے ہیں! گولی مارو سب کو یار جہاں بھی ہو اسکو سزا ملنی چاہیے خود کو دوسرے صوبے سے موازنہ کیا جارہا ہے حد ہی ہو گئی ہے پاکستان میں !قوم لوط اسی گھناؤنے کرتوتوں کے سبب عذاب الہی کی ذد میں آکر نیست ونبود ہو گئے۔تعزیرات پاکستان کی دفعہ377کے تحت غیر فطری طور پر کسی بھی شخص،عورت،یا جانور کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے پر عمر قید اور 2سے 10سال تک قید با مشقت بمعہ جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون کو عملی طور پر نافذ کی جائے اور جن ننھے پھولوں کو اس اذیت ناک کیفیت سے دوچار ہونا پڑا انکو انصاف فراہم کیا جائے اور بٹوری جانے والی رقم سٹیٹ ادا کرئے کیونکہ یہ سب ریاستی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور مجرموں کو عبرت ناک سزا دی جائے۔
 
M.Imran Tahir
About the Author: M.Imran Tahir Read More Articles by M.Imran Tahir: 12 Articles with 9175 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.