آہ وہ لمحہ ۔۔۔ کربلا کا

کسی نے بھی نہیں سوچا تھا کہ ہمارے ساتھ ایسا ہوگا۔ہر کوئی اپنے زندگی میں خوش وحرم تھا۔ ہر ایک نے اپنی بساط اور سوچ کے مطابق خوابوں کی دنیا سجھائی تھی لیکن کس کومعلوم تھا کہ یہ خواب ، خواب ہی رہیں گے بلکہ دوسروں کے لیے ان کی زندگی خواب بن جائیں گے ۔ یہ خوشحال زندگی چند لمحوں میں پورے ملک کو تبدیل کر دیں گی جس کا فیصلہ لکھا جاچکا تھا لیکن کسی نے بھی دھیان نہیں دیا تھا کہ اچانگ گو لیا ں چلنی شروع ہوئی ، ہر طرف افراتفری کا عالم تھا ، کسی کو بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں، کہا ں چھپے، کہاں جائے، ایک ہال سے اﷲ ہو اکبر کی آوازیں آرہی تھی ، کسی نے سوچا کہ یہاں پناہ مل جائے گی تووہ اس بد قسمت ہال کے اندر چلا گیا جس میں پہلے سے کئی بچے موجود تھے جس کو اﷲ ہواکبر کے نعرے پر گولیوں سے چھلنی کیا جارہا تھا۔ یہ لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہہ رہے تھے کہ ہم مسلمان ہے اور ہم اسلام کی لڑائی لڑ رہے ہیں ۔ اسلام کی سربلندی کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان بچوں کو گولیوں سے چھلنی کر یں اور ان کو زندہ جلائیں۔معصوم ، بے گناہ اورپھول جیسے بچوں کو ایک ایک کرکے مارتے رہیں اور قربانی دیتے رہیں ۔ان درنددوں اور سفاک لوگوں کو ذرہ بھر بھی ترس نہ آیا کہ ہم ان بے چاروں اور معصوموں کو کیوں قتل کررہے ہیں۔ہر طرف آہ وبقاسے بھی ان پر کچھ اثرنہ ہوا ۔

جہاں انسانیت بھی شرما جائے وہاں یہ درندے اسلام جیسے امن و محبت کے دین کو بدنام کرنے کے لئے جہاد جیسے مقدس لفظ اور پورے انسانیت کے لیے آنے والے دین اسلام کی لڑائی سے تعبیر کرتے ہیں۔ سانحہ پشاور نے پورے ملک کی سیاست ،روایت،مذہبی سوچ،انسانیت سے محبت اور درندگی سے نفرت سمیت بہت سے پہلوؤں پراثر کیا۔اس ظلم وزیادتی کی داستان جو شاید کربلا میں بھی نہ ہوپائی ہو،بچوں کی شہادت نے ہمیشہ کے لیے امر کردیااوراس بات پر مہر لگا دی کہ کچھ ایسے ہی مسلمان ہونگے جو کر بلا میں خون بہہ رہے تھے۔ ہمارے بعض نادان دوست اور بھائی اس کو اب تک غیر مسلمانوں کی کارروائی سمجھ رہے ہیں اور اس کو ان دہشت گرد گروپوں کی کار استانی نہیں کہتے جو اسلام کے نام پر ملک بھر میں خود کش حملے اور بم دھماکے کر تے ہیں جنہوں نے سوات کو خون میں رنگ دیا تھا اور قبائلی علاقوں میں اپنی ریاست بنائی تھی جنہوں نے ہزاروں بے گناہوں کا خون چوسا، جنہوں نے سانحہ پشاور آرمی پبلک سکول میں معصوم بچوں کی قتل عام کو جنگ کا حصہ قرار دے کر اقرار کیا کہ یہ ظلم ہمارے کارندوں نے کیا ہے۔ ان ظالموں نے اپنی جاری کردہ ویڈیو میں یہ بھی کہہ ہے کہ ہم آئندہ بھی ایسی کارروائیاں کرتے رہیں گے۔

سانحہ پشاور میں بچوں کی شہادت نے تاریخ تو رقم کر دی اور اپنے خون سے ہمارے سوئے ہوئے حکمرانوں اور سربراہان کو پیغام دے دیا کہ اب بھی وقت ہے جگ جائے ایسا نہ ہو کہ آج جو آہ وہ بقا ہمارے والدین ، بہن بھائی کر رہے ہیں ۔کل آپ بھی ایسی ہی آہ و بقامیں رہے یا یہ وقت بھی نہ ملے۔ سانحہ پشاور میں ہر بچے اور گھر کی اپنی الگ ہی کہانی ہے ۔ کسی کا ایک بھائی تھا جو ان سے جدا ہو ا تو کسی کا ایک ہی بیٹا تھا جن کے لیے وہ دن رات خواب دیکھ رہے تھے ، کسی کو اپنی محبت اور پیار رولا رہی ہے تو کوئی خوابوں میں اپنے ماں باپ سے پوچھتا ہے کہ میرا قصور کیا تھا جو مجھے خون میں نہلایا گیا۔ کوئی سوال کر تا ہے کہ کیا ہمارے خون سے اس چمن میں اب پھول کھل جائیں گے؟ کیا ان درندوں کو پھر سے ایسا موقع تو نہیں ملے گا کہ وہ مزید ایک سو پچاس بچوں کا خون پیئے اور بہت سے ماں باپ کو عمر بھر کے لیے غمگین اور آفسردہ چھوڑیں۔یہ وہ سوالات ہے جو سانحہ پشاور کے آرمی پبلک سکول میں شہید ہونے والے بچوں کے روح اور ان کے والدین ملک کے پالیسی ساز ایوانوں میں بیٹھے ہوئے ہر ایک نگھبان سے کر رہا ہے کہ آئندہ تو ایسا نہیں ہوگا ۔ کیا آپ نے ان کے خلاف کوئی ایسی منصوبہ بندی یا پالیسی بنا دی جس کی وجہ سے جنگل کے درندے دوبارہ شہر کی طرف نہ آئیں ۔ آج پوری قوم کے زبان پر ایک ہی سوال ہے کہ سانحہ پشاور سے ہم نے کیا سیکھا ،کیا ان معصوم بچوں کاخون بھی ان پچاس ہزار افراد کی طرح ضائع ہوجائے گا؟ جو اس جنگ میں شہید ہو چکے ہیں۔کیا صرف ان معصوم اور بے گناہوں کی برسی منانے سے ہماری ذمہ داری پو ری ہوجائے گی یا ان کا خون ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم ان سفاک درندوں کے خلاف ایسی حکمت عملی بنا دیں تاکہ کل کسی کو یہ موقع دوبارہ نہ ملے کہ وہ ظلم و زیادتی کی ایک آور تاریخ رقم کر دیں۔

میں یہ ہر گز نہیں کہتا کہ ہمیں 16دسمبر کا سانحہ پشاور نہیں منانا چاہیے بلکہ ہمیں اس دن کو منانا بھی چاہیے اور دنیا پر واضح بھی کرنا چاہیے کہ ہم پرامن قوم ہے اور اسلام میں دہشت گردی ، شدت پسندی کی کوئی گنجائش نہیں ، اسلام امن و محبت کا درس دیتا ہے اور یہ دنیا اﷲ تعالیٰ نے محبت کے لیے بنائی ہے۔ہم سب کو مل کر انسانیت کے دشمنوں کے خلاف ہو نا چاہیے ، جہاں بھی انسانیت پر ظلم و زیادتی ہو رہی ہو اپنی آواز بلند کرنی چاہیے لیکن ساتھ میں یہ سوال بھی کرنا چاہیے کہ ایک سال گزرنے کے باوجود ہم نے ان سفاکوں کے خلاف کیا اقدامات اٹھا ئیں اور اب تک ہماری ان اقدامات اور پالیسیوں سے ان دہشت گردوں اور شدت پسندوں کو شکست ہوئی ہے ۔ کیا پوری حکومت مشینری ان کے خلاف یک آواز ہے۔ حکومت اور سکیورٹی ادارے ایک پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ کیا ہمارے یہ اقدامات کافی ہے یا مزید ایسے اقدامات اٹھانے چاہیے جن سے ان درندوں کا خاتمہ ممکن ہو جائے یا ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم ہمیشہ آہ و بقامیں زندگی گزریں گے اور ایسے ہی کر بلا کے واقعات رونماہوتے رہیں گے اور ہم اس کو اﷲ کی رضا سمجھ کر اور معصوموں کی شہادت کہہ کر تقریبات منعقد کرتے رہیں گے۔
Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 203905 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More