نیتیں صاف نہیں ہیں،اس لیے سودی نظام ختم نہیں ہو رہا

 .... معروف قانون دان، سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل راجا محمد ارشاد سے خصوصی گفتگو
انٹرویو: عابد محمود عزام
راجا محمد ارشاد معروف وکیل اور قانون دان ہیں۔ مختلف سرکاری عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل بھی رہ چکے ہیں۔ آپ ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں اہم کیسوںکے پٹشنرز اور آئی ایس آئی کی طرف سے بھی مختلف کیسز میں بطور وکیل پیش ہوتے رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سودی نظام کے خاتمے کے لیے بھی آپ نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک پٹیشن دائر کر رکھی تھی، جس پر گزشتہ دنوں عدالت عظمیٰ کے بینچ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے سودی نظام کے خاتمے کے لیے ان کی طرف سے دائر درخواست یہ کہہ کر خارج کردی کہ یہ کیس شرعی عدالت میں زیر سماعت ہے، اس کے ساتھ ہی معزز جج صاحبان نے یہ ریمارکس بھی دیے کہ جو سود نہیں لینا چاہتا، وہ نہ لے اور جو لے گا، اس سے اللہ خود پوچھے گا۔ حالیہ فیصلے کے مذکورہ ریما رکس پر مختلف مکاتب فکر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سودی لین دین کوئی اختیاری فیصلہ نہیں ہے اور ملک میں سودی نظام کو ختم کرنا حکومت کی اہم ذمہ داری ہے۔ سود کو قرآن و سنت میں حرام اور اللہ و رسول سے جنگ قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان میں اب تک بننے والے تمام آئین میں سود کے خاتمے کی ہدایت کی گئی ہے۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 38 الف کے مطابق یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ جس قدر جلد ممکن ہو سود کے خاتمہ کے لیے علمی اقدام کرے، آئین کا یہ آرٹیکل 1973 سے چلا آرہا ہے۔ واضح رہے کہ 1964ءسے 1968ءتک اسلامی نظریاتی کونسل نے دو سال کے عرصہ میں تمام بینکی نظاموں کا جائزہ لیا اور سودی معیشت کو حرام قرار دینے کی سفارش کی۔ تین سال بعد اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی رپوٹوں کا اعادہ کیا۔ کونسل نے 25 جون 1980ءکو سود کے خاتمے کے لیے ایک متبادل نظام تجویز کیا۔ 1990ءمیں محمود الرحمن فیصل نامی ایک شخص نے وفاقی شرعی عدالت میں سود کے خلاف ایک پٹیشن دائر کی۔ اس طرح اور لوگوں نے بھی درخواستیں جمع کرانا شروع کر دیں۔ ان کی تعداد 115 ہو گئی۔ عدالت نے ایک سال کی مدت میں روزانہ کی سماعت کر کے اکتوبر 1991ءمیں 157 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ دیا۔ اس فیصلے کے تحت 30 جون 1992ءتک متعلقہ قوانین میں ترمیم کرنے کو کہا گیا اور یکم جولائی 1992ءسے تمام سودی کاروبار کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے23 دسمبر1999ءکو لگ بھگ ایک ہزار صفحات پر مشتمل فیصلہ دیا، جس میں جون 2001ءتک حکومت کو مہلت دی گئی کہ تمام سودی کاروبار ختم کر دے۔ جس پر مسلم لیگ نے گزشتہ دور حکومت میں سپریم کورٹ میں شریعت کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی تھی، جو کہ آج تک التوا کا شکار چلی آرہی ہے۔ سودی نظام کے خاتمے کے لیے دائر پٹیشن کے اخراج، پس پردہ عوامل اور آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے راجا محمد ارشاد سے کی گئی خصوصی گفتگو نذر قارئین ہے۔

عابد محمود عزام: سودی نظام کے خلاف آپ کی پٹیشن کس قانون کے تحت خارج کی گئی ہے؟
راجا محمد ارشاد: یہ ایک اسلامی، آئینی اور قانونی معاملہ ہے۔ سپریم کورٹ کے ججز اس مسئلے کو نہیں سمجھ سکے۔ انہوں نے کسی بھی قانون کے تحت اس کو مسترد نہیں کیا۔ دراصل ان کے پاس دین کا فہم ہی نہیں ہے، انہوں نے قرآن و حدیث کو پڑھا ہی نہیں ہے، ان کو معلوم ہی نہیں ہے کہ قرآن سود خور کے خلاف اعلان جنگ کر رہا ہے اور سود لینے والے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کرنے میں مصروف ہیں۔ پٹیشن بالکل واضح تھی۔ 1973ءمیں آئینی فیڈرل شریعت کورٹ بنی۔ 1956، 1962 اور 1973میں آئین بنے، ہرآئین میں سود کے خاتمے کی بات کی گئی۔ سود کے خاتمے کا مطالبہ قرآن و سنت اور آئین و قانون کے تحت ہے۔ سودی نظام کے خاتمے کے لیے دائرہ کردہ پٹیشن کو خارج کرنے کا فیصلہ آئین کے خلاف ہے۔ آئین و قانون کے حکم کے باوجود ملک میں سودی نظام کا خاتمہ نہیں ہوسکا۔ حکومت نے آئین اور قانون پر عمل نہیں کیا اور سود کو ختم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی اور نہ علمائے کرام نے حکومت پر اس حوالے سے کوئی دباﺅ ڈالا کہ سودی نظام کا خاتمہ کیا جائے۔
پٹیشن کو خارج کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ سودی نظام کا معاملہ شرعی عدالت میں زیرسماعت ہے۔حالانکہ سود کے خلاف فیصلہ دینا شرعی عدالت کا کام ہی نہیں ہے۔ فیڈرل شرعی عدالت کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ اس کا کام یہ ہے کہ بتائے فلاں چیز غیرشرعی ہے اور فلاں غیر شرعی نہیں ہے۔ شرعی عدالت کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ سودی نظام کا خاتمہ کرسکے۔ یہ اختیار صرف سپریم کورٹ کے پاس ہے۔ سپریم کورٹ ہی سودی نظام کے خاتمے کا فیصلہ کرسکتی ہے۔

عابد محمود عزام: کیا ایک اسلامی ملک میں اسلام کے منافی قانون سازی کی گنجائش ہے؟
راجا محمد ارشاد: پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے، یہاں قطعاً اسلام کے منافی قانون سازی کی اجازت نہیں ہے، لیکن گنجائش نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سود کا نظام اسلام سے متصادم نظام ہے۔ قرآن و حدیث میں سود (ربا) کی حرمت واضح ہے۔ آئین و قانون نے اس کو غیر شرعی قرار دیا اور اس کے خاتمے کی ہدایت کی ہے۔ اس کے باوجود اس کی گنجائش نکالی جارہی ہے۔ سپریم کورٹ کو چاہیے کہ اس کے خلاف سوموٹو ایکشن لے۔ سپریم کورٹ اور بہت سے معاملات پر تو سوموٹو ایکشن لیتی ہے، لیکن سود کے معاملے میں ازخود نوٹس کیوں نہیں لیتی؟ سپریم کورٹ نے اردو کے نفاذ کے حوالے سے جیسے ازخود نوٹس لیا ہے تو سود کے خلاف بھی نوٹس لے۔ قائد اعظم نے 1948ءمیں اسٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر ملکی معیشت کو سودی نظام سے چھٹکارہ دلانے کی ہدایت کی تھی، لیکن ان کے جانے کے بعد بہت سے لوگ سود کے حق میں سامنے آگئے اور سود کے محافظ بن گئے، جو آج تک محافظ بنے ہوئے ہیں۔ جب ایک چیز کو قانون اورآئین مسترد کر رہا ہے اور قائد اعظم نے بھی اس کو ختم کرنے کی ہدایت کردی تھی تو اس کے باوجود اس کا ختم نہ ہونا ناقابل فہم بات ہے۔

عابد محمود عزام: سودی نظام پاکستان کے معاشی نظام پر کس طرح اثر انداز ہو رہا ہے؟
راجا محمد ارشاد: سودی نظام کے ہماری معیشت پر بہت منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، حکومت اور سودی نظام کے حق میں بات کرنے والے جو مرضی دلیل دیں، لیکن اس کے منفی اثرات سے کسی طور بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن کریم نے سود کو حرام قرار دے دیا ہے۔ اللہ نے سود کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے۔ قرآن میں ہے کہ سودکو چھوڑدو، اگر نہ چھوڑو گے تو سن لو اللہ کی طرف سے جنگ ہے اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہے۔ سورہ بقرہ میں ہے :”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو، لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا تو آگاہ ہوجاو ¿ کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے۔“

عابد محمود عزام: درخواست خارج ہونے کے بعد آیندہ آپ کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟
راجا محمد ارشاد: اب میں فیصلے کی آرڈر کاپی لے کر ری پٹیشن کروں گا کہ آرڈر غلط ہے۔ فل کورٹ تشکیل دیا جائے اور معاملہ اس کے سامنے رکھا جائے۔ اتنی جلدی پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔

عابد محمود عزام: 1991ءمیں وفاقی شرعی عدالت اور 1999ءمیں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ نے تمام سودی قوانین کو حرام قرار دے کر کالعدم قرار دیتے ہوئے اس کے خاتمے کے لیے اقدامات کی ہدایت کی تھی، مذکورہ عدالتوں کے گزشتہ حکم پر عمل کیوں نہیں ہوا؟ اس کی راہ میں کیا رکاوٹ ہے؟
راجا محمد ارشاد:1991ءمیں وفاقی شرعی عدالت اور 1999ءمیں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ نے تمام سودی قوانین کو حرام قرار دے کر کالعدم قرار دیتے ہوئے اس کے خاتمے کے لیے اقدامات کی ہدایت کی تھی، لیکن پرویز مشرف اس کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔ سودی نظام اس لیے ختم نہیں ہو رہا، کیونکہ نیتیں صاف نہیں ہیں۔ سودی نظام کو ختم کرنا نہیں چاہتے۔ سود کے حمایتی ایک پاور فل لابی ہے، جن کے مفادات اس نظام کے ساتھ وابستہ ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ نظام ختم ہوگیا تو ہمارا سارا معاشی نظام ختم ہوجائے گا، یہ بڑے بڑے لوگ ہیں، یہ اس نظام کو بچانا چاہتے ہیں۔ اس نظام کے خاتمے کے لیے ایمان کی قوت چاہیے، دین کا علم چاہیے، یہ معلوم ہونا چاہیے کہ سود لینا کتنا بڑا جرم ہے۔ اس نظام کے ساتھ حکومتوں کے مفادات بندھے ہوئے ہیں۔ یہ حکومتیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی زیر اثر ہیں، ان کے حکم پر عمل کرتی ہیں اور وہ بالکل بھی نہیں چاہتے کہ یہاں سودی نظام ختم ہو، کیونکہ اس نظام کے ساتھ ان کے بھی بہت سے مفادات وابستہ ہیں۔ وہ بھی اس نظام کے خاتمے کی راہ میں رکاوٹ ہیں اور ان کے ساتھ ہمارے بہت سے لوگ ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ اگر پاکستان میں ربا فری سسٹم نافذ ہوجائے تو اس کے مثبت اثرات تمام عالم اسلام پر مرتب ہوں گے۔ آہستہ آہستہ یہ نظام ساری اسلامی دنیا میں رائج ہوجائے گا، ایسا ہونا بھی چاہیے، ساری اسلامی دنیا میں سود سے پاک معاشی نظام ہونا چاہیے، لیکن عالمی سازش کے تحت اس کو کامیاب نہیں ہونے دیا جاتا اور کچھ اقتصادی ماہرین سود کے حق میں دلائل دیتے نہیں تھکتے۔

عابد محمود عزام: سودی نظام کا خاتمہ کب اور کیسے ہو سکتا ہے؟
راجا محمد ارشاد: سودی نظام کے خاتمے کے لیے مسلسل جدوجہد کرنا ہوگی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام علمائے کرام ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر سود کے خلاف آواز بلند کریں۔ سب علمائے کرام متحد ہوکر حکومت پر دباﺅ بڑھائیں کہ سودی نظام کو ختم کیا جائے، جب تک سودی نظام ختم نہیں کیا جاتا اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔ علمائے کرام نے کبھی اس کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی ہی نہیں ہے۔ اگر سب نے مل کر مشترکہ جدوجہد کریں تو اس نظام کا ختم ہونا مشکل نہیں ہے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 641568 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.