کعبہ بہارِ رحمت روضہ قرار وراحت ... قسط١٣

نزول گاہِ وحی کی مہمانی میں!

نوٹ : کمپیوٹر کی غلطی سے حج ڈائری میں قسط نمبر١٢کی بجائے قسط نمبر ١١ٹائپ ہوا۔ مزید برآں پلوامہ کشمیرکے رہنے والے دسویں جماعت کے ایک طالب علم ساحل احمد لون کا شکریہ ادا کرتاہوں کہ انہوں نے بعض تسامحات کی طرف بر وقت متوجہ کیا ۔ مثلا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو حضرت نعیم بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے نہیں بلکہ حضرت نعیم بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی بہن کے اسلام لانے کی خبردی ( قسط نمبر ١٠)نجاشی کے دربار میں جناب ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ نے نہیں بلکہ عبداللہ بن ربیعہ اور فاتحِ مصر عمر وبن العاص نے کفارانِ مکہ کی سفارت کی اور مطالبہ کیا کہ مہاجرین مکہ ہمارے بھگوڑے مجرم ہیں ، انہیں واپس مکہ لوٹایاجائے۔ اصل میں ابوسفیان(وہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) نے قیصر روم کے دربار میں پیغمبر اسلامۖ کی سیرت پاک کے بارے میں سچی گواہی دی۔ یہ دو الگ الگ واقعات ہیں جو نہ جانے کس طرح میرے حافظے میں خلط ملط ہو کر رہ گئے تھے۔ نجاشی کے دربار میں جو شاندار تاریخی تقریر حضرت علی کرم ا للہ تعالی وجہہ کے برادر جعفر طیار بن ابو طالب نے کی، مناسب ہے ، اسے یہاں من وعن نقل کیاجائے۔ یاد رہے جعفر طیار نے نجاشی کے شاہی دربار میں مہاجرین کی نمائندگی کی۔ انہوں نے مکہ کے سفیر عمرو بن العاص سے سوال کر نے کی اجازت نجاشی سے پا کر بھرے دربار میں اپنے استفہامات واستفسارات سے اپنی اور مخالف فریق کی پوزیشن واضح کردی۔ ان کے مابین جو مکالمہ ہو ا، وہ تاریخِ اسلام میں ان الفاظ میں درج ہے:
حضرت جعفر: کیا ہم کسی کے غلام ہیں جو آقا سے بھاگ آئے ہوں؟ اگر ایسا ہے تو ہمیں واپس کیا جانا چاہیے ۔
عمرو بن العاص: نہیں ، یہ لوگ کسی کے غلام نہیں، آزاد اور شرفاہیں۔
حضرت جعفر: کیاہم کسی کا قتلِ ناحق کر کے آئے ہیں ؟ اگر ایسا ہے تو آپ ہمیں ورثائے مقتول کے حوالے کریں۔
عمر وبن العاص: نہیں، انہوں نے خون کاا یک قطرہ بھی نہیں بہایا۔
حضرت جعفر : کیا ہم کسی کا مال لے کر بھاگے ہیں ؟اگر ایسا ہے تو ہم اس کی ا دائیگی کر نے کو تیار ہیں ۔
عمرو بن العاص: نہیں ، ان کے ذمہ ایک ہبہ بھی نہیں ۔
ان صفائیوں اور وضاحتوں کے بعد اب جعفر طیار نے یہ عمدہ تقریر شاہی دربار میں کی
اے بادشاہ ! ہم لوگ ایک جاہل قوم تھے، بت پوجتے تھے، مردار کھاتے تھے ، بدکاریاں کر تے تھے ، ہمسایوں کو ستاتے تھے ، بھائی بھائی پر ظلم کرتا تھا، قوی کمزوروں کو کھا جایا کر تے تھے۔ اسی اثنامیں ہم میں سے ایک شخص (محمدعربی )پیدا ہوا جس کی شرافت ، سچائی اور دیانت سے ہم لوگ پہلے سے آگاہ تھے،اس نے ہم کو اسلام کی دعوت دی اور یہ سکھلایا کہ ہم پتھروں کو پوجنا چھوڑدیں، ہمسایوں کو آارم دیں، عفیف عورتوں پر بدنامی کا دھبہ نہ لگائیں ، نماز پڑھیں، روزے رکھیں ، صدقہ دیں ، ہم اس پر ( پیغمبر اسلام ) ایمان لائے ، شرک اور بت پرستی چھوڑدی اور تمام اعمال ِ بدسے باز آئے۔ اس جرم میں ہماری قوم ہماری جانوں کی دشمن ہوگئی اور ہم کو مجبور کر تی ہے کہ پھر اسی گمراہی میں لوٹ آئیں ۔ پس ہم اپنا ایمان اور اپنی جانیں لے کر آپ کی طرف بھاگ آئے ہیں ۔ اگر ہماری قوم ہم کو وطن میں رہنے دیتی تو ہم نہ نکلتے۔ یہ ہے ہماری روداد!نجاشی نے یہ تقریر سنی تومتاثر ہوکر معززمقررسے اس کلام اللہ کا کوئی حصہ سنانے کی فرمائش کی ۔ حضرت جعفر طیار نے سورہ مریم کا ایک حصہ تلاوت کیا ۔ اسے سن کر بادشاہ کا دل پسیج گیا ، وہ ا شک بارہوا، روح کو سکون ملا توبے ساختہ بولا: بخدا !یہ کلام اورا نجیل ( غیر محرف) دونوں ایک ہی فانوس کے پرتو ہیں۔
محسنِ انسانیت۔۔۔ کلیم صدیقی
٭٭٭
ابر ہہ کے تعمیر کردہ کلیسا میں اہلِ یمن کا خون پسینہ، بے گاراور ظلم و زیادتی کا اینٹ گارا لگاتھا، ملک کی دولت اور لعل وگہر کے خزانے اس پر ضائع کئے گئے تھے، تعمیر عالی شان تھی ، نقش ونگار قابل دید تھے، خوب صورتی میں یکتا تھی، زرکار نقوش سے تزئین اورجواہرات سے آرائش کاکام لیا گیا تھا، ہاتھی دانت اور آبنوس سے منقش خوب صورت منبر و محرابیں صعومہ کو چار چاند لگاتے تھے لیکن اس کی قسمت میں کارخانہ قدرت نے یہی لکھا تھا کہ یہ کھنڈروں میں تبدیل ہو، بدصورتی کا منبع بنے، دہر میں درسِ عبرت کی تاریخ سنائے کیونکہ اس کی تعمیر وتاسیس میں مسجد ضرار کی طرح نیتوں کا فساد، جلن وعناد، بغض و حسد اور خاکم بدہن بیت اللہ کو نیچا دکھانے کی خباثت کار فرما تھی ۔ چنانچہ ابر ہہ کے کبروغرورکاسرنیچا کر نے کے لئے اللہ نے اپنی چال چلی۔ ایک عرب یہاں چوری چھپے آیااوروہ کام کر دکھایا جس نے آگے اللہ کی کبریا ئی کا ڈنکا بجایا۔ ابر ہہ کے کلیسا میں رفعِ حاجت کر نے کے حوالے سے مورخین اس عرب نو جوان کا نام نفیل الخشعمی لکھتے ہیں ( ہادی عالم ۔۔۔ محمد ولی رازی )۔ کہاجاتاہے کہ ابر ہہ نے جب قیصر روم کو خط لکھ کر یہ کہا تھا کہ وہ عربستان کا منہ کعبہ سے موڑ کر اپنے معبد کی طرف کروا ئے گا تو اس کی بھنک پاکرعربوں میں اشتعال اور غصہ پیدا ہوا کیونکہ خرابی بسیار کے باوجود وہ بیت اللہ کے تقدس کے دل سے قائل تھے، اگر چہ حج کے موقع پر واہیات وخرافات کا ارتکا ب بھی کر تے تھے ۔ عرب عوام ابرہہ کے برے عزائم اور اس کے دوررس اثرات بھانپ چکے تھے اور جانتے تھے کہ یہ عالمِ عرب کو روم کا غلام بنانے کی ایک منصوبہ بند سازش تھی۔ چنانچہ کنانی نوجوان کسی طرح صنعاکے اس دیدہ زیب کلیسا میں داخل ہوا اور اس میں دانستہ طور بول براز کر کے فوراواپس وطن لوٹا۔ ایسا کر کے اس نوجوان نے ابر ہہ کو اپنی اوقات یاد دلا کر بزبان حال پیغام دیا کہ تمہاراکلیساالعیاذباللہ حج کے لئے نہیں بلکہ قضائے حاجت کے لئے ہی موزوں جگہ ہے ۔ اس کے ردعمل میں ابر ہہ کا پارہ چڑ ھ گیا ۔اس نے اپنی بے عزتی اور کلیسا کی توہین کا بدلہ اب کعبہ شریف ڈھا لینے کی ٹھان لی اور اپنے ابلیسی منصوبے کے تحت مکہ پرچڑھائی کا مصم ارادہ کیا۔ کلیسا میں ناپاکی کامعاملہ ابر ہہ کے لئے محض عقیدت تک محدود نہ تھا بلکہ یہ رومی سیاستوں پر ایک زناٹے دارتھپڑ اور اس کے معاشی مفادات پر ایک کاری ضرب تھی ۔ اس سے قیصر روم کو جواب ملا کہ وہ عربوں کو کبھی عیسائیت کے لبادے میں زیر نہیں کرسکتا۔ ابر ہہ نکٹا نے کوئی تاخیر کئے بغیر ساٹھ ہزار کا لشکر جرار جمع کیا اور حرمِ کعبہ کی جانب گھمنڈ اور رعونت کی گردن اونچی کرکے چل دیا۔ اس کی نظر اپنے توپ خانے پر تھی ، اپنی نفری پر تھی ، اپنی سیاسی سر پرستی پر تھی، اس لئے خدا کے لاو لشکر کا اندازہ فرعون ، ہامان ، نمردو اور ابوجہل کی مانند وہ لگا ہی نہ سکا ۔اس کے ہمراہ مرعوب کن دیو پیکر ہاتھی بھی تھے، بھاری بھر کم پیادہ فوج بھی تھی ، توپ وتفنگ بھی تھے،سامان حرب و ضرب بھی تھا اوریہ ہاتھیوں کادل اور سپاہیوں کا جنگل پورے دبد بے کے ساتھ مکہ کو روانہ ہوا ۔ عرب تاریخ میں یہ پہلاموقع تھا جب ہاتھیوں کو بھی میدانِ جنگ میں جھونک دیا گیا ۔ بہت جلد عرب قوم تک ابرہہ کے جنگی جنون کی خبر پہنچی اور ساتھ ہی ساتھ یہ اطلاع بھی ملی کہ بادشاہ ارض وسماکے مالک اللہ کے گھر کو ڈھانے کا شر انگیز ارداہ رکھتا ہے ۔ عرب کا سواد اعظم اکرام ِ کعبہ کی بجائے ابر ہہ کے ہاتھوں تخریبِ کعبہ کے کم بختانہ اقدام سے متفکر ہوا، لوگ سراسیمہ ہوگئے اور اپنا چین وسکون گنوا بیٹھے کیونکہ یہ ان کی کعبتہ اللہ کے ساتھ ہزاروں سال طویل تئیں عقیدت،غیرت اور حمیت پر براہ راست حملہ تھا۔انہوں نے سوچ بچارکیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ حاکمِ مردو کے لشکر ملعون کا آخری دم تک مقاومت و مزاحمت کر نا ہی بیت اللہ کے ساتھ عقیدت ومحبت کا اولین تقاضاہے۔ اسی سلسلے میں ذونضرنامی ایک شخص جو یمن کے سابقہ شاہی خانوادے کا فردتھا، نے اہل قبیلہ اور اپنے ہم نوا عربوں کی مددو حمایت سے ابر ہہ کا مقابلہ کر نے میں پیش قدمی کی ، مقصد یہ تھاکہ کعبہ شریف کے پاس اس پلید کوپھٹکنے بھی نہ دیا جائے ۔ ذونضر نے حتی الوسع مقابلہ کیا مگر پسپا ہوکر گرفتار ہو ا۔ ابرہہ نے اسے قتل کر نا چاہا لیکن ذونضر نے منت سماجت کر کے اپنی جان بخشی کروائی ، پھر بھی قید وبند کی سزا پائی۔ یہ بدبخت لشکر جب خثعم کی سر زمین پر وارد ہو اتو اس کے دوقبائل شہران اور ناہس نے بھی خوب مقابلہ کیا مگر ذونضر کی مانند وہ بھی شکست کھاگئے ، قبیلے کا سردار گرفتارہوا اور مشکل سے اس کی جان بخشی ہوئی ۔ اب ابرہہ طائف پہنچا ، یہاں بنی ثقیف کے سردار مسعود بن معتب اپنے چند لوگوں کو ہمراہ لے کر ابر ہہ کے پاس آیااور اس سے کہا اے بادشاہ! ہم آپ کے مطیع وفرمان بردار ہیں ۔ آپ سے ہمیں کوئی پر خاش نہیں ، بس استدعا ہے کہ بیت الات سے تعارض نہ کرنا کیونکہ اس میں ہمارا معبود لات ہے ۔ ابر ہہ نے ان مشرکین کویقین دہانی کرائی کہ لات کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہ ہوگی، ہمارا کریک ڈاون بیت اللہ تک محدود رہے گا ۔ واضح رہے کہ اللات طائف میں اس قبیلے کا ایک معبد تھا جس کی تعظیم وتکریم وہ خانہ کعبہ کی طرح کر تے تھے۔ مسعود ثقفی نے اس کے ساتھ اپنا دلیلِ راہ ( گائیڈ) ابو رغال راستے کی رہنمائی کے لئے بھیج دیاجو وادی مغمس پہنچ کر مر گیا۔ ابورغال کے خلاف اہلِ عرب میں اتنی نفرت تھی کہ زمانہ جاہلیت میں بھی اس کی قبر کو بلاناغہ سنگسار کر تے تھے، وجہ یہ تھی کہ یہ شخص کعبہ شریف کے انہدام میں ابرہہ کو راستہ بتا نے والا بناتھا۔ وادی مغمس میں اپنا پڑاو ڈال کر ابرہہ نے اپنے ایک حبشی فوجی کمانڈر اسود بن مقصود کو حکم دیا جاومکہ جاکر چھاپہ مار کارروائی کر و۔ اسود اپنے ایک دستہ کے ساتھ مکہ کے قرب وجوار میں پہنچا تو وہاں تہامہ کے لوگوں کے اونٹ جو وہاں چر رہے تھے ، کو ہانک کرلیا۔ان چرائے گئے اونٹوں میں قبیلہ قریش کے سرداراورنبی رحمتۖ کے داداجان عبدالمطلب کے دوسواونٹ بھی شامل تھے۔اس چھاپہ مار کارروائی کے بعد حرم ِ محترم کے پاس رہنے والے قریش،کنانہ،ہذیل وغیرہ نے ابر ہہ سے جنگ کی حامی بھر لی لیکن انہیں بہت جلد احساس ہو اکہ ابرہہ کے لاو لشکر کا مقابلہ کر نا ان کے بس کا روگ نہیں ۔ اس لئے جنگی مقابلہ آرائی کا ارداہ ترک کیا۔ جمہور علما اور مورخین کی یہی ثقہ رائے ہے کہ اہل مکہ نے جنگ نہ کر نے کا فیصلہ لیا مگر بعض لوگ جن میں سر سید احمد خان( تفسیر القرآن ) اور مولانا حمیدالدین فراہی ( نظام القرآن ) خاص طور شامل ہیں،ان آیات کی تاویل کرتے ہوئے اپنی جداگانہ رائے دیتے ہیں جو جید علماوشارحین قرآن کو قطعی طور قبول نہیں۔ سر سید کی بیش قیمت ملی و تعلیمی خدمات اور ان کا خلوص واستقامت سر آنکھوں پر مگر ان کی تفسیر قرآن کو علمائے اسلام باتفاق رائے مستر د کر چکے ہیں ،ا لبتہ مولانا فراہی جن کی دینی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے اور جن کے خلفِ رشید صاحب تدبر قرآن نے ان کی خوشہ چینی میں بہت سارا تفسیری سرمایہ باقیات الصالحات کے طور پیچھے چھوڑا ہے، واقعہ فیل کے بارے میں دور کی کوڑیاں لاکرجو تاویلات کرتے ہیں ، ان سے علمائے قرآن متفق ہی نہیں کیونکہ یہ نص قرآن سے میل ہی نہیں کھاتے ۔ علامہ فراہی کی رائے میں اہلِ مکہ حمیت وغیر ت کا فقدان نہ تھا کہ عین وقت پر کعبہ شریف کے دفاع سے لاتعلق ہو کر رہ جاتے، بلکہ انہوں نے ابرہہ پر سنگ باری کی جس کے نتیجے میں یہ لشکر زندہ درگور ہوا، پھر پر ندوں کے جھنڈ کے جھنڈ مکہ شریف آکر اس کثیر فوج کو نوچ کھا گئے۔ بہرکیف قرآن مجید اور تاریخ مکہ کی یہی مدلل ومفصل شہادت ہے کہ اہلِ مکہ کا یہ فیصلہ کہ ابرہہ کا مقابلہ نہ کیا جائے، ان کی تعظیم وتکریم کعبہ پر حرف زنی کرتا ہے نہ ان کی بزدلی یاکم ہمتی پر دلالت کرتاہے بلکہ وہ دل کی عمیق گہرائیوں سے یہ اعتقاد و اعتماد رکھتے تھے کہ رب ِ کعبہ ابرہہ کے مذموم مقاصد کی راہ میں کوئی نہ کوئی سبیل نکا ل لے گا ، یہ اس کی قدرت سے بعید نہیں کہ ابر ہہ کا لشکر نیست ونابود ہوجائے۔ ہو ابھی یہی کہ ایک خدائی معجزہ سے ابرہہ کا قصہ یک قلم تما م ہو ا۔ ابرہہ تو خیرصدیوں پرانا تاریخی واقعہ ہے، کعبہ میں تو چند دہائیاں قبل بھی ایک چشم کشا واقعہ دن کی روشنی میں وقوع پذیر ہوا ۔ بتایا جاتاہے کہ الجزائر کے رہنما بن بیلا کعبہ شریف تشریف آور ہوئے، سعودی حکومت کو بعض حساس نوعیت کی رپورٹیں ملی تھیں ، اس لئے موصوف کی سلامتی کے لئے زائرین اور مطوفین کو چند ثانیوں کے لئے مطاف سے پیچھے ہٹادیا گیا۔ا س سے طوافِ کعبہ رک گیا۔ دفعتا کبوتروں کی ٹکڑیاں چاروں طرف سے اڑ اڑ آئیں اور طواف کرنے لگیں ۔ یہ عجیب وغریب منظر دیکھ کر خدامانِ کعبہ ہکابکاہوکر رہ گئے اور فوراً روک ہٹالی کہ بن بیلا سمیت دوسرے لوگوں کاطواف جونہی شروع ہوا کبوتر اپنے ٹھکانوں کی جانب اڑ گئے ۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 353350 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.