جنرل راحیل شریف کی بانگ بلند۔۔۔

سپہ سالار کی طرف سے کہا گیا کہ ’’میں وقت مقررہ پر ریٹائر ہو جاؤں گا‘‘ملک میں گفتگوئے رنگ و بو کے دبستان کھل گئے ،کہیں پھول اداس ہو گئے کہ آتی ہوئی بہار کا اب کیا ہو گا۔۔۔۔؟کسی نے سوال کیا کہ جسے تتلیوں اور جگنووٗں نے اپنا مسیحا سمجھا تھا کیا وہ صرف اپنے پیشہ وارانہ وقار کے لئے کسی آسیب ذدہ راستے پر اکیلا چھوڑ جائے گا ،وہ جس نے سبزہ زاروں سے درندوں کو نکالا تھا کیا وہ پھر موسم گل کو انہی کے حوالے کر دے گا ،وہ جو ایک گلپوس اور زرتار دور کی تمہید بننے والا تھا کیا واقعی وہ صیح نگاراں کو تاریکیوں اور خزاؤں کی وادیوں میں چھوڑ کر کہیں جانے والا ہے ۔۔۔۔۔ہائے یہ کیا ہوا۔۔۔۔؟شاخ شاخ یہی ڈر پھیل رہا ہے کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ پھر گلستان میں اسی باغبان کا دور پلٹ آئے جس میں ووٹ اور نوٹ دونوں لٹ گئے تھے ،چمن سے نکالی ہوئی خوف کی فضا پھر کہیں لوٹ نہ آئے ۔دہشت کے سرسراتے ہوئے سائے پھر کہیں شہرؤں کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لیں ،رکتی ہوئی اجتماعی ’’لوٹ‘‘کی داستان پھر شب کے لبوں پر مچلنے نہ لگے ،پھر پہاڑوں پر موت کے عفریت کو جنم دینے والی کرپشن کی ریش دار دیوی کا راج نہ قائم ہو جائے ۔۔۔۔۔

اگر وہ چلا گیا تو کیا خطہ پنجاب میں ظمت شب کے رکھوالوں کو انجام تک پہنچانے کے لئے روشنیوں کے لشکری آسیکیں گے یا تھل کی صحرائی درس گاہوں میں خود کش جیکٹیس تیار ہویی رہیں گی۔۔۔؟کیا بلوچستان میں اقتصادی راہداری کے کناروں پر جھلملاتی ہوئی روشنیوں کو تحفظ مل سکے گا۔۔۔؟کوئٹہ میں ہزارہ کے لوگ جی سیکیں گے ۔۔کیا پختون خوا کے زخم زخم پہاڑوں پر کوئی مرہم لگا سکے گا۔۔۔۔؟ کیا سندھ کی سڑکوں پر ظلمتیں راج نہیں کرنے لگیں گی۔۔۔؟ کیا زندہ کراچی پھر مردہ نہیں ہوجائے گا۔۔۔۔۔نیب کے جسم سے جان نکل جائے گی ۔۔۔؟ یہ سلگتے ہوئے سوالوں سے بھرے ہوئے لوگ سوچتے ہیں کہیں اپنے بازار گرم رکھنے کے لئے ہم کشمیریوں کے خون کو بھول تو نہیں جائیں گے ۔۔۔کہیں دہشت گردوں کا پھر ہمارے اہسپتالوں میں علاج تو نہیں ہونے لگے گا۔۔۔۔کہیں ماڈل ٹاون میں پھر کوئی سانحہ کروٹیں تو نہیں لینے لگا ۔۔۔۔۔؟ ایک طرف تو بے شمار ایسے واہمے،وسوسے اور اندیشے ہائے دور و دراز ہیں ۔۔۔۔؟ ماضی کے تلخ تجربات سے نکلے ہوئے خدشے ہیں تو دوسری طرف کسی کے چمن دل میں گلوں میں رنگ بھرتی ہو ئی یاد نو بہار چلنے لگی ہے کہ بس وہ طوفان گزرنے والا ہے جس کے سبسب گلشن کا کاروبار ٹھپ ہو گیا تھا خوشی چہروں سے پھوٹنے لگی ہے بہاروں کے پھاٹک کھلنے والے ہیں جلگ ہم ریگزار عرب کی جسم جھلساتی دھوپ کو چھوڑ کر آب دبیل کے کنارے شام کی سیر کیا کریں گے ۔۔۔بادبانوں میں آنچلوں کے رنگ برنگی روشنیاں سمندر میں جگمگائیں گی کشتیاں ڈالروں سے بھری ہونگی ۔۔۔۔پھر ساحل سمندر کی زمینوں پر ہمارا قبضہ ہو گا ۔۔۔پھر میثاق جمہوریت سے نوٹوں کی بارش ہو گی۔۔۔۔انہوں نے ان کھردرے لفظوں کا اس اہتمام سے خیر مقدم کیا کہ جیسے زندگی میں اس سے خوبصورت خبر انہیں اور کوئی ملی ہی نہیں ۔۔۔صرف یہی نہیں اور بھی کچھ لوگ خبر پر رقص کناں دکھائی دئیے ۔۔۔خاص طور پر وہ لوگ جنہوں نے دو ہزار پندرہ میں پاکستان کی تباہی کا خواب دیکھ رکھا تھا ان کے میڈیا نے طھی اسی خبر کو ایسے اچھالا کہ شرق وغرب میں پھیلا دیا۔۔۔۔۔۔شاید اس لئے کہ کہیں سپہ سالار اپنی کہی ہوئی بات سے منحرف نہ ہو جائیں ۔۔۔۔۔تیسری طرف لوگ سوچتے ہیں کہ یہ کہیں سورج نے سایوں کو شٹ اپ کی کال تو نہیں دی ۔۔۔ابھی تھوڑی دیر پہلے لندن کی سکی گلی میں ’’دورنیے‘‘ زیر بحث تھے کہ سپہ سالا ری کا دورنیہ تین کے بجائے چار سال کر دیا جائے ۔۔۔۔مجلس نمائندگان عوام کا دورنیہ پانچ سال کی بجائے چار سال پر محیط ہو یا نہیں ۔۔۔؟ ذہنوں میں فائدوں اور نقصان کی جمع تفریق جاری ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ خوش ہونے والوں کے دلوں میں پریشانیاں کروٹیں لے رہی ہیں کیونکہ گیند اب ان کی کورٹ میں واپس آچکی ہے سپہ سالار اعظم بنانے کا نذارانہ پاؤں کی ٹھوکر سے کسی کھڈے میں جا گرا ہے دورانیہ بڑھانے کی طرح دار معاوضہ واپس کر دیا ہے ۔۔۔پریشانی برقرار ہے کہ صبح مختار کی نوید سنائی دے گی یا نہیں ۔۔۔۔؟ چراغ منیر کی روشنی ہوٹل کے وسیع و عریض لان سے نکل کر تخت لاہور کو منور کر سکے گی یا نہیں ۔۔۔۔۔؟ایک چوتھی سمت بھی ہے کہ یہ لوگ نومبر سے پہلے پہلے کسی تبدیلی پر یقین رکھتے ہیں یا س کے کوہش مند ہیں ان لوگوں کے مطابق اگلے چند ماہ میں دہشت گردی کے خلاف جو کچھ ہونے والا ہے اسے موجودہ حکومت برداشت نہیں کرے گی اور معاملات خراب ہو جائیں گے کیونکہ سپہ سالار نے دو ہزار سولہ میں دہشت گردی کے مکمل خاتمے کی نوید سنا رکھی ہے اور وہ سیاسی لیڈر نہیں جو تاریخیں بدلتے رہتے ہیں سو اب پنجاب میں کاروائی کا آغا زہوا چاہتا ہے ۔۔۔خاص طور پر دہشت گردی کے ساتھ جڑی ہوئی کرپشن کے خلاف ایک خوفناک مہم شروع ہونے والی ہے یہ بھی انہی لوگوں کا خیال ہے کہ اسی ضروری عمل کو روکنے کے لئے سالار کو یہ آفر دی گی تھی جس کو ٹھکراتے ہوئے اس نے نو ماہ پہلے یہ بیان جاری کرادیا ہے کہ توسیع پر یقین نہیں رکھتا میرے نزدیک ملک کی سالمیت اہم ہے ۔۔۔۔۔۔اس وقت ملک کی سالمیت پٹھان کوٹ کے واقعہ میں حکومتی غلط پالیسی اور چارسدہ واقعہ پر بھارت کے ملوث ہونے سے جڑی ہوئی ہے ۔۔۔شاید اسی وجہ سے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی اپنہ حکومت سے ناراضگی کا سبب بھی انہی معاملات سے جڑا ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔اب وقت بنائے گا کہ ان چاروں سمت میں سے کون سی سمت درست سوچ ہے البتہ ذاتی طور پر مایوس نہیں انشاء اﷲ اوباما کا کہنا غلط ثابت ہو گا۔۔۔۔پاکستان بچاؤ تحریک کے آرگنائزر چوہدری جاوید کنول چنڈور کا کہنا ہے کہ اب توسیع مدت ملازمت میں ہونی ہے یا کہ زندگی مین کس کی ہو نہ ہے یہ وقت جلد بتائے گا۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Dr M Abdullah Tabasum
About the Author: Dr M Abdullah Tabasum Read More Articles by Dr M Abdullah Tabasum: 24 Articles with 16160 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.