دیوانے کی بڑ یا سہانہ سپنا ۔ چائنا پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ۔

ملک کے طول و عرض میں آج کل چائنا پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر چرچا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس اہم قومی نوعیت کے منصوبے پر گہرے غور و خوض کے بعد دوراندیش فیصلہ کیا جائے تاکہ پاکستان عالمی افق پر ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر اپنا نام بلند کرسکتے

آج پاکستان میں سی پیک یعنی چین پاکستان اکنامک کوریڈور نامی منصوبے کا بڑا شوروغوغا ہے، ہر چینل اور اخبار میں اس منصوبے کے متعلق بلند و بالا دعوے کئے جارہے ہیں ، جس کو جتنا معلوم ہے وہ اس میں اضافہ کرکے اس منصوبے کو پاکستان کی بقاء و سلامتی کی کنجی ثابت کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔ بے شک اقوام عالم میں اس قسم کے منصوبے بنانا اور ان کی تکمیل کرنا عام سی بات ہے مگر توجہ طلب بات یہ ہے کہ ایسے منصوبے ابتدائی طور پر ہی ہر قسم کی تنقیدی جانچ کے انتہائی شدید مراحل سے گزرتے ہیں اور پھر ان کی فیزیبلیٹی کے تمام پہلوؤں کا باریک بینی اور پیشہ وارانہ ماہرین کے زیر نگرانی جائزہ لیا جاتا ہے اور پھر اسے باقاعدہ طور پر متعلقہ وزارتوں یا اداروں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تاکہ اس پر سیر حاصل ڈیبیٹ کی جاسکے، مگر ہمارے ملک عزیز میں بدقسمتی سے منصوبے فوری طور پر الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں پوسٹ مارٹم کے لئے پیش کیئے جاتے ہیں اور ہمارے معزز و محترم تجزیہ نگار، نقاد اور ایکسپرٹ اس اور اس جیسے منصوبے کی خرید و فروخت میں مصروف عمل نظر آتے ہیں اور چاند کو زمین پر لانے کے دعوے دار ہیں ان دعوں میں کتنی حقیقت اور کتنی کمی ہے یہ تو وقت گزرنے کے ساتھ ہم سب پر واضع ہوجائے گی۔ ویسے ہم من حیث القوم ان جیسے منصوبوں پر ایسے ٹوٹے پڑتے ہیں کہ خدا کہ پناہ اور ہر کوئی اس قسم کی باتیں کرتا نظر آتا ہے کہ فلاں منصوبہ ملک و قوم کی تقدیر بدل دے گا، اب چاہے وہ منصوبے ریکوڈک کے ہوں ، تھر کول کے، یا ایران پاکستان گیس پائب لائن ۔ گزشتہ دنوں چین نے باقاعدہ حکومت پاکستان کو اس اہم منصوبے سے متعلق پاکستان کے تمام صوبوں کے تحفظات دور کرنے کا انتباہ دیا ہے جس پر اگر سنجیدگی سے غوروخوض نہ کیا گیا تو یقیناًیہ منصوبہ دیوانے کی بڑ ثابت ہوگا اور ہمارے سامنے سینہ اور سر پیٹنے کے لئے ایک اورمثل کالا باغ ڈیم موجود ہوگا۔ اس معاملے پر منفی سیاست اور خودغرضی یقیناًنہ صرف پاکستان کی معاشی خوشحالی کو متاثر کرے گی بلکہ پاک چین مثالی دوستی میں دڑاریں پڑنے کا سبب بنے گی جس کی تمنا و آرزو دشمنان پاکستان کی روز اول سے ہے۔ اس اہم معاملے میں پاکستان کی عسکری قیادت کے بھی کچھ تحفظات کو ہوا دینے کی کوشش جاری ہے کیونکہ ملک کے دشمن ہر حال میں یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادتیں آمنے سامنے آجائیں۔

ستم ظریفی ہے کہ ہم تو ملک و قوم کی تقدیر بدلنے والے ایسے منصوبے بھی سن چکے ہیں کہ جن کے متعلق مہینوں ہمارے ملک کے طول و عرض پر یہ بحث ہوتی رہی کہ اب تو پاکستان نہ صرف اپنی بلکہ دنیا کی بھی تقدیر بدل دے گا، مثال کے طور پر ایک مشہور المعروف منصوبہ ایک صاحب بنام آغا وقار پٹھان نے غالبا 2012میں پیش کیا تھا جس پر ملک بھر میں مہینوں یہ بحث عام رہی کہ پانی کو بطور ایندھن استعمال کرنے سے پیٹرول کی انقلابی بچت ہوجائے گی، یاد رہے کہ اس دور میں وزیراعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف نے ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی کہ جس میں خورشید شاہ (اس دور کے وزیر مذہبی امور)، چنگیز خان جمالی (اس دور کے وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی) اور مشہور و معروف ڈاکٹر عاصم حسین (اس دور میں وزیراعظم کے مشیر خاص برائے پیٹرولیم اینڈ نیچرل ریسورسز) شامل تھے۔ ان تین مہان ہستیوں میں خورشید شاہ نے تو باقاعدہ آغا وقار پٹھان کے اس دعوے کو باقاعدہ پبلک میں سپورٹ کیا تھا۔ تو آج کیا رہا اس منصوبے کا اور کیا تقدیر بدلی ملک و قوم کی ، افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ملک و قوم کے ساتھ سنگین ہاتھ کرنے کی کوشش کرنے والوں کو آج کس عدالت میں پیش کیا گیا ۔

چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی بھی قسم کی غیر ذمہ داری اور کوتاہی کو چائنا پاکستان اکنومک کاریڈور کے منصوبے کی راہ میں حائل نہیں ہونا چاہیے وگرنہ ہم سب اس قومی جرم میں برابر کے شریک ہونگے اور ہماری آنے والی نسلیں ہمیں انتہائی غیر ذمہ دار سمجھنے میں حق بجانب ہونگیں۔ ہم سب کو چاہیے کہ پاکستان کے بہتر اور روشن مستقبل کیلئے نہایت دیانتداری اور لگن سے ناصرف کام کریں بلکہ ہر ممکن مثبت اور تعمیری سوچ کو پروان چڑھائیں کہ صرف اسی طرح ہم اقوام عالم میں اپنا بلند مقام حاصل کرسکیں گے۔

M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 499141 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.