ہمارے بے حس اور بے حمیت وزراء

اس وقت پی پی پی کی حکومت میں شامل رتنوں کی بات کی جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک سے ایک نگینہ اور جوہر قابل یہاں موجود ہے۔ یہ سارے رتن اور پی پی پی کے جیالے بے غیرتی اور بے حیمتی میں اپنی مثال آپ ہیں اس کے ساتھ ساتھ ان کی جو ایک اور خاصیت جو کہ دوسرے لوگوں میں زرا کم ہی ہوتی ہے وہ ہے ڈھٹائی۔ موجودہ حکومت کے وزراء کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ سارے پاکستان کے نہیں بلکہ کسی اور ہی ملک کے وزیر اور ذمہ داران ہیں اور یہاں ان کو کسی نے وزٹ کے لئے بیھجا ہے۔(ویسے حقیقت تو یہی ہے کہ حکومت کے جاتے ہی ان میں سے اکثریت بیرون ملک فرار ہوجائے گی)۔

سب سے پہلے ہم جائزہ لیں گے محترم وزیر خارجہ شاہ محمود قرشی صاحب کا، یہ کہنے کو تو پاکستان کے وزیر خارجہ ہیں لیکن ان کے کسی بھی بیان یا کسی بھی بات سے نہیں لگتا کہ پاکستانی ہیں بلکہ ان کی ساری صلاحیتیں اور طاقتیں پاکستان کے خلاف اور پاکستان دشمنوں کے حق میں استعمال ہورہی ہیں۔ بھارت ہمارا پانی چرا رہا ہے۔ ہمیں بانجھ بنانے کی سازش کررہا ہے۔ بھارت نے موجودہ حکومت کے دور میں بگلیہار ڈیم مکمل کیا ہے اور اطلاعات ہیں کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں چھوٹے چھوٹے کم و بیش بیس ڈیم بنانے کے منصوبے شروع کررہا ہے۔ آبی ماہرین اس پر چلا رہے ہیں، پانی کی کمی پر دہائی دے رہے ہیں۔ پانی کی کمی کے باعث ہماری زراعت سمٹتی جارہی ہے۔ ہمارا تاریخی اور قدیم دریائے سندھ سوکھتا جارہا ہے اور اس وقت حالت یہ ہے کہ دریائے سندھ ایک ندی کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ یہ ساری باتیں ایک طرف اور محترم وزیر خارجہ کا بیان ایک طرف ہے۔ موصوف فرماتے ہیں کہ َ َ بھارت پاکستان کا پانی نہیں چوری کررہا ہے “ یہ بیان پڑھ کر ہم تو اپنا سر پیٹ کر رہ گئے کہ یہ کس قسم کے لوگ ہیں بخدا اگر سرخی کے آخر میں شاہ محمود قریشی صاحب کا نام نہ موجود ہوتا تو ہم یہ سمجھتے کہ شائد یہ کسی بھارتی وزیر کا بیان ہے۔

اسی طرح وزیر داخلہ رحمان ملک صاحب ہیں ان کی ساری پھرتیاں صرف اور صرف امریکی مفادات کا تحفظ کرنے، اسلام پسندوں کو دیوار سے لگانے اور اپنے اتحادیوں کے جرائم پر پردہ ڈالنے میں صرف ہوتی ہیں۔ ملک میں جیسے ہی کوئی بم دھماکے کی واردات ہوتی ہے موصوف کہیں بھی موجود ہوں یہ فوراً ہی میڈیا کو بتاتے ہیں کہ یہ فلاں تنظیم کی کاروائی ہے اور اس میں فلاں لوگ ملوث ہیں اگرچہ بعد میں تحقیقات ان کی باتوں کو غلط ثابت کردیتی ہیں لیکن یہ ایسی باتوں سے بد دل نہیں ہوتے بلکہ ڈھٹائی کے ساتھ ایک نیا مؤقف اپنا لیتے ہیں۔ ان کے بیانات ہمیشہ دہشت گردی کے خلاف ہوتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں غیر ملکی ملوث ہیں ( یہاں غیر ملکیوں سے ان کی مراد عرب اور افغان بانشدے ہیں امریکی نہیں) اور کسی کو ملک میں دہشت گردی کی اجازت نہیں دی جاسکتی لیکن جب اسلام آباد میں امریکی دہشت گرد رنگے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں تو یہ خود ان کو چھڑاتے ہیں۔

ایک اور صاحب ہیں احمد مختار ان کا نام بڑا خوبصورت ہے ان کے نام میں مختار کا لفظ آتا ہے لیکن یہ بے چارے کسی بھی بات کے مختار نہیں ہیں سوائے اپنے ہی لوگوں کے خلاف طاقت کے استعمال میں، ان سے جب کہا جاتا ہے کہ جناب امریکہ ڈرون حملے کررہا ہے ان کو روکا جائے تو یہ موصوف جو کہ وزیر دفاع ہیں اور ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ ملک کی سرحدوں کی حفاظت کریں لیکن انہوں نے تو بات ہی ختم کردی، انہوں نے فرما دیا کہ “ہم ڈرون حملے نہیں روک سکتے“ لو جی کرلو جو کرنا ہے۔

یہ ہمارے تین وزراء کی کارکردگی ہے۔ ان تینوں حضرات کی بہترین کارکردگی ایک بار پھر عوام کے سامنے آئی ہے جب امریکہ میں ایک پاکستانی نژاد امریکی فیصل شہزاد کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتا ر کیا گیا۔ ابھی فیصل شہزاد کو گرفتار کیا ہی گیا تھا کہ ان کے لوگوں کی پھرتیاں شروع ہوگئیں ادھر امریکہ نے کہا کہ یہ دہشت گرد اور مجرم ہے اُدھر ان لوگوں نے امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانا شروع کردی۔ وزیر داخلہ نے فرمادیا کہ ہاں یہ مولث ہوسکتا ہے۔ وزیر خارجہ نے کہہ دیا کہ یہ ڈرون حملوں کا رد عمل ہے۔ اور وزیر دفاع نے تو بڑی اہم بات کہہ دی کہ فیصل شہزاد نے اس طرح اسلام کی کوئی خدمت نہیں کی ہے۔ دیکھیں فیصل شہزاد ہوسکتا ہے کہ اس واردات میں ملوث ہو لیکن ابھی تو تفتیش ابتدائی مراحل میں ہے ابھی کیس بھی دائر نہیں کیا گیا ابھی وہ پولیس کسٹڈی میں ہے، اور پولیس کسٹڈی میں دئے گئے بیان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے لیکن اس کے باجود ان سب لوگوں نے اس کو وقت سے پہلے ہی مجرم بنا دیا ہے۔ اور یہ بات بڑی اہم ہے کہ وزیر اطلاعات محترم قمر زمان کائرہ اور دیگر وزراء نے اس کو پاکستانی ماننے سے انکار کردیا ہے۔ کیوں کہ ان کے بقول وہ امریکی شہری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب اگر کوئی فرد جس کے پاس دہری شہریت ہو اور دیار غیر میں کسی مشکل میں پھنس جائے تو وہ پاکستانی حکمرانوں سے کسی مدد کی توقع نہ رکھے۔ یہ حکمرانوں کی ساری باتیں جب سامنے آتی ہیں تو پھر ہم ان کو نرم ترین الفاظ میں بے حمیت اور بے حس ہی کہہ سکتے ہیں۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1459631 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More