کسان کا المیہ

وہ روزانہ چھ روٹیاں بناتی، پانچ بچوں اور ایک اپنے لئے۔ مگر آج اس نے پانچ بچوں کیلئے تو حسبِ معمول ایک, ایک روٹی لگائی، لیکن اپنے حصے کی چھٹی روٹی نہ لگائی۔ بچوں نے دیکھا کہ آج ماں نے اپنے لئے روٹی نہیں لگائی، تو انہوں نے ماں سے استفسار کیا کہ آپ نے اپنی روٹی کیوں نہیں لگائی؟

ماں نے جواب دیا: بیٹا آئندہ ہم صرف پانچ روٹیاں بنایا کریں گے اور میں اپنے حصے کی روٹی نہیں بناؤں گی، تاکہ کچھ بچت ہو سکے۔ یہ سن کر بچوں نے کہا: نہیں امی اس طرح آپ بھوکی کیسے رہ پائیں گی؟

ماں بولی: ٹھیک ہے، پھر روٹیاں تو ہم پانچ ہی بنائیں گے، ہاں البتہ میں تم لوگوں سے آدھی, آدھی روٹی لے کر گزارا کر لیا کروں گی۔
اس پر ایک بچے نے کیا خوب کہی:

ویکھو لوکو ہُنڑ ماں ساڈی بچتاں نوں آئی
سانڑوں دیوے ادھی ادھی، آپ کھاؤے ڈھائی!
(دیکھو لوگو! اب ہماری ماں کو بچت کی سوجھی ہے، ہمیں تو آدھی، آدھی روٹی دیتی ہے لیکن خود ڈھائی روٹیاں کھاتی ہے)

کس پر بھروسا کرے کوئی۔ ماں جو اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کا بھرتی ہے، اگر وہی بچت کے نام پر بچوں کا نوالہ چھین لے تو شکایت کس سے کیجئے گا؟

ریاست بھی تو ماں ہی ہوتی ہے نا! جب ریاستی جبر ہی نوالہ چھیننے پر کمر بستہ ہو جائے، تو پرسان حال کون اور کیوں کر ہوگا؟

اتنا برا وقت کاشتکاروں پر شاید ہی کبھی آیا ہو، جس کا اب بیتے دو سالوں سے انہیں سامنا ہے۔
کیا ہی عجب دکھڑا ہے، میرے دیس کے دہقان کا

کڑکتی دوپہر میں دھرتی کا سینہ چیر کر اور سیاہ رات کی تاریکیوں میں سانپوں کے سر پاؤں تلے روند کر وہ غلہ تو اب بھی اگاتا ہے لیکن اس کے اپنے اگائے گئے خوشہ گندم سے وہ نوالہ اسے میسر نہیں، جو اس کے اور اس کے بچوں کے پیٹ کی آگ کیلئے "بردا و سلاما" کا پیام لائے۔ اس کا خود کاشتہ دانہ گندم تو فقط امیرانِ شہر کے "خمارِ گندم" کی تسکین کا سامان ٹھہرا۔ جب فصل کی کاشت پر اٹھنے والے اخراجات فصل کی آمدن سے دوگنا ہوں، تو کسان اپنی ھی کاشت سے "نانِ جویں" کے ایک "لقمہ غیر تر" کی حسرتِ ناتمام کا زھر پینے پر مجبور نہ ہو تو کیا ہو۔۔۔۔

میری بات میں مبالغہ نظر آئے، تو رواں سیزن کی دھان (چاول) کی فصل کی کاشت پر اٹھنے والے اخراجات کسی کسان کی زبانی معلوم کیجئے گا اور پھر مارکیٹ میں فصل کا ریٹ بھی۔ 2012 میں دھان (باسمتی) کا ریٹ 2800روپے فی من کے قریب قریب رہا۔ 2013 میں 2000 ۔ 2014 میں 1700 اور امسال جب تک فصل کسان سے خرید نہیں لی گئی تب تک ریٹ ایک ہزار روپے فی من رہا۔ جبکہ امسال اس کی کاشت کی فی من لاگت 1700روپے تھی۔

مکئی اور کپاس کی فصلوں سے لے کر آلو، گنے اور کنو تک تقریباً تمام فصلوں کے "فلاحین" کے حالات دگرگوں ہیں۔ 2013 میں کپاس (پھٹی) کا ریٹ چار ہزار روپے کے لگ بھگ، 2014 تین ہزار اور امسال 2000 ہزار روپے فی من کے قریب فروخت ہوئی، جبکہ کپاس کی فی من پیداواری لاگت 2980 روپے رہی۔

گزشتہ سیزن میں آلو کی 140کلو کی بوری ڈیڑھ سو سے ڈھائی سو روپے میں فروخت ہوتی رہی اور حکمران اس پر احسان جلاتے ہوئے اعلان کرتے پائے گئے کہ ہم نے آلو اس قدر سستا کر دیا۔ مگر یہ نہ سوچا کہ کسانوں پر کیا بیتے گی؟پھر ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ وہی آلو عوام الناس کو بیس روپے فی کلو کے حساب سے ملتا رہا، جسے کسان سے دو روپے فی کلو میں بھی کوئی خریدنے کو تیار نہ تھا۔

ہمیشہ ہی کسان سے زیادہ منافع بیوپاری نے کمایا۔ مگر حکومت کبھی ٹس سے مس نہ ہوی۔

جن کسانوں کے در سے دوسروں کی ضرورتیں پوری ہوتیں کہ دیہی زندگی میں آج بھی دکھ سکھ ساجھے ہوتے ہیں، آج وہ خود اپنی ضروریات کیلئے زرعی اراضی بیچ رہے ہیں۔ وہ اراضی جس کے متعلق وہ بچوں کویہ "موروثی" نصیحت کرتے چلے آ رہے ہیں کہ بیٹا زمین کبھی نہیں بیچنا کہ دھرتی ماں ہوتی ہے اور ماں کو بیچا نہیں کرتے۔

کسانوں کا اپنے مزاج کی طرح کتنا سیدھا اور سادہ سا مطالبہ تھا کہ فصلوں کی امدادی قیمتیں مقرر کر کے انہیں حکومتی سطح پر خریدنے اور فصلوں کی کاشت پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی کی کوئی صورت نکالی جائے لیکن آسان سے آسان تر معاملات کو بھی قانونی موشگافیوں میں الجھانے کے "ماہرین" نے اس قدر "شاندار" ریلیف پیکیج دیا کہ جس میں سب کچھ ہے، کسانوں کے مسائل کے حل کے سوا۔ فی ایکڑ چالیس ہزار روپے نقصان کا ٹیکا لگا کر پانچ ہزار روپے کے "فقیری" مرہم سے اس "دردِ دل" کا علاج؟ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ھو؟
محمد حسین کھرل
About the Author: محمد حسین کھرل Read More Articles by محمد حسین کھرل: 19 Articles with 14912 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.