ملک میں دہشت گردی

تحریر: نورین چوہدری

سعودی عرب میں نماز جمعہ کے دوران نمازیوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس قبل پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں ہوئیں۔ دونوں طرف شہید ہونے والے مسلمان اور ایک کلمہ طیبہ کے بنیاد پر قائم و دائم رہنے والے ملک کے باسی ہیں۔ ایک دن قبل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو منظر عام پر آئی جسے دیکھ کر رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ویڈیو میں پاکستان پر حملوں کی دھمکی دی گئی ہے۔ جبکہ اس ویڈیو کے پس پردہ بینر پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا واضح دیکھا جاسکتا ہے۔

اسلام ایک نہایت ہی آسان ترین دین ہے مگر افسوس کے ہم نے اسے بہت مشکل بنا دیا ہے۔ قرآن کی تعلیمات اور نبی کریمﷺ کی حیات طیبہ ہمارے سامنے ہے اس کے باوجود ہم نے اپنا اپنا الگ اسلام بنا لیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کو اتنا نقصان کسی غیر مذہب قوم نے نہیں دیا جتنا مسلمانوں نے دیا۔

مسلمان بجائے ایک اﷲ ، ایک نبی اور ایک قرآن کی اطاعت کرنے کے مختلف فرقوں میں بٹ گئے۔ آج ہماری پہچان ہے ہمارا سنی ہونا، شیعہ ہونا، دیوبندی ہونا اور بریلوی ہونا۔ ہم خود ہی فرقہ واریت میں بٹ کر جب ایک دوسرے کے دشمن بن بیٹھے ہیں تو ہمیں کسی بھارت، کسی اسرائیل یا امریکہ کی ضرورت نہیں۔ آج غیرمذاہب مسلمانوں پر ہنس رہے ہیں۔ ہماری نااتفاقی اور ہماری فرقہ واریت ہمارا مذاق بنی ہوئی ہے۔ علامہ اقبال نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ :
یوں تو سید بھی ہو ، مرزا بھی ہو ، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
کہیں فرقہ بندی ہے اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہم کیوں تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں ؟ کبھی ہم نے اپنے ذاتی مفاد سے آگے بڑھ کر بحیثیت مسلمان قوم اپنے اجتماعی کردار کے بارے میں سوچا؟ ہم اس ہدایت کو بھول گئے ہیں جو ہمیں ان الفاظ میں ہوئی تھی ’’ او ر اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو او ر تفرقہ نہ کرو‘‘۔ ہم لوگ نماز میں ہاتھ اٹھانے یا نہ اٹھانے، ٹخنے ننگے کرنے یا نہ کرنے اور ظہرین پڑھنے یا نہ پڑھنے کے جھگڑے میں پڑے ہیں۔
 
اگر ایک فرقے کا کوئی فرد دوسرے فرقے کا کوئی طریقہ اختیار کر لے تو وہ کافر مگر پورے معاشرے کے تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے لوگ جب ہندوستانی اور مغربی تہذیب پر چلتے ہیں تو کوئی کافر نہیں ہوتا نہ کوئی فتویٰ لگتا ہے ایسا کیوں ؟ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ سب سے پہلے ہم مسلمان ہیں ، ہم نے دنیا میں اسلام کا اصل چہرہ اپنے ہاتھوں سے مسخ کیا ہوا ہے اس کے باوجود ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور جو ہماری مرضی کے طریقے پر نہیں چلتا اُسے نہ صرف ہم اسلام سے خارج کر دیتے ہیں بلکہ واجب قتل بھی سمجھتے ہیں ۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ یہ ہم کس راستے پر چل پڑے ہیں، یہ کون سا اسلام ہے جس پر آج ہم عمل پیرا ہیں، کیا ایسا اسلام ہمارے لیے راہِ نجات بن سکتا ہے اور ہم دنیا کے دوسرے مذاہب کو اسلام کا یہی چہرہ دکھا رہے ہیں۔

اس وقت ہم ناجانے کس دشمن کے ہدف پر ہیں جو ہمیں چن چن کر نشانہ بنارہا ہے۔ اس لیے خدارا اپنی حیثیت کو سمجھیں اور فرقہ فرقہ ہونے نفرتیں پھیلانے کی بجائے ایک اسلام کے جھنڈے کو مظبوطی سے تھامیں تاکہ ہم اپنے حقیقی دشمن کو پہچان سکیں وہ دشمن جو ہمیں چن چن کر ہدف بنا رہاہے۔ کیا ہی عجیب بات ہے کہ دشمن ہم سب کو ایک مسلم سمجھ کر نشانہ بناتا کہ جب کہ ہم ایک دوسرے کے دست و گریباں ہو جاتے ہیں وہ حقیقت جسے ہم نہیں سمجھ پارہے وہ ہمارا دشمن سمجھتا ہے اور وہ حقیقت یہ ہے کہ ہم سب مسلمان ہیں اور پاکستانی ہیں۔
Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1028146 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.