گورنری کے لوازمات!

 گورنر پنجاب جناب رفیق رجوانہ نے اطلاع دی ہے، کہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف عوام میں اپنی حیثیت کھو چکی ہیں، مسلم لیگ کی مقبولیت کی وجہ سے بہت سے چیئرمین اور کونسلر مسلم لیگ میں شامل ہورہے ہیں۔ انہوں نے سکولوں کو سکیورٹی کو بہتر کرنے اور تعلیم اور صحت کے لئے نئے منصوبوں کی بھی خوشخبری سنائی۔ گورنر کو وفاق کا نمائندہ تصور کیا جاتا ہے، گورنر صدر پاکستان کا نمائندہ ہوتا ہے، اور صدر سربراہِ مملکت کہلاتا ہے۔ ظاہر ہے اس صورت میں وزیراعلیٰ حکومت کا نمائندہ ہوتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان میں صدر وفاقی حکومت کے تابع ہوتے ہیں، انہیں حکومت ہی نامزد کرتی اور الیکشن میں کامیاب کرواتی ہے۔ تاہم گورنر کے لئے کسی ووٹنگ وغیرہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ براہِ راست حکومت کی مرضی سے گورنر ہاؤس کی رونق بڑھاتے ہیں۔ ایک تو گورنر کے پاس اختیارات نامی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ صرف نام اور پروٹوکول کے مزے ہوتے ہیں، جب تک کوئی گورنر اپنی سیاسی حکومت کی خوشنودی کے لئے کام کرتا رہے گا، تب تک وہ اپنی حیثیت قائم رکھ سکتا ہے، جونہی اس نے کوئی پر پُرزے نکالنے شروع کئے، اس کو فارغ کر کے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ گورنر کا عہدہ غیر سیاسی کہلاتا ہے، وہ عملی سیاست میں مداخلت نہیں کرتا، نہ ہی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتا ہے، مگر اپنے ہاں یہ رواج بھی نہیں۔ اپنے موجودہ گورنر بھی روایت کو قائم رکھتے ہوئے خود کو مسلم لیگ ن کا کارکن قرار دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے، بلکہ وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ وہ خود کو پارٹی کا کارکن اور قیادت کا ادنیٰ خادم قرار دیں گے تو ان کی نوکر ی قائم رہے گی، بصورت دیگر وہ بھی سابق گورنر کی طرح فارغ کردیئے جائیں گے۔

گورنر عہدے کے لحاظ سے زیادہ مصروف آدمی نہیں ہوتے، انہیں بعض دستاویزات وغیرہ پر دستخط کرنے کے علاوہ کوئی خاص کام نہیں کرنا پڑتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہیں دستخط کرنے یا کوئی منظوری وغیرہ دینے کے لئے نہ خود سے سوچنا پڑتا ہے اور نہ ہی کوئی مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں، بلکہ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ گورنر کو ہر کام آسان کرکے دیا جاتاہے۔ اسی لئے ایسے لوگوں کو گورنر کے لئے آگے لایا جاتا ہے جو نہ تو زیادہ سوچ بچار کے چکر میں پڑیں اور نہ ہی زیادہ بھاگ دوڑ کی فکر کریں۔ ان کے چونکہ اختیارات نہیں ہوتے اس لئے وہ خود کو مصروف رکھنے کے لئے پریشان ہوتے ہیں۔ عموماً گورنر کا عملہ ان کی یہ پریشانی دور کردیتا ہے، وہ ہر روز صبح جہاں گورنر کے لئے واک، ورزش، طبی ناشتہ، ملاقاتوں، میٹنگز وغیرہ کی فہرست مرتب کرتا ہے، وہی انہیں بتایا جاتا ہے کہ فلاں فلاں تقریب میں بھی جانا ہے، یا فلاں تقریب گورنر ہاؤس میں ہی منعقد کرنا ہے۔ یوں رات گئے تک گورنر صاحب کو فرصت نہیں ملتی، یوں وہ فارغ ترین فرد کی بجائے مصروف ترین عہدیدار قرار پاتے ہیں۔

جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ گورنر زیادہ مصروف نہیں ہوتے، اس لئے سرکاری طور پر انہیں مصروف کردیا جاتا ہے۔ پھر بھی اگر کبھی موسم کی خرابی کی وجہ سے وہ باہر نہ نکل سکیں، یاسفر ممکن نہ ہو ، یعنی کوئی تقریب وغیرہ نہ سجائی جاسکے تو گورنر کے لئے کوئی ملاقات ہی تیار کردی جاتہ ہے۔ جہاں انہیں کچھ مصروفیت مل جاتی ہے۔ اس ملاقات کو خبر کی صورت میں میڈیا کے لئے جاری کردیا جاتا ہے۔ اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو میڈیا کو خبر دینے کے لئے صاحب کا مستعد عملہ بھر پور تیاری اور مہارت کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ میڈیا کے لئے ایسا پالیسی بیان دے دیا جاتا ہے، جو حسبِ حال بھی ہوتا ہے اور حکومت کی خوشنودی کا سامان بھی لئے ہوئے ہوتا ہے۔ قطعاً ضروری نہیں ہوتا کہ گورنر کو بھی اس بیان کا علم ہو کہ انہوں نے دیا ہے یا نہیں، آخر وہ عملہ کس کام کی تنخواہ لیتا ہے؟ موجودہ گورنر چونکہ اس عہدہ جلیلہ پر متمکن ہونے سے قبل ایوانِ بالا کے معزز رکن تھے، ظاہر ہے سینٹ کا ممبر اسی کو بنایا جاتا ہے، جو حکومت کا خاص آدمی ہو، مگر الیکشن میں اس کی کامیابی کے امکانات نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ گورنر صاحب اپنی اس اہم سیٹ کی بقا کے لئے وہ تمام لوازمات کو نگاہ میں رکھتے ہیں، جن سے ان کی مدت ملازمت کو طول مل سکے۔ رجوانہ صاحب کو چاہیے کہ وہ کراچی جانے کا کوئی بندوبست کریں اور گورنر سندھ سے وہ گیدڑ سنگھی حاصل کرنے کی کوشش کریں جس سے تاحیات گورنری ملنے کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں، سیاسی خوشنودی بھی نہیں کرنا پڑے گی اور کام بھی بن جائے گا۔ امید ہے گورنر رجوانہ پہلی فرصت میں یہ کام کریں گے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 429713 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.