سیاستدانوں کی خدمات۔۔۔۔اور گناہ۔؟

پاکستان کی سیاست میں سیاسی حکومتوں کے مثبت اقدامات کے تذکرے کرے یا اعتراف کا باب تقریبا بند ہو چکا ہے ،ہم ہر وقت اپنے مخالف حکمران کو زیرو ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں اور رہی سہی کسر الیکٹرانک میڈیا کا اجتماعی طرز عمل پوری کر دیتا ہے ،شب وروزہمارے ملک میں اس رویے کا راج ہے ایسا لگتا ہے اس دنیا کے پیدا شدہ ’’گناہگاروں‘‘ میں ’’پاکستانی سیاسی حکومتوں ‘‘ سے بڑی خطا کار حکومتیں وجود میں نہیں آئی اور نہ تا قیامت ایسا کوئی وقوعہ ہونے کا امکان ہے،سابق وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی کے تاریخی کارناموں میں 1122اور صوبہ پنجاب کے اسپتالوں میں ایمرجنسی سروسز کا نظام بدلنے میں ان کی خدمات سے کوئی ہوش مند شخص انکار کر سکتا ہے۔۔۔۔؟یہ محض دو مشالیں ہیں دسیوں اور بھی دی جا سکتی ہیں ،ہم سب کو سیاستدانوں اور سیاسی حکومتوں کے احتساب کے نام پر ’’ملت اسلامیہ کی تیرہ چودہ برسوں کی خامیوں اور زوال کا بار‘‘ صرف سیاستدانوں اور سیاسی حکمرانوں پر ڈالنے کے اس نا قابل مریضانہ رویے سے خود بھی رک جانا چائیے،جن لوگوں کا دال دلیہ یا ’’دنیاوی منصوبے سازوں‘‘ کی’’ چکر بازیوں‘‘کو ان حیلوں سے غذا اور زندگی ملتی ہے انہیں بھی باز رکھنے کی اپنی سی ہر کوشش کر دیکھنی ہو گی ،پاکستانی سیاستدانوں اور سیاسی حکومتوں کے معاملے میں جن انتہا پسندی کا ’’کھلواڑ‘‘کیا جارہا ہے وہ اس بچے کھچے ملک کی سلامتی کی پیشانی پر بد قسمتی کے سرخ نشان کا روپ اختیار کرتا جا رہا ہے،مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میاں محمد نواز شریف نے موٹر وے منصوبے کا آغاز کیا ابھی نا مکمل ہی تھا مکمل ہونے سے پہلے ہی ’’اقتدار‘‘ سے فارغ کر دئیے گئے ،دوسری بار حکومت ملتے ہی ادھوری موٹر وے تکمیل کا سفر وہیں سے شروع کیا جہاں ادھورا چھوڑا تھا ،امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی میاں نواز شریف سے علیحدگی اختیار کر کے بی بی شہید کی قیادت قبول کر چکے تھے تو اور آپ سب اس امر سے آگاہ ہیں کہ وطن سے ’’ہجرت‘‘پر مجبور کر دینے والے حسین حقانی کی جن قلمکاروں نے فیصلہ کن حمایت کی اور آج بھی کر رہے ہیں ،بتانے کا مقصد قارئین کو یہ ہے کہ یہی حسین حقانی ان کا کام ایک ہی تھا کہ روزانہ صبح سویرے اٹھ کر پیمانہ ہاتھ میں پکڑ کر موٹر وے کی پیمائش کر کے قوم کو یہ بتا بتا کر ہلکان کرنا کہ ’’چھ لائنوں‘‘ کے یہ نقصانات ہیں اور ’’چار لائنوں ‘‘ کے یہ فائدے ہیں ۔۔

یہ نواز حکومت مملکت پاکستان کی دھرتی پر جس طرح موٹر وے بنا رہے ہیں وہ ملک کی معشیت کا بیڑہ غرق کر دے گی،پاکستانی عوام پہلے ہی اپنے احوال کے بوجھ تلے پسے ہوئے ہیں ۔۔۔وہ تو بالکل ہی کچلے جائیں گے وغیرہ اور مزید بھی وغیرہ وغیرہ،لیکن حضرات موٹر وے مکمل ہو گئی اور آج جنوبی ایشیا کی خط سازی کے تمام نشیب و فراز کے متشکل کرنے یا ہونے میں اس موٹر وے کے صدقے پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔۔۔۔۔۔کسی ذاتی تعصب یا مخالفانہ کفیت کے بتائیں لاہور شہر کا آبادی کا بہاؤ اور ٹریفک کے دباؤ کے باعث جو حال ہو گیا تھا کیا اس میں بندے کا بندے پر پاؤں رکھ کر چلنا محال تھا،میٹرو بس آخر کون سا جرم ہے ۔۔۔۔۔؟جس کے باعث پاکستانی عوام کے مسائل کم ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔؟ کیا یہ میٹرو بس نہ ہونے سے پیپلزپارٹی کی حکومت یا نون لیگ حکومت دہشت گردوں کا نام و نشان متا دیتی۔۔۔۔۔۔؟یا پاکستان میں عدل و انصاف اور تھانوں میں انسانیت کے دریا بہنے لگتے۔۔۔۔۔۔۔؟ایسا کچھ نہیں ہوتا البتہ لاہور میں اس کے چل جانے ۔سڑکوں اور بائی پاسز کے جال بچھ جانے سے ’’بندے پہ بندے کا پاؤں رکھ کر چلنے کی قیامت ٹل چکی ہے ،ہمیں اپنی تنقید اور احتساب کے خطوط کو سوئیوں کا گچھا بنانے کی ضرورت نہیں ہے جس کے بعد مسائل کی ترتیب اور جائزے کے امکانات ہی معدوم ہو جائیں۔۔۔۔۔پاکستان میں ’’بے روز گاری‘‘ کاجنازہ پڑھنے ’’رسم قل اور رسم چہلم ‘‘ ادا کرنے کے معاملے میں کسی دوسرے مسلمان ملک کا مسلمان معاشرہ ہمارے مقابلے میں پاسنگ بھی نہیں ،جب سیاستدان اور سیاسی حکومتیں بے روزگاری کے جن کو قابو کرنے میں واقعی کوئی حیرت انگیز اقدامات کرتی ہیں ہم ان کی نفی کرنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے ہیں بلکہ فورا ان اقدامات کے ’’جنازے‘‘ اٹھانے کی تیاریاں کرنے لگتے ہیں۔۔۔۔خدمات تو بے شمار گنوائی جا سکتی ہیں مگر ایک اٹیم بم ہی کافی ہے آج پوری دنیا میں ہر اکڑفوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو سکتے ہیں میرے اپنے آبائی حلقے این اے 146دیپالپور میں اربوں کے ترقیاتی کام مکمل اور ہو رہے ہیں سات نئے بجلی کے فیڈرز، کروڑوں روپوں کی لاگت سے ٹف ٹال، منی فلڈ لائیٹ اسٹیڈیم، سڑکوں کا جال،گرلز کالج کی نئی بلڈنگ، زرعی یونیورسٹی کے کیمپس،ٹانسفارمرز کی اپ گریڈیشن،اور بے شمار کام نون لیگ کے تعمیر و ترقی کے شہنشاہ وفاقی سیکرٹری صنعت و پیداوار حاجی راؤ محمد اجمل خان کا پانے روایتی حریفوں کو منہ توڑ جواب ہے ،کہنے کا مقصد سیاستدانوں اور سیاسی حکومتوں کو کلین چٹ دینا ہرگز نہیں ہے ہاں انہیں شیطان کا انگوٹھا ثابت کرنے کی انسانیت شوز مہم کے غیر اخلاقی فلسفے اور فکر کی سو فیصد مذمت کرنا مقصود ہے،راؤ محمد اجمل خان جیسے محب وطن شخصیات کے کاناموں کی داستانوں پے داستانیں بیان کر سکتا ہوں یہ سب سیاسی جماعتوں کی نرسریوں میں پروان چڑھے اور تما م دھوپ چھاؤں کے باوجود جہاں تک ممکن ہو سکا ملک کو گل و گلزار بناتے رہے ہیں ۔۔۔۔۔
Dr M Abdullah Tabasum
About the Author: Dr M Abdullah Tabasum Read More Articles by Dr M Abdullah Tabasum: 63 Articles with 44356 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.