سسٹم کے خلاف آواز بلند کریں

گزشتہ روز کے کالم پر بعض دوستوں نے کہا کہ ڈاکٹرز تو مافیاز ہوتے لیکن جو دوسرے مافیاز ہے جس میں حکومت خود ملوث ہوتی ہے اس کے بارے میں بھی بات کرنی چاہیے۔ ایک تنقید یہ آئی کہ میں زیادہ تر خیبر پختونخوا میں اداروں ، سسٹم کی خرابی یا حکومت پر تنقید کرتا ہوں۔ سندھ ،پنجاب اور بلوچستان میں کیا ادارے ٹھیک ہے وہاں پر ہسپتالوں ،جعلی ادویات اور ڈاکٹرز مافیاز موجود نہیں ۔ تمام قارئین سے صرف اتنا عرض ہے کہ وہاں ادارے ٹھیک کام نہیں کررہی ہے یا ہسپتالوں اور جعلی ادویات اور ڈاکٹرز مافیاسرگرم نہیں بلکہ وہاں توحالا ت نوریٹرن تک پہنچ چکے ہیں ، خیبر پختون میں تو پھر تھوڑی بہت بہتری ہے ۔ پنڈی اسلام آباد جیسے شہروں میں علاج معالجے یا ہسپتالوں کی پوزیشن پربات کرنا بھی میں وقت کی ضائع سمجھتا ہوں۔ کیوں کہ یہاں حکومت کی ترجیحات میں نہیں کہ ہسپتالوں اسکولوں کو بہتر کیا جائے۔ یہاں پر روایتی پارٹیوں کی حکومت ہے جنہوں نے قسم کھائی ہے کہ ہم نے عوام کو بنیادی سہولت نہیں دینی ہے تو اس پر کیا بات کی جائے ۔میں تبدیلی کے نام پر آنے والی حکومت کی خو بیوں اور حامیوں کا ذ کر کر تا ہوں جن سے بہت بڑی تعداد میں عوام کی امیدیں وابستہ ہے۔باقی پو رے ملک میں انصاف کانظام ختم ہوتاجارہا ہے۔ادارے تباہ ہوچکے ہیں،ہر حکومت کے لیے اہم کام صرف پیسے بنانا ہے۔وہ پیسہ کرپشن سے بنے، کسی کولوٹا جائے،کسی کے مکان،مارکیٹ یا فیکٹری کارخانے پر قبضہ کیا جائے،پیسہ حاصل کرنے کے لیے سرکاری زمین ملے یا کسی غریب کی، اس پر قبضہ کرکے بیج دیا جائے جس میں مافیازکے ساتھ سرکاری آفسران برابر کے شریک ہوتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔سچ تو یہ ہے کہ پیسوں کے لیے ہمارے یہ سیاست دان ، بیوروکریٹ اور سر کاری آفسران لوگوں کو قتل کرنے سے بھی گر یز نہیں کر تے جس کی کئی مثالیں ہمارے ہاں موجود ہے لیکن گزشتہ روز کے واقعے سے ثابت ہو گیا کہ ملک میں سیاسی حکومتیں ناکام ہوچکی ہے ان کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ملک تباہ ہورہا ہے لوگ اس کو بیج رہے ہیں۔20سال پہلے کراچی شہر میں ایک بلڈر نے سرکاری زمین پر قبضہ کر کے مون گارڈن کے نام سے فلیٹ بنائے جس کا آج سرکار کو معلوم ہوا کہ بنے ہوئے فلیٹ مون گارڈن میں زیادہ تر زمین سرکار کی ہے جس میں عدالت نے حکم دیا کہ اس کومکینوں سے خالی کرایا جائے، کراچی پولیس نے پہلی بار تیزی سے ایکشن لیا ، دس ، پندرہ سال سے رہنے والے مکینون کو باہر کیا اور فلیٹ کو تالے لگائے گئے ۔ یہ خبر میڈیا کو آئی میڈیا نے آواز بلند کی ، کیس سند ھ ہائی کورٹ میں کیا جس پر سندھ ہائی کورٹ نے ڈسٹرکٹ کورٹ فیصلے کوکالعدم قرار دیدیا اور مون گارڈن بنانے والے بلڈر کودس کروڑروپے سرکاری خزانے میں جمع کرنے کا حکم دیا۔ مون بلڈر کے مالک اسلام آباد میں روپوش تھا ۔ پولیس نے ان کو پکڑا تو چند گھنٹوں بعد ان کو عدالت سے ضمانت پر رہا کیا گیا۔اس ایک ہفتے میں مون گارڈن کے مکینوں پر کیا گزری اس کو سن کر اور دیکھ کر اﷲ کی پناہ ،کہ ہمیں اس طرح کے مصیبتوں سے بچائیں۔اس سارے واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں مافیاز کتنی طاقتور ہوچکی ہے جو اپنی دھوکہ دہی اور فریب سے لو گوں کی عمر بھر کی کمائی چند گھنٹوں میں چین لیتی ہے ۔ لیکن ان سے بھی بڑھ کر ہمارے کچھ آور مافیاز ملک بھر میں سر گرم ہے جو سفید کپڑوں میں لوگوں کو لوٹ رہے ہیں، قتل و غارت کررہے ہیں ۔ان کو کوئی ڈر خوف نہیں۔ جب جرائم پولیس اور حکومت کی سرپرستی میں ہوتو کس سے شگوہ اور کس سے شکایت کریں۔

ایک ماں کی آہ ! جج صاحب آپ نے بلایا ہے تو میں یہاں آئی ہوں ورنہ میں سپریم کورٹ کبھی نہ آتی۔ ملزمان بہت طاقتور ہے اور میں اکیلی عورت جس کا جوان بیٹا پہلے ہی قتل ہو چکا ہے ۔ میری دو بیٹیاں ہے اور میرے پاس اتنے وسائل نہیں کہ میں اکیلے ان کا مقابلہ کر سکوں۔ میں اپنے بیٹے زین روف کا قتل اﷲ تعالی کی رضا سمجھ کر بھول گئی ہوں۔یہ تھااس عورت کا سپر یم کورٹ آف پاکستان میں 16نومبر کو بیان، جس کے بیٹے کو ایک سابق وزیرصدیق کانجوکے بیٹے نے چندہ ماہ پہلے قتل کر دیا تھااور وہ قاتل پچھلے مہینے گواہوں کے بیان بدلنے کی بدو لت عدالت سے باعزت بری ہوگیا۔ اس سسٹم کے خلاف آواز بلند نہ کرنے والوں کی مائیں ایک نہ ایک دن ایسے ہی اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کو اﷲ کی رضاسمجھ کر بھول جایا کر یں گی۔اب یہ ایک ماں کی فریاد نہیں بلکہ ہر روز ظلم و زیادتی کے شکار ہونے والے بہت سے ماؤں کی آواز ہے جو ہمیں سنائی نہیں دے رہی ہے۔مجھے تو بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں، خاص کر سندھ اور پنجاب میں تو قانون وہ ہے جو پیپلز پارٹی اور ن لیگ چاہے ۔ تقریباً 90فی صد جرائم کے اوپر پردہ پوشی کی جاتی ہے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سندھ میں حکومت کے نیچے تمام جرائم ہوتے ہیں ۔ پو لیس جن کاکام جرائم کو روکنا ہوتاہے جب وہ خود شریک جرم بن جائے تو پھر کیا شکایت ، کونسی ایف آئی آر۔سندھ کے آئی جی جمالی صاحب پر درجن مقامات بنے ہیں ۔ سندھ ہائی کورٹ کے سامنے ان کے اہلکاروں نے میڈیا کے افراد کو تشد د کا نشانہ بنایا ۔ کورٹ نے ان کو قصوروار ٹھہرایا، لیکن چونکہ پیپلز پارٹی کو وہ ایسے ہی کاموں کے لیے ان کی خدمات چاہیے تو وہ ڈٹ کرتمام جرائم کے باوجود آئی جی سندھ ہے جن کو خود جیل میں ہونا چاہیے وہ عوام کو انصاف دے گا؟ سندھ اور پنجاب میں بہت سے ایسے کیسز موجود ہے جس میں مجرموں کوتما م ثبوتوں کے باوجود بری کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر خبریں اور ویڈیو چلتی ہے ۔ مائیں چیخ چیخ کر قاتلوں کوسز ا دینے کی مطالبے کرتی ہے لیکن بعدازاں وہ لوگ باعزت طور پر اپنے اثرو رسوخ کی وجہ سے بری ہو جاتے ہیں۔ پنجاب اور سند ھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوران ظلم وزیادتی پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے کہ مخالفین کو کسے کسے قتل و ظلم وزیادتی کا نشانہ بنایاگیا جس کی مثال پہلے نہیں تھی۔ آخر کون اس ظالم سسٹم کے خلاف آواز بلند کر یں گا ؟جس میں انصاف صرف ظالم اور جرائم پیش طبقے کو ملتا ہے۔ باقی اﷲ کی رضا پر زندگی گزرتے ہیں۔

Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 203894 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More