جس کی لاٹھی اس کی بھینس !!

کراچی میں بلدیاتی انتخابات کی حدت تا حال بڑھی نہیں ہے۔ کاغذات نامزدگی کے مرحلے کے بعد داخلے ، اٹھنے بٹھانے اور امیدواروں کو کھڑا کرنے کے معاملات چل رہے ہیں 7نومبر تک ابتدائی یہ صورتحال سامنے آچکی ہوگی کہ کون کون سی جماعت کے امیدواران آزاد بلدیاتی امیدواران سے مقابلہ کریں گے۔ لیکن اس بار کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے بجائے سیاسی پنڈتوں کی بڑی قیاس آرائیاں سامنے آرہی ہیں۔تاہم فی الوقت سندھ میں پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج حسب توقع قرار دیئے جار ہے ہیں کیونکہ ابھی تک فیوڈل ازم نے ہماری عوام کو جکڑا ہوا ہے، اس لئے اس جال کو توڑنا آسان نہیں بلکہ ناممکن بنتا جا رہا ہے ۔ دوسرے مرحلے کے انتخابات کے حوالے سے بھی سیاسی پنڈت بھی کسی تبدیلی کے بارے میں خوش کن خبر نہیں دیتے لیکن اتنا ضرور ہے کہ کراچی کے انتخابات پر پورے پاکستان ہی پوری دنیا کی نظریں ہونگی اور کراچی کے70فیصد علاقے کی مینڈیٹ کی دعویدار متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف تمام سیاسی، مذہبی جماعتوں کا اتحاد اور آرا ء خصوصی کہ حالیہ آپریشن کے نتیجے میں متحدہ کی سیاسی طاقت ختم ہوگئی ہے ،کم ازکم مجھے اس حوالے سے شکوک و شہبات ضرور ہیں کہ متحدہ کو کراچی کی سیاسی جماعتیں خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف یا پاکستان مسلم لیگ (ن) کوئی چھوٹا سا بھی جھٹکا دے سکیں گی۔یقینی طور موجودہ آپریشن کے حوالے سے ایک ایسی رائے ضرور قائم ہوئی کہ متحدہ کی سیاسی طاقت کیونکہ عسکریت کے گرد گھومتی ہے اسلئے شائد ان کیلئے ووٹر پر اپنا دباؤ رکھنا آسان نہیں ہوگا ۔ کراچی میں عسکری ونگ تمام سیاسی جماعتوں میں پائے جاتے ہیں اور اس بات سے چاہے کوئی بھی انکار کرلے لیکن یہ سچائی ہے کہ کراچی میں سیاست بھی وہی کرسکتا ہے جو کراچی کی مقامی سیاست کو جانتا ہو اور خود اسی شہر کا مقامی بھی ہو۔

کراچی سمیت پورے پاکستان میں عسکریت پسندی کی پہلی نرسری کلاس مقامی سیاست اپنی شان بان کیلئے اسلحہ بردار گروہ کے ساتھ نکلنے پر شروع کرتا ہے ، جیسا جیسا اس کا سیاسی قد بڑھتا چلا جاتا ہے اس کے لاؤ لشکر میں اسلحہ برادر افراد بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں ۔ ہم تو آئے روز پروکوٹول کے نام پر سرکاری و غیر سرکاری گاڑیوں کی طویل ترین قطاروں کے ساتھ سرکاری اور سیاسی و نیم سیاسی افراد کا جلوس بھی دیکھتے ہیں۔جرائم پیشہ افراد تقریباََ ہر سیاسی جماعت میں موجود ہوتے ہیں اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ کچھ افراد کو کچھ خاص مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور کچھ حلقوں کی مختلف درجات میں درجہ بندی دے دی جاتی ہے ۔ اب تو تحریک طالبان(،ا مارات اسلامیہ) جیسی جماعتوں نے اپنے عسکری کردار کے علاوہ سیاسی ونگ ، اور ذرائع ابلاغ کیلئے خصوصی شعبے قائم کردیئے ہیں اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال دیگر سیاسی جماعتوں سے زیادہ منظم ہوکر کرتے ہیں۔

کراچی میں سیاسی جماعتوں میں موجود جرائم پیشہ عناصر کی صفائی میں متحدہ اور پیپلز پارٹی کو کافی تحفظات پائے جاتے ہیں ، لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کیجانب سے جس طرح آپریشن کیا گیا اس سے کم ازکم اتنا ضرور ہوا ہے کہ کراچی میں خوف کی فضا میں کافی کمی واقع ہوئی ہے کیونکہ ایسی کالعدم تنظیمیں جو نام بدل کر انتخابات میں حصہ لیتی رہی ہیں اس بار انھوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے سامنے آنے کے بجائے بڑی سیاسی جماعتوں میں اپنے نمائندوں کو داخل کرادیئے ہیں تاکہ کسی مناسب وقت پر ان کارڈز سے کھیلا جا سکے۔

اسی طرح ماضی میں کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کو ہر حلقے میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے میں ہمیشہ کامیاب رہی ہے، لیکن اس بار کراچی کے بیشتر حلقوں سے وہ اپنا پینل تو کیا ، ایک کونسلر بھی کھڑا کرنے سے اس لئے کترا رہی ہے کیونکہ عوامی و سیاسی رائے کے مطابق متحدہ کا امیج اس بار کافی چوٹ کھا چکا ہے اور کوئی جماعت ان کے ساتھ سیاسی اتحاد بنانے کی ہمت نہیں جتا پا رہی ۔ متحدہ کم از کم اب یہ نہیں کہہ سکتی کہ کراچی یا پورے سندھ کے ہر حلقے سے ان کی جماعت کا نمائندہ کھڑے ہوئے ۔لیکن ماضی میں متحدہ کے مضبوط گڑھ کہلانے والے علاقے اب بھی متحدہ کی کامیابی کی چابیاں ہیں ، کیونکہ کوئی کچھ بھی کہے انھوں نے اپنے علاقوں میں تمام تر حالات کے باوجود اپنے حلقوں میں سیاسی اثر رسوخ کو قائم رکھا ہے۔ جو یہ سمجھ رہے ہیں کہ آپریشن کے نتائج میں متحدہ کی سیاسی طاقت بھی ختم ہوگئی ہے تو مجھے کہنے دیجئے کہ وہ حقیقت اور اپنی کمزوری کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

متحدہ بلدیاتی انتخابات میں اپنی پرانی پوزیشن کے قریب ترین ، بلکہ ممکن ہے کہ اچھی پوزیشن پر آجائے ، کیونکہ میرے نزدیک اس کی کچھ اہم وجوہات ہیں۔فروعی مفادات کی عوامی نیشنل پارٹی ( شاہی سید گروپ) کے اپنے کاروبار میں دلچسپی اور مقامی قیادت کا علاقے کے کاموں میں توجہ نہ دینا ، ان کیلئے بلدیاتی انتخابات میں مایوس کن نتائجدے سکتا ہے۔ سندھ اور وفاق میں ہونے کے باوجود عوامی نیشنل پارٹی ( شاہی سید گروپ) کراچی میں آج تک ایک بھی ترقیاتی کام نہیں کراسکی تھی بلکہ کراچی کی سیاست کرنے والے شاہی سید کو خیبر پختونخوا سے سینیٹیر بنوانے کے باوجود اے این پی متعدد دھڑوں میں تقسیم ہوکر پختون عوام سے دور ہوگئی۔ بلکہ ان کی توجہ زیادہ سے زیادہ پرمٹ اور ہائیڈرینٹ کے بنانے پر لگی رہی ، حالات سے مایوس کارکنوں نے وہی راستہ اختیار کرنا شروع کیا جس کی وجہ سے متحدہ کو پریشانی کا سامنا ہے۔

چونکہ متحدہ کراچی کی اسٹیک ہولڈر کے شیئرز زیادہ رکھنے کا دعوی کرتی ہے اسلئے ان میں چھانٹی کا عمل ابھی تک جاری ہے جس پر آئے دن متحدہ کے تحفظات سامنے آتے رہے ہیں جبکہ کراچی کے چند علاقوں میں محدود عوامی نیشنل پارٹی ( شاہی سید گروپ)کے وہ کارکنان جیل میں سزا بھگت رہے ہیں جنھوں نے جرائم کا راستہ اختیار کیا تھا ۔کیونکہ ان کاشیئر کراچی میں کم تھا اس لئے آپریشن کے دوسرے مرحلے میں ہی عوامی نیشنل پارٹی ( شاہی سید گروپ) سے بڑی تعداد میں صفائی ہوگئی۔پختون عوام میں ان کی مقبولیت کمی اور پھر ان عوامی نیشنل پارٹی کے چار گروپوں میں تقسیم ہوکرسیاسی طاقت کا منتشر ہوجانا بلدیاتی انتخابات پر اثر انداز ہوگا اور کراچی کے دو ٹاؤن ناظم اور دو وزیربننے والی جماعت کے امیدواران اپنی پارٹی پالیسیوں اور گروپ بندیوں کی وجہ سے پختون عوام کی واحد نمائندگی کا دعوی کھو چکی ہے۔

کراچی کی سیاست میں نواحی علاقوں میں قوم پرستی کی سیاست تک محدود ہونے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی دھڑے بازیوں کا یہ حال ہے کہ کئی عشروں تک سندھ کی حکمران اور وفاق کے تخت پر بیٹھنے والی جماعت کو کراچی کے 70 فیصد زائد علاقوں میں پارٹی امیدوار ہی نہیں مل سکے اور انھوں نے دوسری جماعتوں یا برادریوں کے نمائندوں کے ساتھ اتحاد کرکے پینل تو بنائے خاص طور لیاری ٹاؤن ، گذاپ ٹاؤن اور ضلع ملیر کے قلعوں میں پہلے ہی دراڑ پڑچکی ہے جس کے سبب ان کے رزلٹ کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔یہ ضرور ہوسکتا تھا کہ پی پی پی مضافاتی علاقوں میں توجہ دیتی لیکن ان کی کرپشن کی کہانیاں اب تو اتنی زد عام ہوچکی ہیں کہ اس کیلئے الگ سے کالم لکھنا ہوگا۔

تحریک انصاف کراچی کے پوش علاقوں کے ساتھ ساتھ مضافاتی علاقوں میں کچھ سیاسی جماعتوں کی نا اہلی کا فائدہ ضرور اٹھا سکتیتھی لیکن تحریک انصاف کی سیاست خود عمران خان کو سمجھ میں نہیں آرہی کہ ان کے نزدیک پاکستان کا نام این اے 122ہے یا این اے 122ہی پاکستان تک محدود ہے۔پاکستان مسلم لیگ ن کی گروپ بندیاں مضحکہ خیز ہیں کیونکہ جس طرح بلدیاتی ٹکٹوں پر مسلم لیگی متوالوں اور ان کے رہنماؤں میں آئے روز تماشہ ہوتا ہے اس سے مجھے تو صرف یہ نظر آتا ہے کہ ان کا مقصد عہدے یا ٹکٹ لیکر اپنے گروپ کے ساتھ ، شریف برداران کے نظروں میں سرخرو ہونا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر منور حسن جب تک تھے کراچی میں ان کی سیاست کی گونج رہتی تھی لیکن جماعت اسلامی کی امیری خیبر پختونخوا منتقل ہونے سے ایک تو ان کی توجہ کراچی سے مزید کم ہوئی اور دوسرا سب سے بڑا عنصر کراچی میں لسانی سیاست کا ہے ، جس کے سبب جماعت اسلامی سے بڑی توقعات نہیں رکھ رہا ہوں، جن علاقوں میں جماعت اسلامی کا شور زیادہ ہے یہ وہی علاقے ہیں جہاں کبھی اے این پی آجاتی تو کبھی تحریک انصاف۔ دیگر مذہبی جماعتیں اپنے مستحکم پینل لانے میں مکمل ناکام دکھائی دیتی ہیں ان کی بیشتر توجہ کونسل کی مخصوص نشستوں پر رہی ہے کہ ان کی حمایت کے بدلے خواتین ، لیبر ،نوجوان اور اقلیتی نشست کی بندر بانٹ میں انھیں حصہ دے دیا جائے۔

پاکستان پیپلز پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی، اور جمعیت علما السلام ف کا سہ فریقی اتحاد خیبر پختونخوا میں کامیاب نہیں ہوسکا۔کراچی کی سیاست تو پورے پاکستان سے ہی الگ ہے، یہاں کے رہن سہن اور ثقافت و روایات کے ساتھ سیاست کا انداز بھی جداگانہ ہے۔ یہاں تو اس کا سکہ چلتا ہے جس کا اپنا ٹکسال ہو یا پھر جس کی لاٹھی اس کی بھینس
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 669732 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.