میں نہیں جانتا ، میں نہیں مانتا

سب سے پہلے ہمیں اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ ہم جمہوریت کہتے کس کو کہتے ہیں ، جمہوریت کا نظام ، جمہوریت کی فتح ، جمہوریت کی مضبوطی سمیت لاتعداد ایسے نعرے ہیں جو ہم سیاست دانوں کے منہ سے سنتے رہتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ پیدائش آدم سے پہلے بھی جمہوریت کا نظام تھا اور اب ایٹمی دور میں بھی جمہورری نظام نافذ ہے۔بلا واسطہ جمہوریت اور بالوسواسطہ جمورہت ، اس کی تعریف کچھ اس طرح کی جاتی ہے کہ بلا واسطہ جمہوریت صرف ایسی جگہ قائم ہوسکتی ہے ، جہاں ریاست کا رقبہ بہت محدود ہو اور ریاست کے عوام یکجا جمع ہوکر غور وفکر کرنا ممکن بنا سکیں ، اسی طرز کی حکومت قدیم یونان کے شہری مملکتوں میں موجود تھی ان دنوں یہ طرز حکومت سویٹیز لینڈ کے چند شہروں اور امریکا میں نیو انگلینڈ کی چند بلدیات تک محدود ہے۔ جبکہ جدید وسیع مملکتوں میں تمام شہریوں کا ایک جگہ جمع ہونا ناممکنات میں سے ہے او ر اظہار رائیکرنا طبعاََ ناممکنات میں ہے ، قانون سازی کیونکہ طویل اور پیچیدہ عمل ہے اس لئے تجارتی اور صنعتی زندگی قانون سازی کی جھگڑوں میں نہیں پڑتی اس لئے اس عمل کو سہل بنانے کیلئے مجلس قانون ساز کا تصور عمل میں لایا گیا ور رائے دہندگان کے لئے فی فرد ایک ووٹ کے نام پر اظہاررائے کا طریقہ وضع کیا گیا جس کے ذریعے نمائندے منتخب کرلئے جاتے ہیں اور یہی نمائندے نظام ریاست کا کام کرتے ہیں ، لیکن عموماََ ایسا ہوتا نہیں ہے کہ عوام ایسے شخص کا درست انتخاب کریں جو قانون سازی کے عمل سے کماحقہ واقف ہو ۔ اس لئے خاس تر ترقی پذیر معاشرے میں زبردستی ، جبر ، طاقت جیسے عمل کے علاوہ دولت کی چاق و چوند سے متاثر کرکے عوام سحر زدہ کردیا جاتا ہے یہیں پر علاقائی ، لسانیت، نسل پرستی ، فرقہ واریت سمیت ووٹ کیلئے کسی بھی عمل کو جائز سمجھ لیا جاتا ہے۔،مغرب کے اس نظام پر بعض حلقے اعتراض بھی کرتے ہیں خاص طورپر علامہ اقبال خود بھی اس قسم کے نظام جمہوریت کو نہیں مانتے تھے کہ جہاں بندے گنے جا تے ہیں لیکن، تولے نہیں جاتے ہوں ، وڈیرانہ ، جاگیردارنہ اور خوانین کے اس نظام میں غریب عوام اپنا حق رائے کا درست استعمال ممکن ہی نہیں بنا سکتی۔نظام ریاست کا احترام جب عوام کے دلوں میں پیدا ہو جب وہ عوام کے لئے کام بھی کریں لیکن یہاں عجیب صورتحال ہے کہ قانون ساز اسمبلی کے لئے منتخب ہونے والے گلیوں کے گٹر ، ندی نالے ، روڈ سٹرکیں بنا نے پر زور دیتے ہیں اگر کسی قانون ساز اسمبلی کی یہی خصویت ہے تو پاکستان سمیت پوری دنیا میں تعمیراتی کمپنیوں کو امور سلطنت دے دینے چاہیں اس پر کمال خوبی یہ ہے کہ مملکت کے وزر اء اور وزیر اعظم یا وزیر اعلی امور مملکت میں ٹرانسپورٹ کے نظام کو زیادہ فوقیت دیتے ہیں ، اگر وزیر اعلی اور وزیر اعظم کو بھی ٹر انسپورٹ کمپنی ہی چلانی تھی تو وزیر ٹرانسپورٹ کا کھاتہ بند کرکے قانون سا ز اسمبلی کو ٹرانسپورٹ کمپنی کا ہیڈ کواٹر بنا کر ٹکٹ اور ٹھیکے دے دینے چاہے تھے ان ایوانوں اور اور ان ایوانوں کے نمائندے منتخب کرانے کیلئے اربوں جھونکنے کی کیا ضرورت تھی۔سب سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ جتنے بھی نمائندے منتخب ہوتے ہیں ان کی95فیصد تعداد کو عوام کی اکثریت مسترد کردیتی ہے ، انھیں جو ووٹ پڑتے ہیں وہ مخالفین کے ووٹ سے کم ہوتے ہیں ، اب یہ جمہوریت کا کونسا اصول ہے کہ جیسے عوام کی اکثریت مسترد کردے وہی وزیر با تبدیر بنا دیا جاتا ہے۔ہم اپنے نظام حکومت کیلئے مغرب کی جانب دیکھتے ہیں اور لبرل ازم اور سیکولر ازم کی اصطلاح استعمال کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے اسلام نے دیگر مذاہب پر کوئی قدغن عاید کر رکھی ہے۔جمہورہت آمریت کی ضد نہیں بلکہ دین اسلام کی ضد ہے ، کیونکہ دین اسلام ایک حکمران کیلئے کچھ قوانین اور اصول وضع کرتا ہے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ﷺ کو دنیا اسلام میں مرکزی حیثیت حاصل تھی آپ ﷺمسلم امہ کے نہ صرف مذہبی پیشوا تھے بلکہ دنیاوی امور میں بھی ان کی رہنمائی فرماتے تھے ، یہاں تک کہ افواج کی سپہ سالاری ، بیت المال کی نگرانی اور نظم و نسق کے جملہ فیصلے بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہدایت اور دین اسلام کے قوانین اور اصولوں و قرآن کے آئین کے تحت کئے جاتے تھے۔

جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے دنیاسے پردہ فرمالیا تو اس مرکزی نظام کو چلانے کیلئے اور ا سلامی مرکزیت کو قائم رکھنے کیلئے مشاورت سے ایک طریقہ کار اختیار کیا گیا جیسے ہم خلافت راشدہ کہتے ہیں ۔ یہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ملوکیت کے فیصلوں کے بجائے مشاورت سے تما م عمل سر انجام دیئے جاتے تھے اور اجتہاد کو استعمال کیا جاتا تھا ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالی عنہ کا انتخاب حضرت عمر رضی اﷲ تعالی کا مختلف تھا، ھضرت عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ کا انتخاب حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالی سے جدگانہ تھا اور حضرت علی رضی اﷲ تعالی کا جب انتخاب عمل میں لایا گیا تو شوری نے جدگانہ طریق وضع کیا ، حضرت حسن رضی اﷲ تعالی عنہ انتخاب بھی اجتہاد پر تھا اس کی سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ یہاں پارٹی بازیاں نہیں تھیں ۔ یہ بھی نہیں کہ سرزمین حجاز کی امور سلطنت محدود تھی بلکہ پوری دنیا مسخر ہور ہی تھی لیکن کسی میں سرتابی کی جرات نہیں تھی نائبین رسول ﷺ نے وقرآن کریم اور اپنی زندگی میں نبی اکرم ﷺ کی سیرت کو دیکھتے ہوئے امور خلافت کو سر انجام دیا ، سپہ سالار بھی رہے عنان حکومت بھی سنبھالی اور مذہبی ترویج کا کام کے ساتھ عوام کا بھی خیال رکھا ، کوئی لاؤ لشکر وزیروں کا نہیں تھا ، اور نہ ہی کسی کا چناؤ مورثی تھا بلکہ اکابر صحابہ کی مشاورت کے بعد انکا انتخاب کیا جاتا ہے۔ خلافت راشدہ کی مدت 30سال رہی لیکن ہم ایسے محدود قرار نہیں دے سکتے کیونکہ تصور اسلام خلافت راشدہ کے بعد ختم نہیں ہوا تھا بلکہ خلافت بنو امیہ ، بنو عباس ، خلافت عباسیہ قائم ہوئیْ عالم اسلام پر تقریبا َ 90سال بنو امیہ ، بنو عباس نے500سال تک قائم رہی ، گو کہ یہاں خلفیہ کا انتخاب مورثی بنیادوں پر ہونے لگا اور تفرقوں نے وحدت اسلامی میں دراڑ ڈالی خاندان بنو عباس کا خاتمہ انہی ریشہ دیوانیوں کی وجہ سے ہلاکو خان کے ہاتھوں ہوا۔ خلافت عثمانیہ 1517ء سے1924ء تک رہنے والی سب سے طاقتور مسلم سلنطت تھی ، ان کے زمانے میں سوائے حسین بن علی جو شریف مکہ اور انگریزوں کے جال میں پھنسے تھے کسی نے خلافت کا دعوی نہیں کیا اور بالاآخر خلافت عثمانیہ کو جمہوریت کی تلوار سے کمال اتا ترک نے 1924 ء میں خاتمہ کردیا ۔ خلفیہ عبدالمجید کو برطرف کردیا گیا اورخلافت کو ختم کرکے ترکی میں یورپی نظا م سیاست سے متاثر ہوکر جمہوری حکومت قائم کردی گئی۔ ویسے تو دنیا اسلام میں اندلس کی خلافت امویہ ، مصر میں خلافت فاطمیہ اور مراکش میں خلافتیں اپنے مخصوص علاقوں میں قائم رہیں۔خلافت عثمانیہ کے بعد یورپ نے جمہوریت کے نام پر مسلم ممالک کے بخرے کردیئے اور مسلم امہ کی طاقت کو جمہوری کے نام پر تقسیم کردیا ، یہیں بھی ان کی سازشیں کامیاب نہیں ہوئیں بلکہ جہاں جہاں نام نہاد جمہوری حکو متیں قائم ہوئیں وہاں اپنا اثر رسوخ قائم کرتے چلے گئے۔بحث کی طوالت سے بچنے کیلئے صرف ان جمہوریت پسندوں سے یہی ایک سوال کرتا چلا جاتا ہوں کہ کہ ووٹ کے نام منتخب کرنے کا نظام صرف یورپ میں تھا ، مسلم امہ ووٹ کے ذریعے نہیں کبھی آتی تھی لیکن سینکڑوں سال سے امور سلطنت چلاتے رہے ، یورپ سرنگوں رہا ، جزیہ دیتا رہا ، زمانہ جاہلیت میں ڈوبا رہا ، مسلم علما ایجادات کرتے رہے یورپ مسلمانوں کی کاوشوں کو چوری کرتے رہے مسلمان کو تفرقوں میں ڈالا گیا آپس میں لڑایا گیا اور ان کے آپس کی نا اتفاقی میں مسلم امہ کو یورپ کا غلام بنانا شروع کردیا ، جمہوریت کا ہی تو نظام تھا کہ ایٹم بم بنا کروڑوں انسانوں پر گرا دیا گیا ، جنگ عظیم اول و دوئم میں کروڑوں انسانوں کو بھینٹ چڑھا دیا گیا ۔یہی جمہوریت کا نظام ہے جس میں چند ممالک کے پاس ویٹو کا اقوام متحدہ اختیار ہے اور مسلم امہ کے خلاف اسرائیل ، بھارت ، ہنود کی سرکشیوں کو ویٹوکردیا جاتا ہے ، تمام دنیا ایک طرف اور ویٹو پاور ایک طرف ہوجاتی ہے یہی جمہوریت کہ اپنے مفادات کیلئے کسی بھی ملک پر حملہ کرکے ایسے تہہ و بالا کردیا جاتا ہے۔ اربوں انسان جمہوریت کے نام پر قربان ہوگئے ، لیکن کیا مسلم حکمرانوں نے کبھی ایسا کیا ، یہ ضرور ہے کہ ان کے آپس کے اختلاف رہے، لڑے بھی ،بغاوتیں بھی ہوئیں لیکن جو جنگ و جدل جمہوریت کے ماننے والوں نے کی، کیا ، وہ درست نظام ہے۔ لیکن جس نظام نے ترقی ، ایجادات اور مرد و عورت و انسانیت کا حترام دیا آج الٹا لبرل اور سیکولرز ایسے ظلم کا نظام کہتے ہیں، ایٹم بم گرانے والوں کو سر پر بٹھاتے ہیں اور جو اسلام کی اساس پر چلنا چاہتے ہیں ایسے مورد اسلام صرف اس لئے ٹھہراتے ہیں کیونکہ مغرب نے اپنے مفادات کیلئے القاعدہ بنائی ، شدت پسند طالبان بنائے ، اب داعش بناڈالی ، مسلم ممالک میں فرقوں کی بنیاد پر خانہ جنگی کرائی ، اسلامو فوبیا کا پروپیگنڈا کیا ، توہین اسلام کی، سب کچھ کیا لیکن لبرل اور سیکولرز کے نزدیک وہ اس لئے درست کیونکہ وہ جمہوریت پسند ہیں۔ اسلام میں حکمران کا معیار متعین ہے کہ وہ دینی پیشوا ہونے کے ساتھ ساتھ دنیاوی امور میں بھی عوام کی رہنمائی فرمائے اس کے علاوہ اپنی افواج کا سپہ سالار بھی ہو ، بیت المال کی نگرانی اور نظم و نسق کے جملہ فیصلے بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہدایت اور دین اسلام کے قوانین اور اصولوں و قرآن کے آئین کے تحت کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ ایسے آپ آمرانہ نظام کہیں لیکن سڑکیں بنانے والا ، ندی نالے ٹرانسپوٹر اور جہلا وزرا ء فوج ظفر رکھنے والا جنھیں خود دوسروں کے اشاروں میں ناچنا پڑتا ہو ، ا یسے نظام کو میں نہیں جانتا میں نہیں مانتا۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 671365 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.