اگلا ہدف!

 الیکشن کمیشن آف پاکستان اصولی طور پر اگلے الیکشن تک فارغ ہی ہے، کوئی ضمنی الیکشن پڑ گیا تو کہا نہیں جاسکتا، تاہم یہ معاملہ بہت ہی جزوی نوعیت کا ہے۔ بلدیاتی الیکشن سے فراغت کے بعد چیف الیکشن کمشنر سردار رضا خان نے کہا ہے کہ اب ہمارا اگلا ہدف 2018ء کے قومی انتخابات ہیں، انہوں نے حالیہ بلدیاتی الیکشن پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے عملے کو بہترین خدمات اور کارکردگی پر مبارکباد دی، انہوں نے کہا کہ بلدیاتی الیکشن سے ہمیں اپنے معاملات کو مزید بہتر کرنے کا موقع مل جائے گا۔ انہوں نے افسران اور پولنگ کے عملہ کے لئے اعزازیہ کا بھی اعلان کیا۔ پورے ملک میں الیکشن کروانا واقعی بہت محنت اور تجربے کا کام ہے، جس میں ووٹرز کی تعداد، ان کا اندراج، پولنگ کا سامان، ووٹرز لسٹیں، عملہ کی تعیناتی سمیت بے شمار انتظامی امور کو مد نظر رکھنا پڑتا ہے۔ بہت بڑے پیمانے پر یہ کام ہونے کی وجہ سے بہت سی خامیاں رہ جاتی ہیں، جنہیں یقینا تجربات سے ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔

گزشتہ قومی انتخابات کے انعقاد کے موقع پر پاکستان کی سیاسی قیادت ملک بھر سے کسی ایسی شخصیت کا انتخاب کرنے میں ناکام ہوگئی تھی، جس کے کاندھے پر الیکشن کمیشن کا بوجھ ڈالا جاسکے، بہت سے لوگوں کے نام لئے گئے، مگر انہوں نے خود ہی یہ ذمہ داری نبھانے سے انکار کردیا۔ آخر مشکلوں سے جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم پر اتفاق کرلیا گیا، تاہم جب الیکشن ہوگئے تو ہارنے والی تمام جماعتوں نے دھاندلی کے الزامات دہرانے شروع کردیئے، جن میں پاکستان تحریک انصاف سرِ فہرست تھی، احتجاج کے طور پر دھرنے بھی ہوئے، عدالتوں کے دروازوں پر دستک بھی ہوئی، مگر کوئی خاص نتیجہ نہ نکلا۔ الیکشن کمیشن کے موجودہ چیف کے بارے میں کسی کو زیادہ اعتراضات نہیں تھے، کچھ ضمنی الیکشن بھی انہی کی قیادت میں ہوئے اور بلدیاتی الیکشن بھی انہوں نے ہی کروائے۔ اگرچہ حکومت اور الیکشن کمیشن نے حالیہ بلدیاتی الیکشن کو شفاف قرار دیا ہے، تاہم ناقدین اور مخالفین نے پھر بھی اعتراضات کرہی دیئے ہیں۔
 
اگلا ہدف موجودہ الیکشن کمیشن کا یقینا اگلے قومی الیکشن ہی ہونا چاہیے، مگر ماضی سے کافی کچھ سیکھنے کی ضرورت بھی بہت ہے۔ گزشتہ قومی انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن نے نادرا کے تعاون سے لاکھوں ووٹرز کو اٹھا کر ان کے آبائی علاقوں میں پہنچا دیا تھا، یعنی جن لوگوں کے شناختی کارڈ پر عارضی پتہ درج تھا، انہیں مستقل ٹھکانے لگا دیا گیا۔ حالانکہ ایک بہت بڑی اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے، جو کاروبار یا ملازمت کے سلسلہ میں مستقل پتہ کو چھوڑ کر عارضی دنیا میں منتقل ہوجاتے ہیں اور زندگی بھر عارضی ٹھکانوں پر ہی گزار دیتے ہیں۔ مگر الیکشن کمیشن نے انہیں آبائی علاقوں میں ووٹ دینے پر مجبور کیا، نتیجہ یہی نکلا کہ وہ لوگ اپنے دور دراز کے آبائی علاقہ نہ گئے اور اپنے حقِ رائے دہی سے محروم رہ گئے۔ الیکشن کمیشن نے اگرچہ ووٹ درج کروانے کے لئے بہت سے اشتہارات وغیرہ بھی دیئے، مگر پھر بھی جن کے ووٹ پہلے درج تھے وہ جگہ تبدیل ہوجانے کی وجہ سے ووٹ نہ ڈال سکے۔ اب حکومت کا فرض ہے کہ وہ نئے الیکشن سے قبل ایک مرتبہ مردم شماری بھی کروا لے، تاکہ آنے والے الیکشن میں نہ مُردے ووٹ ڈالیں اور نہ زندہ اس سے محروم رہیں۔

اگلے ہدف سے قبل الیکشن کمیشن اپنے احکامات پر عمل درآمد کروانے کی منصوبہ بندی بھی مکمل کرلے، کیونکہ ہر الیکشن میں کمیشن کی جانب سے ضابطہ اخلاق جاری کیا جاتا ہے، مگر اس کی دھجیاں سب سے پہلے حکومت، پھر اس کے وزراء اور ممبران اسمبلی اور آخر میں امیدوار اور ان کے نمائندے اڑاتے ہیں۔ اخراجات کا اندازہ ہی لگایا جائے تو کمیشن کی مقرر کردہ حدود سے معاملہ بہت آگے چلا جاتا ہے، لاہور کے حلقہ 122میں کون نہیں جانتا کہ اربوں روپے خرچ ہوئے، اور الیکشن کمیشن والے امیدواروں کے اس جواب سے مطمئن ہوگئے کہ یہ خرچہ ہم نے خود نہیں کیا، ہمارے چاہنے والے یعنی سپورٹرز نے کیا ہے۔ گویا سپورٹرز چاہے جتنا بھی خرچ کرلیں، ان پر کوئی ضابطہ اخلاق لاگو نہیں ہوتا۔ اسی طرح الیکشن والے حلقے میں ترقیاتی کام ہونا، فنڈز کا اعلان ہونا، یا وزراء کا ووٹرز پر اثر انداز ہونا بھی ایک اہم مسئلہ ہے، جس پر کمیشن کو سختی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسی باتیں جب میڈیا پر اٹھائی جاتی ہیں تو بعض وزراء وغیرہ مغلظات کا آزادانہ استعمال بھی کرتے ہیں، اکثر اوقات ان کی توپوں کا رُخ الیکشن کمیشن کی طرف ہی ہوتا ہے۔ رہی بات اعزازیئے کی، واقعی محنت تو بہتر ہے، مگر یہ کلچر غیر مناسب ہے، کیونکہ وہ لوگ اپنی ڈیوٹی پر ہوتے ہیں، اور تنخواہ لیتے ہیں۔ تاہم کہا جاسکتا ہے کہ اگر الیکشن کا تسلسل جاری رہے تو عوام میں بھی آگاہی کی سطح بہتر ہوگی اور انتخابی عمل بھی بہتر طریقے سے انجام پذیر ہوگا۔
 
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 432762 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.