بھٹو کی میراث کون سنبھالے گا

سندھ میں پلنے والی مہاجروں کی ایک نسل بھٹو دشمنی میں جوان ہوئی۔ ۰۷ کی دہائی کی سندھ میں شہروں میں بسنے والی نسل نے ۲۷۹۱ کے لسانی فسادات دیکھے، کوٹہ سسٹم کا جبر سہا، ملازمتوں میں امتیاز، داخلوں میں ڈومیسائل کی تلوار کے زخم سہے۔ اس نسل کو سیاست دانوں نے خوب بھڑکایا، پیپلز پارٹی کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی سندھی اور مہاجروں میں تفریق کی ایک لکیر کھینچ دی گئی۔ بدقسمتی سے پیپلز پارٹی نے بھی سندھ کے شہری علاقوں سے امتیاز کا رویہ اپنایا۔ جس کے سبب سندھ کے شہری علاقوں کی وہ مخلص قیادت بھی پیپلز پارٹی میں پنپ نہ سکی جو بھٹو کی شیدائی تھی۔ ان دنوں جو مہاجر بھٹو کا دم بھرتے تھے وہ اپنی بستیوں میں اجنبی ہوتے تھے۔ ان کا معاشی بائیکاٹ کیا جاتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود جو بھٹو کا شیدائی تھا۔ وہ اس پر فدا تھا۔ حیدرآباد میں پیپلز پارٹی کی تشکیل ہوئی۔ میر برادران میر رسول بخش تالپور، میر علی احمد تالپور، چوہدری اشرف، الہی بخش قائم خانی، بدیع الحسن زیدی، جیسے سیاست دانوں نے بھٹو کی ہمنوائی کی۔ بھٹو حیدرآباد کئی بار آئے، قاضی اکبر کا ہوٹل اورینٹ اس زمانے میں نیا نیا بنا تھا۔ بھٹو یہاں پر قیام کرتے تھے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت بننے کے بعد، حیدرآباد پولیس لائین میں بھٹو نے جلسہ، وہ ایک شعلہ بیاں مقرر تھے۔ عوام کے دل ان کی مٹھی میں ہوتے تھے۔ وہ جلسوں میں ایسی آتش فشانی کرتے کہ پل میں آگ لگ جاتی۔ حیدرآباد میں انہوں نے کولیوں کے لئے شاندار کواٹر تعمیر کرائے۔ یہ سندھ کے قدیم باشندے جھونپڑیوں میں رہتے تھے۔ خود بھٹو نے آکر انھیں ان کواٹروں کی چابیاں دیں۔ انھوں نے سرکٹ ہاﺅس میں آکر سندھی اور مہاجر طلبہ سے ملاقاتیں کیں۔ وہ طالب علموں کے رہنماﺅ ں سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کیا کرتے تھے۔ سندھ پیپلز اسٹوڈنس فیڈریشن، اور نوپس کو خوب بڑھایا۔ لیکن بدقسمتی سے سندھ کے شہری علاقے بھٹو کے حامی نہ بن سکے۔ مذہبی جماعتوں کے سحر میں مبتلا لوگ بھٹو سے دور ہی رہے۔ ہمارے معاشرے میں افراد سے سیاسی اختلاف اس درجے پر پہنچ جاتا ہے کہ اس میں کسی بھی شخصیت مسخ ہوکر رہ جاتی ہے۔ بھٹو، جی ایم سید، مولانا مودودی، اسی سانحے کا شکار ہوئے۔ بھٹو خاندان نے سیاست میں جو قربانیاں دی ہیں ۔ آج سب اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ سندھ میں رہنے والے اب پیپلز پارٹی کو مہاجر دشمن نہیں گردانتے۔ اس خلیج کو پاٹنے میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے بہت اہم کردار ادا کیا۔

بینظیر بھٹو کی زندگی حادثات، سانحات اور المیوں سے مزین دکھائی دیتی ہے۔ عین عالم عنفوان میں اس خاتون آہن نے اپنے نوجوان باپ کو ایوان اقتدار سے طوق و سلاسل کے سپرد ہوتے دیکھا۔ ااور پھر آسمان نیلی فام نے دیکھا کہ تیسری دنیا میں امید کی کرن دکھانے والے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو ایک مقدمہ میں پھانسی کی سزا دے گئی اور عالم یہ تھا کہ بیوی شوہر اور بیٹی باپ کا آخری دیدار نہ کر سکی بیٹے پہلے ہی ملک سے باہر زبردستی کی جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ بھٹو خاندان پر وطن کی زمین تنگ کر دی اور آخر بینظیر کو بھی وطن کو خیر باد کہنا پڑا ابھی باپ کی موت کے زخم تازہ تھے کہ نوجوان بھائی شاہنواز کے پراسرار قتل کی جڑ نے اس آہنی عزم کی مالک نازک اندام لڑکی کو چلا کر رکھ دیا مکافات عمل نے کام دکھایا 1986 میں بینظیر کا وطن واپسی تاریخی استقبال دیکھ کر آمروں کی رات کی نیند اڑ گئی۔ یہ تاریخ کا جبر تھا کہ ذلت کے ساتھ وطن سے نکالی جانیوالی بینظیر بھٹو آمر کے صرف دو سال بعد ملک کے وزیرا عظم منتخب ہو گئیں ۔ مگر آمر کی باقیات نے بینظیر حکومت کو 18 ماہ تک بھی نہ چلنے دیا۔ مگر فقط تین سال بعد ایک مرتبہ پھر اقتدار کا ہما بینظیر کے کندھے پر آبیٹھا لیکن اس دور میں بینظیر کو تیسرا صدمہ سہنا پڑا جب ان کے دور اقتدار میں ان کے دوسرے بھائی مرتضیٰ پولیس فائرنگ سے ہلاک ہو گئے اور الزام بینظیر بھٹو کے شوہر آصف زرداری پر عائد کیا گیا۔ بینظیر کے دوسرے دور میں بھی محلاتی سازشیں عروج پر رہیں اور 96ﺀ میں انہی کے منتخب کردہ صدر فاروق لغاری نے انکی حکومت کا خاتمہ کر دیا پھر مقدمات کی ایک لمبی فہرست کھولی گئی مقدمات، عدالتیں اور پیشیاں، آخر مقدمات بنانے اور سزائیں دلوانے والوں نے ہی بینظیر کو محفوظ راستہ دیا اور عین ہائیکورٹ سے سزا سنانے سے ایک روز قبل بینظیر کو بیرون ملک فرار کرا دیا گیا اور ان کی یہ خود ساختہ جلا وطنی 18 اکتوبر 2009ﺀ کو امریکی دباﺅ پر پرویز مشرف سے معاہدہ کے بعد ختم ہو گئی۔ 1986ء میں اہل لاہور نے دختر مشرق کا فقید المثال استقبال کر کے تاریخ رقم کی تو 2007ء میں اہل کراچی نے اپنی لیڈر کی راہ میں آنکھیں بچھا دیں۔ شہر قائد نے ایسا استقبال ایسا ہجوم شائد کبھی دیکھا نہ سنا ہو گا۔ مگر عوام اور جمہوریت دشمن قوتوں کو یہ استقبال ایک آنکھ نہ بہایا اور وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ عین اس ٹرک کے سامنے جس میں بینظیر سوار تھیں۔ دھماکہ ہوا اور 200 سے زائد کارکن اپنی لیڈر پر پلک جھپکتے میں فدا ہو گئے۔ لیکن خوش قسمتی سے بینظیر بھٹو بچ گئیں لیکن دشمنوں نے محض دو ماہ نو دن بعد اس خاتون کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں قتل کر ڈالا۔ بے نظیر اور بھٹو کی قربانیوں نے پیپلز پارٹی کو اقتدار بخشا ہے۔ عوام بھٹو کے شیدائی ہیں۔ وہ اب بھی اپنے لیڈر کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ بھٹو خاندان کی نئی نسل جوان ہورہی ہے۔ بھٹو جونیئر، فاطمہ بھٹو، یا بلاول بھٹو زرداری کون ہے جو اپنے دادا، نانا یا پھوپی یا ماں کی اس میراث کو سنبھالے گا۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 391069 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More