اسلام اور سیاست

اسلام کی آمد پر جو دنیا کے حالات تھے اس نے اسلام کی تعلیمات کیلیے ایک ذرخیز زمین کا کردار ادا کیا۔ اسلام نہ صرف آیا بلکہ بڑی تیزی سے پھیلا بھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے آباد دنیا کا بڑا حصہ اپنے اطاعت میں شامل کر لیا۔ یہ دین حق تھا۔ اسلام نے پہلی دفعہ دنیا میں وہ قانون دیا جو سب انسانوں کیلئے برابر تھا۔ اگر ہم آج بھی مکہ کا سفر کرے تو شائد یہ بات قابل یقین نہ ہو کہ چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھرا یہ شہر دنیا کی تعلیم کا اتنی بڑی جامعہ کیسے بن گیا۔ پہلی دفعہ اس دنیا میں لڑائی دین کی وسعت پر لڑی گی جبکہ اس سے پہلے جب بھی جنگ ہوئی اس میں انسان نے اپنی حاکمیت کو پھیلانے کی وجہ سے کی۔ کہتے ہیں اﷲ تعالی نے ہر چیز جوڑا پیدا کی اسی طرح جب اسلام تیزی سے بڑھا اور پھیلا تو تاریخ یہ بتاتی ہے یا تاریخ کے حوالے سے یہ بات سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اس کی تعلیمات اس تیزی سے نہ پھیلائی گئے یا ان میں مرکزیت نہ تھی جیسے کہ ریاست کی مرکزیت تھی۔ یہ ہی وجہ ہے شاید کہ اسلام کے اتنے فرقے بنتے گئے۔ لوگ توحید کے سرچشمہ کتاب قران الکریم اور سنت نبوی کی ادائیگی کی بجاے ان دونوں کتب کی تشریح کرنے والے استاذہ کی تشریح پر متفق ہونے لگے۔ دوسرا دھچکا اس کو جب لگا جب مطلق العنان حکمرانوں نے اسلام کو طرز حکمرانی بنانے کی بجاے اس کا سیاسی استعمال شروع کر دیا۔ جس کی بڑی مثال ہمیں " اطاعت کرو اﷲ کی اس کے رسول کی اور اپنے امیر" کی صورت میں نظر آتا ہے۔ اس آیت مبارکہ کے پش پوشت حکمرانوں نے اپنی رعایا کی اطاعت کا بہت ناجائز فائدہ اٹھایا۔

اسلامی تعلیمات کے بعد غیر اسلامی معاشرہ کا قائم رہنا بہت مشکل ہو گیا تھا اور وہ دم توڑتا نظر آ رہا تھا۔ جس پر اس معاشرے نے ناخداں نے اپنی بقا کیلئے بہت سی ایسی اصلاحات اختیار کی جو بظاھر تو اسلام کی ہی تھی لیکن ان کا وجود انھوں نے اپنی خواہشات کے تابع کیا تھا۔ ان میں سے ایک اصلاح جمہوریت تھی۔ دنیا نے کروٹ بدلی تو اس کا نظام بھی بدلہ۔ حکمرانی کے افق پر نیا ابھرنے والا ستارہ جمہوریت کے نام سے پکارا جانے لگا۔ اس طرز حکمرانی سے ایک فائدہ دنیا کو یہ ہوا کہ پہلے کسی کو زیر کرنے کیلئے جنگیں کرنی پڑتی جس میں بہت خون خرابہ ہوتا اور پیسہ بھی لگتا لیکن ان نظام حکومت میں دوسروں پر قبضہ کرنے کیلئے اب جنگ کی ضرورت نہ تھی بلکہ دشمن کے معاشرے سے اپنے من پسند آدمی پر رقم کا خرچہ کر دیا جاتا اور اس طرح ملک جیت لیا جاتا ہے۔ قوم کا اتحاد پارہ پارہ ہو گیا۔ وہ قوم جو پہلے اپنے ایک سردار کے پیچھے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہو جاتی تھی اب مختلف ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ کھڑی تو وہ اب بھی اپنے لیڈر کے پیچھے ھوتی ہے لیکن اپنے لیڈر کے دفاع میں جس سے ملک کے اندر انتشار پھیلتا ہے لیکن کسی دشمن کیلئے یہ اتحاد آج تک خطرناک ثابت نہیں ہوا۔

نئے نام سے آنے والے اس نظام جمہوریت نے بھی مذہب کو استعمال کیا اور کچھ نے مذہب کا نام تو نکال دیا لیکن انسانی خواہشات پر مبنی ایک ایجنڈے کے تحت قوم کو غلام کر لیا۔ ان معاشروں میں اب انسان خالق کائنات کا عبد نہیں بلکہ انسان ایجنڈے کا غلام بن کر رہ گیا۔ جن ممالک میں مذھب کا عمل دخل ہے تو وہ بھی براے نام یا پھر صرف اس حد تک کہ اس کے استعمال سے لوگوں کو کنٹرول کیا جائے۔ ہمارے خطے میں اس کی بڑی مثال دو قومی نظریہ ہے جس کے تحت یہاں کے مسلمانوں کو تقسیم کیا گیا۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلام میں دو قومی نظرے کی گنجائش نہیں - اسلام نے تو بنی آدم کا "عبداﷲ" کہہ کر یکجا کر دیا اور ہدایت پانے والوں کو فریضیہ کے طور پر یہ ذمہ داری دی کہ اور اپنے بھائی کی گردن آگ سے بچائیں۔ غیر اسلامی معاشرہ اور طرز عمل مسلمان کی ذمہ داریوں میں اضافہ کرتا ہے نہ کہ کنارہ کشی کا درس دیتا ہے۔ آج اس سیاسی نعرہ کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں ایک طرف تو ہمارے کمزور بھائی مکار اور ہوس اقتدار میں مبتلا آدمی کے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہیں اور دوسری طرف دہشت گردی کے نام پر ہمارے بچوں کو بے دردی سے موت کی گھات اتارا جارہا ہے۔ 1947 میں لگایا جانے والا دو قومی نظریہ اس کی بنیاد بنا۔ اگر یہ نعرہ غیر سیاسی تھا تو پھر یہ 67 میں شرمندہ تعبیر کیوں نہ ہوا- اسلام کا درس لینے والے بچے آج اس کی تلاش میں ہیں اور جہاہل لوگوں کے پھینکے جال کا شکار ہو رہے ہیں۔ پہلے انہیں مقتدر حلقے اپنے مقاصدکیلئے استعمال کرتے رہے اور آج ان کو موت کی گھاٹ اتار کر ہم دنیا سے بہادری کے تمغوں کے طلبگار ہیں۔ ان کو پیدا کس نے کیا، ان کی اب گاری کس نے کی۔ ان کو اسلام کا پروانہ کس نے اور کیوں بنایا؟ 67 سالہ پاکستان کی تاریخ میں ہمیں تو اسلام کے مطلق کوئی مثبت قدم اٹھتا نظر نہیں آیا بلکہ اس کے بر عکس یہ معاشرہ دن بدن بے لگام ہوتا جارہا ھے۔ آج تو یہ بے حیائی سڑکوں اور چوکوں پر رقصہ ہے۔ اگر ہم نے صحیح با عمل اسلام کی بنیاد رکھی ہوتی تو نہ اسلام پسند آج وہ طرز عمل اختیار کرتے جس میں وہ مبتلا ہیں اور پاکستان دنیا میں ایسی لوگوں کی آماجگاہ ہے اور نہ ہمیں اسلام سے باغی اپنے بچوں کی وہ حالت دیکھنی پڑتی جو اب رقص و سرور کی محفلوں میں اور نشوں میں غرق ہیں۔

انسان غلطی کا پتلا ہے لیکن آﷲ تعالی نے ہم پر احسان کیا کہ غلطی اور اس کی سزا کے درمیان ایک وقت ہمیں مہیا کیا ہے کہ ہم اپنی غلطی کو سدھار لے۔ دو قومی نظرے کی بنیاد پر بناے گے اس ملک میں قائداعظم کے نظریے پر ملک چلانے والے اسے نبی آخرالزمان کی تعلیمات پر چلانے کی بات کرے۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں بشرطیکہ نیت صاف ہو۔ ہمیں اس کیلئے کسی کی منظوری کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم نے دنیا کو اپنا نظریہ اس ملک کو بناتے وقت بتا دیا تھا اور اقوام عالم نے اس نئے بننے والے ملک کو تسلیم کر کے اس کے نظریہ کی منظوری پر اپنی مہر رضامندی ثبت کر دی تھی۔ آج ہمیں اپنے طرز فکر پر نظر ثانی کرنی ہو گی۔ اپنی غلطیوں کو سدھارنا ھوگا ورنہ جن حالات میں ہم مبتلا ہیں اور جو علاج کر رہے ہیں اس سے ڈر لگ رہا ہے کہ یہ مرض بڑھتا جاے گا۔
 

Owais Nawaz Rana
About the Author: Owais Nawaz Rana Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.