نئی نسل۔۔۔عزیر بلوچ کی گرفتاری۔۔۔؟

 ایک نئی صدی میں نوجوانوں کی پہلی فصل تیار کھڑی ہے یو یوں فرض کر لیں کہ نوجوانی کا آغاز پندرہ سال کی عمر میں ہوتا ہے اور زندگی کے اس شخصیت ساز عہد کو اتنے ہی یعنی پندرہ سال کی مہلت ملتی ہے سو اب اکیسویں صدی کی پہلی نسل جوان ہو چکی ہے ،اور اگر ہم اس میں ان افراد کو بھی شامل کر لیں جو ابھی تیس سال کے نہیں ہوئے یعنی جو ابھی جوان ہیں تو آبادی کا ایک بڑا حصہ اس دائرے میں شمار کیا جائے گا جبکہ اعداد و شمار کے مطابق ایک چوتھائی آبادی ان افراد پر مشتمل ہے جو پندرہ سال کے ہو چکے ہیں اور یہ بات کہ موجودہ نسل تاریخ کی سب سے کوش قسمت نسل ہے آج کی دنیا حیرت انگیز ایجادات کی معمور ہے تیسری دنیا کے ممالک کے وسائل میں اضافہ ہوا ہے جبکہ صحت اور تعلیم کی سہولتوں نے پورے منظر نامے کو تبدیل کر دیا ہے ،ٹیکنالوجی نے پوری دنیا کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے معاشرے میں جیتنے جمہوری اور آزاد آج ہیں پہلے کبھی نہیں تھے لیکن ان تمام باتوں کا مطلب یہ نہیں کہ آج کی نوجوان نسل سکھ اور چین کی بانسری بجانے کی پوزیشن میں ہے یا یہ کہ اس کے سامنے آزمائش اور خطرات کے پہاڑ نہیں کھڑے ہیں نوجوانوں کو شناخت ہی ان کا وصف ہے کہ وہ اپنی خوہشات اور تصورات کے مطابق دنیا کو موجودہنوجوان کس طرح اور کتنا تبدیل کر سکتے ہیں ۔۔۔۔راقم کے لئے دو خبریں اہم ہیں ایک جامعہ حفصہ کے گرد سیکورٹی اداروں کا حصار اور اہم بریکنگ نیوز کہ قتل ،اقدام قتل،بتھہ خوری ،اغواء برائے تاوان اور لیاری گینگ وار کا سرغنہ عزیر بلوچ شہر میں داخلے کی کوشش کے دوران کراچی کے مضافات سے گرفتار رینجرز نے نامعلوم مقام پر منتقل کر کے تفتیش شروع کر دی ہے عدالت نے نوے روز کے لئے جسمانی ریمانڈ پر دے دیا سیاستدانوں کی پشت پناہی اور کئی پردہ نشینوں کے نام منظر عام پر آئیں گے پیپلز پارٹی کے لئے مزید مشکلات بڑھ گی ہیں لیاری گینگ وار کا سر غنہ 50سے زاہد مقدمات میں مطلوب تھا سر کی قیمت ایک کروڑ روپے مقرر تھی ۔۔۔رینجرز کے ذرائع کے مطابق دوران تفتیش عزیر بلوچ نے اعلی حکومتی عہدوں پر فائز افراد کے بارے میں انکشافات کرتے ہوئے بتایا کہ گھاس منڈی میں چلنے والے جوئے اور سٹے کے اڈے سے کروڑوں روپے کی آمدنی ہوتی تھی جبکہ جوئے کے اڈوں کی سرپرستی اعلی پولیس افسران کرتے تھے جس کا ایک بڑا حصہ آمدن کا انکو جاتا تھا عزیر بلوچ کے مطابق کراچی کے چند پولیس اہلکار باقاعدہ لیاری گینگ وار کے لئے کام کرتے تھے جس کے لئے وہ منہ مانگی قیمت وصول کرتے تھے ارشد پپو کو جب دیفنس کے عالقے سے اغواء کیا گیا تھا تو ایس ایچ او کلاکوٹ ،جاوید بلوچ اور امان اﷲ نیازی جیسے افسران باقاعدہ پولیس وین کو ساتھ لیکر جاتے تھے ارشد پپو کو اس کے بھائی سمیت وہاں سے اغواء کر کے لیاری لایا گیا تھا جہاں اس کی لاش کے ٹکڑے کر کے نالے میں بہا دیا گیا تھا۔۔۔۔۔سابق پیپلز پارٹی کے راہنما اور قومی اسمبلی کے رکن نبیل گبول کا کہنا ہے کہ عزیز بلوچ کو چھ ماہ پہلے گرفتار کر لیا تھا گزشتہ رات اسلام آباد سے کراچی لایا گیا ہے گرفتاری کی تصاویر کراچی ائیر پورٹ ٹرمینل ون پر جھاڑیوں کے قریب لی گئیں ہیں عزیر بلوچ نے شرجیل میمن کے خلاف بیان ریکارڈ کروایا ہے پاکستان کی سیاست میں بڑا بھونچال آنے والا ہے اس کی گرفتاری سے زرداری اور فریال تالپور کی گرفتاری میں اہم کردار ادا کرے گی ۔۔۔۔عزیر بلوچ کے گرفتاری امن و امان برقرار رکھنے کے لئے ضروری تھا اب ہے،جہاں لوٹ مار ہو رہی ہو ،لوگوں کی جان ومال عزت وآبرو محفوظ نہ ہو وہاں کوئی سرمایہ کار اپنا سرمایہ سامنے لانے اور کاروبار میں لگانا کسی طور پر پسند نہیں کرتا ،پاکستان بد قسمتی سے گزشتہ کئی برسوں سے بد امنی کی گرفت میں چلا آرہا ہے کراچی کے صنعت کاروں نے اپنے کارخانے ،فیکٹریاں اور سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنا شروع کردیا تھا 2015ء میں وزیر اعظم نے تمام سیاسی جماعتوں کے راہنماؤں کا اجلاس بلوایا اور امن کی کی زبوں حالی پر غور کیا گیا جس کے بعد نیشنل ایکشن پلان کی کراچی میں امن آپریشن کی منطوری دی گئی ۔۔۔۔۔بھتہ خوروں ،ٹارگٹ کلرز اور مارکیٹں بند کرانے والوں کے خلاف رینجرز کا آپریشن جاری ہے اور جس کے اب تک نتائج حوصلہ افزاء ہیں ،اب مارکیٹں وقت پر کھلتی ہیں کسی کا خوف یا ڈر نہیں ۔۔۔۔جبکہ اب ڈر اور خوف ’’بھتہ خوروں ‘‘ کو ہے ۔۔۔۔۔اب غیر ملکی بزنس مین کاروباری بات چیت کے لئے دئبی نہیں بلاتے بلکہ بلاخوف وخطر کراچی آتے ہیں ۔جو کہ بے شک سول و ملٹری قیادت کا آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد ہے جس کے دور رس نتائج برآمد ہو رہے ہیں،۔ہم تاریخی اور جغرافیائی طور پر کسی خلائی سیارے کی مخلوق نہیں ہیں ،ہماری زبانوں ،افکار اور رہن سہن پر دوسری قوموں کے گہرے اثرات ہیں ،جدیدیت اور قدامت کی آوازیں اس دھرتی کی تصویر کا حصہ ہیں ۔۔۔۔ہمیں ایک دوسرے کی سوچ اور طور طریقوں کو اجنبی اور ناقابل قبول قرار دینے کی روش کو چھوڑ کر غور کرنا چائیے کہ ہم رواداری کی ثقافت اور معاشی ترقی کو کیسے یقینی بنا سکتے ہیں ،معیشت کی منطق ناقابل مزاحمت ہوتی ہے اور اس کی بنیادٹھوس حقائق پر ہوتی ہے ،ہمیں معیشت کو نظریاتی واہموں کا اسیر بنانے سے گریز کرنا چائیے ،اقتصادی راہداری کا راستہ معیشت کی طرف جا رہا ہے کھوکھلے سیاسی نعروں اور نا انصافی پر مبنی معاشرت کی موجودگی میں معیشت کے امکانات کو برؤے کار نہیں لایا جا سکتا ہے۔

دوسری طرف وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی زیر صدارات اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ پیپلزپارٹی کو نہ ہی دیوار سے لگایا جائے گا اور نہ ہی کراچی امن آپریشن کے معاملے پر کوئی سمجھوتا ہو گا ۔
Dr M Abdullah Tabasum
About the Author: Dr M Abdullah Tabasum Read More Articles by Dr M Abdullah Tabasum: 24 Articles with 16168 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.