2015میں سیاسی جماعتوں کا کردار

 وقت کی یہ خوبی ہے کہ اچھا ہو یا برا ،گذر ہی جاتا ہے اسی طرح 2015کا سورج کچھ اچھی اور کچھ بری یادوں کے ساتھ غروب ہوا اور 2016کا سورج اچھی امیدوں کے سہانے خواب لیے طلوع ہوا۔سال کے اختتام پر 365دن و رات کا احتساب کرنا یقینا ایک فن ہے کیونکہ یہ ہمیں اگلے سال کو کامیاب بنانے کے لیے بہتر منصوبہ بندی کرنے میں مدد گار ثابت ہوتاہے ،نیز یہ ہمیں غلطیوں سے سبق سیکھنے میں مدد دینے کے ساتھ انہیں دوبارہ نہ دھرانے کا عزم کرواتا ہے،اگر ایسا نہ کیا جائے تو کسی بھی قوم کے لیے کامیابی و کامرانی محض خواب بن جاتی ہے۔

سیاست کے میدان میں اگر پاکستان کے شب و روز کا جائزہ لیا جائے تو روز اول کی طرح آج بھی عوام سیاسی جماعتوں کے حوالے سے کنفیوژن کا شکار ہے۔یہی وجہ ہے کہ سال 2015میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں کوئی بھی ایک سیاسی جماعت تمام صوبوں میں نہیں جیتی،ہر صوبہ میں موروثی سیاست کا ہی رواج رہا۔پاکستان کی روز اول ہی سے بد نصیبی یہی رہی کہ اسے آج تک کوئی ایسا حکمران نہیں ملا جو اس کی عوام کے نصیب روشن کرے،ہر حکمران بر سر اقتدار میں آنے کے بعد صرف اپنا اور اپنی اگلی نسلوں کو سنوارنے کا مشن رکھتا ہے،ایک حکمران جب بر سر اقتدار آتا ہے تو اس کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں ایک یہ کہ وہ عوام کے بارے میں سوچیں اور ان کا پیٹ بھرے،دوسرا آپشن یہ کہ اپنا پیٹ بھرے،اب یہ حکمران پر ہے کہ وہ دونوں میں سے کون سا راستہ اختیار کرتے ہیں،وہ حکمران جو اپنی بجائے عوام کا سوچ لیں تو اس قوم کی تقدیر روشن ستاروں کی طرح چمکنے لگتی ہے اور اگر وہ اپنا ہی سوچیں تو پھر ان عوام کا حال وہ ہی ہوتا ہے جو آج پاکستانی قوم کا ہے۔حکمران اور سیاسی جماعتوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور پاکستان ایک کثیر سیاسی جماعتیں رکھنے والا ملک ہے یہاں ہر سیاسی جماعت کو ایک دوسرے سے مل کر کام کرناہوتاہے ایک وہ بھی وقت تھا جب ’’پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی، لیکن اب وقت یکسر بدل چکا ہے اب یہ بھی دوسری بڑی سیاسی جماعتوں کی طرح کئی دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے اس وقت کوئی بھی سیاسی جماعت ایسی نہیں ہے جو اکیلے ہی حکومت سازی کر سکے بلکہ صرف مخلوط حکومت ہی ممکن ہے۔

پاکستانی سیاست کاغیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے توآج پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ نواز ہے یہاں "ن" سے مراد جماعت کے سربراہ نواز شریف ہے اور سال 2014ء میں (ن) لیگ کی حکومت کی کارکردگی کو سامنے رکھتے ہوئے سروے کیا گیا جس کے نتیجے میں (ن)لیگ دوسری سیاسی جماعتوں میں بہتر تھی اور 2015میں بھی تمام مسائل کے باوجود (ن ) لیگ ہی تمام سیاسی جماعتوں سے بہتر رہی۔اسی طرح سال 2014میں کئے گئے سروے کے دوران قومی رہنماؤں نواز شریف ، عمران خان ، آصف زرداری اور الطاف حسین کے بارے میں پوچھا گیا کہ کارکردگی کے لحاظ سے ان میں سے کون زیادہ بہتر ہے؟تو وزیراعظم نواز شریف کو 45 فیصد نے کارکردگی کے لحاظ سے ان کے حق میں اور 27فیصد نے ان کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کیا جبکہ 28 فیصد نے یا تو جواب نہیں دیا یا ملا جلا جواب دیا،اسی طرح سال 2015میں بھی نواز شریف ہی تمام قومی رہنماؤں میں بہتر رہے۔اسی طرح عمران خان کی مقبولیت دوسرے نمبر پر تھی جو سال 2015میں بھی قائم رہی۔ عمران خان کے بارے میں 33فیصد نے ان کے خلاف ، 28 فیصد نے ان کے حق میں اور 39 فیصد نے یا تو جواب نہیں یا ملا جلا جواب دیا۔اسی طرح سے پیپلزپارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری کے بارے میں 52فیصد نے ان کے خلاف ،24 فیصد نے ان کے حق میں اور 24 فیصد نے یا تو جواب نہیں دیا یا ملا جلا جواب دیااور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے بارے میں58 فیصد نے ان کے خلاف ، 19 فیصد نے ان کے حق میں اور 23 فیصد نے یا تو جواب نہیں دیا یا ملا جلا جواب دیا،اسی طرح 2015میں بھی یہ سیاسی شخصیات وہیں ہیں جہاں 2014میں تھی لوگوں کی سوچ میں تھوڑی بہت کمی بیشی کے علاوہ کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی،الطاف حسین کو 2015میں زیادہ منفی حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کا واضح ثبوت بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے لگایا جا سکتا ہے اسی وجہ سے سال 2015بھی اہم سیاسی جماعت کا اعزاز(ن) لیگ کے لیے برقرار ہا،ن لیگ کا شمار پاکستان کی ایک سابق سیاسی جماعت میں ہوتا ہے جو قیام پاکستان کے بعد 1962ء میں ٹوٹنے والی مسلم لیگ کے بطن سے پیدا ہوئی۔ اس وقت سے مسلم لیگ مختلف حصوں میں تقسیم در تقسیم ہوتی چلی گئی اور آج بھی مختلف مسلم لیگیں موجود ہیں جن میں سے چند معروف جماعتیں درج ذیل ہیں’’:پاکستان مسلم لیگ ن یا نواز شریف‘‘ موجودہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کی زیر قیادت یہ جماعت 1988ء میں اپنے قیام سے ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کرتی چلی آ رہی ہے اسے دیگر مسلم لیگ سے ممتاز کرنے کے لیے پاکستان مسلم لیگ ن کہا جاتا ہے۔ اس جماعت کو 1988ء میں فوجی آمر محمد ضیاء الحق کی موت کے بعد محمد خان جونیجو کی پاکستان مسلم لیگ سے علیحدہ ہونے والے فدا محمد خان نے تشکیل دیا۔سال 2014اور سال2015میں نواز شریف اور ان کی جماعت کی مقبولیت کو کم کرنے کے لیے’’پاکستان تحریک انصاف‘‘اور اس کے رہنما’’عمران خان‘‘ کے تبدیلی کے نعروں نے چیلنج کیا اور امید کی جا رہی تھی کہ2015کے بلدیاتی انتخابات میں ن لیگ کو بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑے گا مگر ن لیگ کامیابی سے ہمکنار رہی،اور پنجاب میں ن لیگ اول نمبر پر رہی اور تحریک انصاف نے دوسرا نمبر لیااور سند ھ میں پیپلز پارٹی ہی سب سے آگے رہی۔بے نظیر کی شہادت کے بعد اگرچہ اس کے پنجاب میں ووٹر اور مقبولیت کم ہوگئی ہے مگر سندھ میں ابھی بھی پیپلز پارٹی پوری آب وتاب سے سب سے بہتر ہے ۔’’پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی یہ پارٹی 1970 کے انتخابات میں مغربی پاکستان میں واضح اکثریت سے جیتی۔فوج نے جب اکثریتی پارٹی عوامی لیگ کو اقتدار دینے سے انکار کر دیا تو اسکا نتیجہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی شکل میں نکلا۔ اس مشکل صورت حال میں پیپلز پارٹی نے ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں ملک کی باگ دوڑ سنبھالی۔تمام تر ریاستی بندوبست کے باوجود پیپلز پارٹی کو ختم نہیں کیا جاسکا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد اس کی قیادت عملا آصف علی زرداری بعدبلاول بھٹوکے ہاتھ میں ہے۔ماضی میں پیپلز پارٹی نے تاریخ ساز کامیابیاں حاصل کیں جس کی بنا پر آج بھی یہ پارٹی عوام میں مقبول ترین ہے جماعت کو موروثی جائیداد کے طور پر چلایا جاتا ہے اور جماعت کے اندر انتخابات سے رہنما چننے کا جمہوری طریقہ نہیں اپنایا جا تا،یہ روایتی و خاندانی سیاست صرف پیپلز پارٹی میں ہی نہیں ہے بلکہ باقی پارٹیاں بھی اسی صف میں کھڑی دکھائی دیتی ہیں اور بلدیاتی انتخابات اس کی واضح مثال ہیں حالانکہ بلاول بھٹو زرداری نے بلدیاتی انتخابات کے شروع ہونے سے پہلے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ بلدیاتی انتخابات میں روایتی سیاست کا خاتمہ کیا جائے گامگر ایسا نہ ہوا۔2015میں جو جماعت دوسرے نمبر پر آئی وہ ہے ’’پاکستان تحریک انصاف‘‘اس جماعت کے سربراہ مشہور سابق کرکٹر عمران خان ہیں دیا اور ان کی جماعت کا نعرہ ’’انصاف، انسانیت اور باعث فخر‘‘ہے۔2015 کے بلدیاتی انتخابات میں پنجاب میں تحریک انصاف دوسرے اور سند ھ میں تیسرے نمبر پر رہی۔جماعت اسلامی، پاکستان کی بہترین منظم سیاسی جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کی واحد سیاسی و مذہبی جماعت ہے جو اپنے اندر مضبوط جمہوری روایات رکھتی ہے پاکستان کی دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے برعکس جماعت میں موروَثی، شخصی، خاندانی یا گروہی سیاست کی کوئی مثال نہیں ملتی اور جماعت اپنے اندر نظم و ضبط، کارکنوں کے اخلاص، جمہوری اقدار اور بدعنوانی سے پاک ہونے کی شہرت رکھنے کے باعث دیگر جماعتوں سے ممتاز گردانی جاتی ہے اگرچہ سال 2015کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی نے اہم کردار ادا کیا مگریہ جماعت کوئی واضح کامیابی نہ حاصل کر پائی ۔جبکہ جماعت اسلامی روز اول ہی سے ملک کے لیے منفرد اور نمایاں کام کر رہی ہے ۔اسی طرح ایک اور جماعت جو اپنی تمام غنڈہ گردیوں کے باوجود 2015کے بلدیاتی انتخابات میں کراچی میں تمام جماعتوں میں اول نمبر پر رہی وہ ہے متحدہ قومی موومنٹ یا ایم کیو ایم ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ یا متحدہ قومی تحریک کی بنیاد 1978ء میں ایک لسانی تنظیم کے طور پر رکھی گئی۔ اس تنظیم کے بانی الطاف حسین ہیں۔ابتدائی دور میں ایم کیو ایم سے مراد "مہاجر قومی موومنٹ" تھا۔ 1997ء میں اس جماعت نے خود کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے اپنا نام سرکاری طور پر مہاجر قومی موومنٹ سے بدل کر متحدہ قومی موومنٹ رکھ لیا اور اپنے دروازے دوسری زبانیں بولنے والوں کے لیے بھی کھول دئیے۔تشدد اور اس جماعت کا شروع سے ساتھ رہا ہے۔2015الطاف حسین کے لیے نہایت نا مناسب ثابت ہوا ،مگر پھر بھی اس جماعت کراچی میں واضح کامیابی حاصل کی۔ 2015کے پہلے دن سے آخر تک عوام مہنگائی ،بے روزگاری،بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ ،بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی جیسے مسائل سے دوچار رہی مگرحکمرانوں نے عوام کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے کوئی خاص لائحہ عمل اختیار نہ کیا،2016میں معمول کے مطابق عوام اپنے حکمرانوں سے بہتری کی امید کر رہی ہیں ،حکمرانوں سے اپیل ہے کہ وہ عوام الناس کی بہتری کے لیے ٹھوس اقدامات اپنائیں۔

2015کا ہیرو۔۔۔جنرل راحیل شریف
پاکستانی سیاست میں پاک فوج ہمیشہ سے بڑی اہمیت کی حامل رہی ہے ، فیلڈ مارشل محمد ایوب خان سے شروع ہونے والی فوجی مداخلت پہلے دن کی طرح جاری ہے لیکن اگر ہم سب سپہ سالاروں کے اقدامات کا جائزہ لیں تو ان میں راحیل شریف بالکل الگ نظر آتے ہیں۔ ان کا عزم اور ان کا ویژن بالکل مختلف ہے۔وہ کرپشن کا خا تمہ اور دہشت گردی کا قلع قمع چاہتے ہیں۔ضربِ عضب نے جس طرح دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپیس نہیں ہے۔ کراچی جیسے شہر کو امن کا گہوارہ بنانا ایک نا ممکن ہدف تھا جسے انھوں نے اپنے عزمِ مصمم سے سچ ثابت کر دکھایا ہے۔ایک پیشہ ور فوجی کی حیثیت سے حکمرانوں کو چیلنج کرنا اور ان کے ہاتھ کو روکنا ناممکن لگتا تھا لیکن سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے کہ آج دہشت گرد،بھتہ خور اور ٹارگٹ کلر اپنی جان بچا تے پھر رہے ہیں اور کچھ تو خو ف کے مارے ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔اپنے آپ کو بچانے کیلئے ان کے پاس یہی ایک آپشن بچا تھا کہ وہ ملک سے فرار ہو جائیں وگرنہ ان کی گردن میں رسہ پڑ جانا تھا۔پوی قوم جس طرح راحیل شریف کے ساتھ کھڑی ہے وہ بھی مثالی ہے،اور پوری قوم ان کو اپنا حقیقی ہیرو مانتی ہے ۔
Ishrat Javed
About the Author: Ishrat Javed Read More Articles by Ishrat Javed: 70 Articles with 84397 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.