امریکا،مغرب اورروس کے علاوہ دیگرممالک کی
انٹیلی جنس ایجنسیاں اپنے تمام ترجدید وسائل اورانتہائی تجربہ کاراہلکاروں
کے باوجود ابھی تک اس قابل نہیں ہوسکیں کہ وہ کسی بھی حملے کی تحقیق سے
پہلے حملہ آوروں یاان کے سرغنہ کے بارے میں کبھی کوئی اعلان کر سکیں لیکن
رسوائے زمانہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کوداددینی چاہئے کہ انہوں نے
تحقیقات سے پہلے ہی پٹھانکوٹ ایئربیس پرحملے کو جیش محمداورخالصتان کیلئے
جدوجہدکرنے والی ببرخالصہ کا مشترکہ آپریشن قراردے دیالیکن اب خود بھارت کی
اپنی تحقیقاتی ایجنسی بی ایس ایف (بارڈر سیکورٹی فورس) کے ڈی آئی جی کی
سربراہی میں ہونے والی تفتیش نے تمام تحقیقاتی ایجنسیوں کی نالائقی
کابھانڈہ پھوڑتے ہوئے کہاہے کہ پٹھانکوٹ ایئربیس پر حملہ آوروں
کاسرحدپارکرنے کاکوئی ثبوت نہیں ملا۔پنجاب سے جموں تک کہیں بھی سرحدی باڑسے
کسی بھی قسم کی چھیڑخانی کاکوئی ثبوت نہیں ملا جبکہ حملہ آوروں اورموقع
واردات سے بھی ایسی کوئی ڈیوائس بھی برآمد نہیں ہوئی،اس لئے یہ پتہ لگانا
نہ صرف مشکل بالکل ناممکن ہے کہ یہ کہاں سے آئے تھے لیکن نجانے کس بنیادپر
وزیر دفاع کوپیش کی جانے والی بھارتی انٹیلی جنس رپورٹ میں الزام لگایاگیا
کہ سکھ علیحدگی پسندوں نے حملہ آوروں کومدد فراہم کی، جن کی تعدادپانچ نہیں
بلکہ دس تھی اورپانچ حملہ آوراب بھی ببرخالصہ کی پناہ میں ہیں۔
چندی گڑھ میں کام کرنے والے بھارتی لکھاری''جوپیندرجیت سنگھ''نے انکشاف
کیاکہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی کی جانب سے پٹھانکوٹ ایئربیس پرحملے کی
جوابتدائی رپورٹ بھارتی وزیردفاع منوہرپریکارکوپیش کی گئی اس میں پٹھانکوٹ
حملے کوسکھ علیحدگی پسندببرخالصہ اورجیش محمدکا جوائنٹ آپریشن قراردیاگیا
جبکہ مزیددعویٰ کیاگیاکہ سرحدپارسے آنے ۱۰حملہ آوروں میں سے۵جنگجوؤں کواب
بھی ببرخالصہ کی پنجاب میں موجودقیادت کے احکامات پرمختلف مقامات پرالگ الگ
مہمان بناکررکھاگیاہے اور یہ جنگجوآنے والے ایام میں پنجاب میں مزیداہداف
کوٹارگٹ کرسکتے ہیں۔ حالیہ ایام میں سرحد پار سے ملنے والی امدادکے بعد
پنجاب میں ایک بارپھرسکھ علیحدگی پسندتحریک میں تیزی آئی ہے اورآنے والے
دنوں میں بھارتی پنجاب میں خالصتان تحریک کے احیاء کے بہت زیادہ امکانات
ہیں''۔
’’را‘‘کی کئی ٹیمیں حراست میں موجودایس پی گورداس پور،سلویندرسنگھ کی رہائی
کے حق میں نہیں۔انہیں یقین ہے کہ ایس پی کااگرپاکستانی جنگجوؤں سے نہیں
توکم ازکم ببرخالصہ سے تعلق ضرورہے کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ سرحد پارسے آنے
والے جنگجوؤں نے ایس پی کوزندہ چھوڑدیا جبکہ انہوں نے ایس پی کی جیپ تک
پہنچنے کیلئے جس گاڑی کواستعمال کیا،اس کے ڈرائیورکوقتل کرکے لاش پھینک
دی۔بھارتی جریدے ''ٹریبون انڈیا''کے مطابق'' ایس پی کی گاڑی چھیننے والے
جنگجوؤں کوخالصتان تحریک کے حامی مقامی سکھوں نے ہی محفوظ پناہ گاہ میں
دودن رکھاجس کے بعدانہیں پٹھانکوٹ ایئربیس تک لایاگیا۔بھارتی میڈیاکی
پٹھانکوٹ ایئربیس تک عدم رسائی کے سبب بھارتی سوشل سائٹس پریہ بھی خیال
ظاہرکیا جاتا رہاکہ جنگجوؤں کی جانب سے واحد زندہ بچ جانے والاحملہ
آوراندرہی کسی مقام پرموجودتھااوراس نے سرچ آپریشن میں شریک این ایس جی
کمانڈویونٹس کے کمانڈرکرنل نرنجن پرخودکش حملہ کیاجس سے کرنل نرنجن کے
چیتھڑے اڑگئے بلکہ پوراگروپ زخمی ہو گیاجنہیں فوری طورپرہسپتال منتقل
کیاگیا لیکن ان تک میڈیاکی رسائی روک دی گئی ہے''۔
دکن کرونیکل نے دعویٰ کیاکہ کیرالہ سے تعلق رکھنے والے کرنل نرنجن پٹھان
کوٹ بیس کے حساس ایریامیں ایک بم کوڈی فیوزکرنے کی کوشش میں ہلاک ہوالیکن
بھارتی افواج کاکوئی آفیشیل بیان سامنے نہیں آیاالبتہ ٹائمزآف انڈیانے دعویٰ
کیاہے کہ نرنجن کمارایک ہلاک جنگجوکی خودکش جیکٹ اتارنے کے دوران ہلاک
ہوا،اس سے یہ نکتہ تقویت پاتاہے کہ نرنجن بیس کے اندرحساس ایریامیں چھپے
ہوئے خودکش حملہ آورکی جانب سے کئے جانے والے ایک خودکش حملے میں ہلاک
ہوااوربھارتی حکام اپنی خجالت چھپانے کیلئے متضاد رپورٹس میڈیا میں شائع
کروارہے ہیں۔ پنجاب پولیس کے ڈی جی پی سریش اروڑاکادعویٰ تھاکہ ہلاک ہونے
والے تمام بھارتی فوجی،اسپیشل سروسز گروپ ''بلیک کیٹ''سے تعلق رکھتے
تھے۔بھارتی جریدے بھاسکرڈیلی نے بتایاہے کہ پٹھانکوٹ آپریشن میں شامل
دوہزاراہلکاروں کاتعلق انڈین آرمی،ایئرفورس،این ایس جی، پیرا ملٹری فورس
اورپنجاب پولیس سے ہے۔بھارتی افواج اور میڈیا کا بارباردعویٰ رہاکہ
پٹھانکوٹ آپریشن میں ایئربیس کاحساس ٹیکنیکل ایریاجہاں طیارے،ہیلی
کاپٹرزاورڈرونزرکھے جاتے ہیں،محفوظ تھا۔
بھارتی جریدے کرونیکل نے بتایاہے کہ پوری شب فضاء میں گن شپ ہیلی
کاپٹرایئربیس پرپروازکرتے رہے تھے۔بھارتی نیوزچینل این ڈی ٹی وی کاکہنا
تھاکہ پٹھانکوٹ میں آپریشن کے وقت فضاء سے ایم آئی ۳۵گن شپ ہیلی کاپٹر سے
ایئربیس کی مختلف عمارتوں پرراکٹوں اورمشین گنوں سے شدیدحملے کئے گئے ،جن
کامقصداندرچھپے ہوئے حملہ آوروں کوہلاک کرناتھا۔ ہندوستان ٹائمزکے مطابق
گورداسپورکے مقامی ایس پی سلویندرسنگھ کی سرکاری جیپ چھینے جانے کے
بعدبھارتی حکام کوپٹھانکوٹ ایئربیس پرحملے کااس قدریقین تھاکہ جمعہ کی شب
قومی سلامتی کے مشیراجیت ڈوول کے احکامات پرنیشنل سیکورٹی گارڈزکے پچاس
کمانڈوزکوخصوصی طیارے کی مددسے پٹھانکوٹ بیس پراتاردیاگیاتھا جس کی سربراہی
میجر جنرل سطح کاافسرکر رہا تھا۔
ادھرانڈیاٹوڈے نے دعویٰ کیاکہ بھارتی ایجنسی کرائمزبرانچ نے پاکستانی
انٹیلی جنس کیلئے جاسوسی کرنے والے ایک ایئرفورس اہلکاررنجیت کے خلاف عدالت
میں مزیدریمانڈکی درخواست جمع کراتے ہوئے استدعاکی ہے کہ انہیں یقین ہے کہ
رنجیت ہی نے ایسی دستاویزات پاکستانیوں کو فراہم کیں جن کی بنیادپرجنگجوؤں
نے پٹھانکوٹ ایئر بیس پرحملہ کیا۔ جس پر بھارتی عدالت نے کرائم برانچوں کے
تفتیش کاروں کو رنجیت سے تفتیش کی اجازت دے دی ہے۔
پٹھانکوٹ کے ایئربیس میں ہونے والے واقعات کاتسلسل ہی کئی شکوک وشبہات
پیداکرنے کیلئے کافی ہے۔ جس وقت حملوں کا آغاز ہوا قومی سلامتی کے مشیر
ڈوول نے تمام تر آپریشن کو خود کنٹرول کرنے کی واضح خواہش میں دہلی کے نواح
میں واقع منیسرفوجی اڈے سے نیشنل سکیورٹی گارڈز کے۱۵۰/اہلکاروں کو ہوائی
جہاز کے ذریعے غیر مانوس ماحول میں لڑنے کے لیے بھیجنے کا انتخاب کرتے ہوئے
پٹھان کوٹ میں موجودتقریباًپچاس ہزارفوجی جوانوں کوکیوں نظراندازکردیا؟جبکہ
اطلاعات کے مطابق ڈوول نے آرمی چیف سے بیک اپ سپورٹ کیلئے محض پچاس سے ساٹھ
فوجی جوان مہیا کرنے کی درخواست کی۔اس مشن کی آپریشنل کمانڈ این ایس
جی،ڈیفنس سروس کور(ڈی ایس سی)اوربھارتی فضائیہ کے خصوصی فوجی دستوں کوسونپ
دی گئی جنہیں حملے پرقابوپانے میں چاردن لگادیئے جبکہ اس حملے میں درجن سے
زائد بھارتی فوجی ہلاک اور سے ۲۵ سے زائد زخمی ہوگئے۔تاہم لڑائی کو۴۸گھنٹے
سے زائد گزرنے اور چار شدت پسندوں کی ہلاکت کے بعدجب وزیراعظم
نریندرمودی،وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ،وزیردفاع منوہرسمیت دیگر وزرا کی جانب
سے آپریشن کی کامیابی کی مبارکباد وصول کررہے تھے کہ اچانک فائرنگ کاایک
نیاسلسلہ پھرشروع ہوگیا۔ اہم سوال یہ ہے کہ ایسی کھلی اورمحدودجگہ پرجہاں
عام شہریوں کوکسی قسم کاخطرہ پہنچنے کا قطعاً احتمال نہیں تھا، صرف پانچ یا
چھ شدت پسندوں کو ہلاک کرنے میں چار دن کیسے لگ گئے؟خودکش حملہ آورجو
فضائیہ کی اہم ملکیت یعنی مِگ -۲۱ جنگی جہازوں اورہیلی کاپٹروں کے قریب ہی
چھپے ہوئے تھے،آخروہ تباہ ہونے سے کیسے بچ گئے؟ پاکستان کی طرف سے بھیجی
جانے والی تفتیشی کمیٹی کا خیرمقدم کااعلان کرنے کے بعد اچانک اس سے کیوں
انکارکردیاگیا؟
یادرہے کہ خودبھارت کے ایک اعلیٰ افسرنے بھارتی سپریم کورٹ میں بیان دیتے
ہوئے بھارتی پارلیمنٹ اورممبئی حملے کے بارے میں ہولناک انکشافات کرتے ہوئے
اسے ''را''کی کارستانی بتایاتھا اوراسی طرح بھارت کی انسدادِ دہشتگردی
اسکواڈاورمہاراشٹر کے شہر ناسک کی عدالت میں انسداد دہشتگردی عملہ کے وکیل
اجے مسرکے مطابق مالیگاؤں بم دھماکہ اور۱۸فروری ۲۰۰۷ء کوسمجھوتہ ایکسپریس
میں ۶۸پاکستانیوں کوزندہ جلانے کیلئے حاضرسروس فوج کے کرنل پروہت نے دھماکہ
خیز مواد آر ڈی ایکس فراہم کیا تھا۔اسی لئے بھارتی تجزیہ نگارآکاش بنر جی
نے لکھاہے کہ پٹھانکوٹ حملے کے دوران بھارتی اداروں کے مشکوک بیانات کے
نتیجے میں دنیانے اس کیس کونہائت معمولی لیااوربھارت عالمی سطح پراپنا مؤقف
پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ |