کیا افغانستان میں بازی پلٹنے والی ہے؟

پچھلی تین دہائیوں سےعالمی طاقتوں نے اپنے مفادات کے حصول کے لئے افغانستان پرجوجنگ مسلط کی تھی اب اس کے خطرناک نتائج ان کے اپنے گھروں کوخاکسترکرنے کیلئے ان کے تعاقب میں ہے۔اس جنگ نے جہاں ان ممالک کواقتصادی طورپر دیوالیہ کے قریب پہنچادیا ہے وہاں اسی ناجائز جارحیت کے نتیجے میں متاثرین نے اپنی مکمل تباہی کا بدلہ لینے کیلئے مختلف گروہوں کی شکل میں خودکش حملوں کواپنی منزل قراردیکران کے گھروں کے اندر دستک دینی شروع کردی ہے جس سے اب ان ملکوں کے اندرہائی الرٹ نے ان کی نیندوں کو حرام کررکھاہے اورزمینی وسائل کی فوقیت کے باوجود عجیب و غریب قسم کی سراسیمگی میں مبتلاہیں ۔مستقبل کے خدشات کے پیش نظر امن مذاکرات کیلئے چارملکوں کی سٹیئرنگ کمیٹی دن رات کوشاں ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے افغان طالبان کوامن مذاکرات کی میزپر لایاجائے لیکن امریکا اوراس کے اتحادیوں کی عہدشکنی کی پرانی روایات اب ان کے گلے کی ہڈی بن چکی ہیں۔

یوں تواس خطے میں افغان امن مذاکرات میں پاکستان کی دلچسپی اس لئے بھی بہت اہم ہے کہ خودپاکستان کاامن افغانستان سے جڑاہواہے ۔یہی وجہ ہے کہ حالیہ چار ملکوں کی سٹیئرنگ کمیٹی کے امن مشن کادارومداراورامیدیں بھی پاکستان سے وابستہ ہیں۔اسی سلسلے میں اس کمیٹی کاپہلااجلاس اسلام آباداور اب دوسرا کابل میں منعقدہواہے ،تاہم طالبان ان دونوں اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ یوں پیش رفت اورروڈمیپ کی باتوں کے سوامذاکرات آگے نہیں بڑھ سکے اورموجودہ حالات میں طالبان کوامن مذاکرات کی میز پر لانا بطاہرانتہائی کٹھن اورمشکل معلوم ہورہاہے البتہ طالبان نے اپنی شرائط سے سب کوآگاہ کررکھاہے۔طالبان کی جانب سے ذرائع ابلاغ کوبھیجے گئے مراسلے میں کہاگیاہے کہ ۲۰۱۴ء کے آخری دنوں میں امریکانے اعلان کیاتھاکہ ان کاجنگی مشن اختتام کوپہنچ گیاہے ،اس کے بعدامریکی افواج افغان جنگ میں حصہ نہیں لیں گی بلکہ امدادکانیامرحلہ شروع ہوگا۔اس وقت بھی لوگوں کوامریکاکی نیت پر شک تھااورافغانوں کی اکثریت امریکی وعدوں کودھوکے پرمبنی اسٹرٹیجی کی نظرسے دیکھتی تھی کیونکہ اکتوبر۲۰۰۱ء کو افغانستان پرامریکی جارحیت کے موقع پربھی ایساہی کہاگیاتھاکہ تحفظ ،تعمیرنواوراستحکام افغانستان میں لایاجائے گالیکن ایک بار پھر امریکانے وعدوں کے برخلاف جنگ شروع کردی ہے۔ہلمندمیں طالبان کے خلاف لڑائی میں حصہ لینااس بات کاغمازہے کہ امریکانئی جنگ شروع کرناچاہتاہے جبکہ مزید پانچ سوتازہ دم فوجیوں کوافغانستان میں بھجوانے کا بھی اعلان کیاگیاہے۔ امریکا کے متضاد بیانات نے مذاکرات کے مرحلے کومشکوک بنادیاہے کیونکہ امریکا اب بھی افغانوں کی گھرگھر تلاشی لے رہے ہیں اور افغانوں کواپنے فیصلے خود نہیں کرنے دیئے جارہے،اس لئے طالبان کایہ پیغام ہے کہ امریکاکوشکست فاش تک مذاکرات کے کسی بھی جھانسے سے گریزکیاجائے گا۔افغان اپنی سرزمین کے دفاع کے عزم صمیم پراب بھی پہلے دن کی طرح قائم ہیں اورافغانوں کو مکمل اسلامی نظام کے علاوہ کچھ اورقطعاًقابل قبول نہیں، استعمارکاخاتمہ اور اسلامی نظام کا قیام صلح بھی ہے اورامن بھی ، اس لئے طالبان کی شرائط کو ماننے سے خودبخود مذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں۔

افغانستان میں امن کے قیام اوراعتمادسازی کیلئے افغانستان ،پاکستان،امریکا اور چین کے کوارڈی نیشن گروپ(کیوسی جی )کی کابل میں ہونے والی دوسری مجلس میں طالبان کے تمام گروہوں کوکہاگیاہے کہ وہ افغان حکومت سےمذاکرات کریں۔چہارفریقی گروپ کیوسی جی کی میٹنگ کے اختتام پرجاری ہونے والے اعلامیے میں طالبان سے مطالبہ کیاگیا کہ وہ ملک میں دائمی امن کیلئے افغان حکومت کے ساتھ اپنے اختلافات سیاسی طریقے اورافغان عوام کی خواہشات کے مطابق حل کریں۔مذاکرات میں امن کے روڈمیپ پربھی پیش رفت ہوئی ۔اعلامیہ کے مطابق روڈمیپ میں اس بات پرزوردیاگیاکہ ایسی فضاء پیداکی جائے جس سے افغانستان کی سربراہی میں حکومت اورطالبان کے درمیان امن مذاکرات شروع کرائے جا سکیں،جس کامقصدافغانستان اورخطے میں تشددکاخاتمہ اور دائمی امن پیداکرناہو۔ان مذاکرات میں افغانستان کے نائب وزیرخارجہ حکمت خلیل کرزئی، پاکستان کے خارجہ سیکرٹری اعزازاحمد چوہدری،امریکامیں افغانستان کے سفیرمائیکل میک نیلی اورافغانستان میں چین کے خصوصی ایلچی ڈینگ عی جنگ نے حصہ لیا۔کیوسی جی میں فیصلہ کیا گیا کہ گروپ کی اگلی میٹنگ۶ فروری کواسلام آبادمیں ہوگی۔اس سے پہلے افغان وزیرخارجہ صلاح الدین ربانی نے امید ظاہرکی تھی کہ کابل مذاکرات کا نتیجہ مثبت نکلے گا۔ صلاح الدین ربانی نے طالبان سے مطالبہ کیاکہ وہ امن پیغام قبول کرکے مذاکرات کی میزپر آئیں، کیونکہ وہ جتنی تاخیرکریں گے اتناہی افغانستان کے عوام ان سے متنفرہوں گے۔

دوسری جانب طالبان نے ہلمندکامکمل کنٹرول اورہلمندکو''نووارزون''قرارددینے کامطالبہ کیاہے۔انہیں شوریٰ اورسیاسی فیصلوں کیلئے مقامی دفترکی ضرورت ہے،اس لئے اگرطالبان کوہلمندکامکمل کنٹرول دیاجائے تومذاکرات میں پیش رفت ممکن ہے جبکہ افغان حکومت کی جانب سے تحریری نکات طالبان کوپہنچادیئے گئے ہیں جس میں جنگ بندی پربہت زور دیاگیاہے تاہم طالبان کے اندرمذاکرات میں عدم دلچسپی نے امریکااورافغان حکومت کوپریشان کردیاہے ۔طالبان ذرائع کاکہناہے کہ امریکااورافغان صدرکی دہمکیوں نے سارے امن ماحول کوخراب کر دیاہے کیونکہ ایک طرف امریکا مذاکرات پرزور دے رہاہے اوردوسری طرف یہ دہمکی بھی دی جارہی ہے کہ جولوگ مذاکرات میں حصہ نہیں لیں گے،ان کو نشانہ بنایاجائے گا۔امریکاکی یہی دہمکی مذاکرات پرآمادگی میں رخنہ ڈال رہی ہے ۔ایسے بیانات پرطالبان سخت ناراض ہیں جبکہ دوسری طرف افغان صدر بھی یہ اعلان کررہاہے کہ تمام طالبان گروپوں کومذاکرات میں شامل ہونا چاہئے جبکہ طالبان کاکہناہے کہ ان کے اندرکوئی گروپ بندی نہیں اوران کابنیادی مطالبہ افغان حکومت حل نہیں کرسکتی کیونکہ افغان حکومت کے پاس کچھ بھی نہیںاسی لئے طالبان امریکاسے براہِ راست مذاکرات کرنا چاہتے ہیں جبکہ امریکا براہ راست مذاکرات سے کترارہا ہے۔امریکاافغانستان میں افغان حکومت کاکندھا استعمال کرکے افغانستان میں مزیدقیام کرناچاہتاہے،تاہم افغان طالبان امریکاکے مزیدقیام کے شدیدمخالف ہیں اورامریکاکامکمل انخلاء ہی افغانستان کے استحکام کاضامن بن سکتاہے ۔طالبان چاہتے ہیں کہ افغانستان سے انخلاء کیلئے امریکاان سے براہِ راست بات کرے کیونکہ افغان حکومت کے پاس یہ طاقت ہی نہیں کہ وہ امریکاکو باہر نکالنے کیلئے دوٹوک مؤقف اختیارکرسکے۔ اس لئے جب طالبان براہِ راست مذاکرات کریں گے تووہ نہ صرف اپنامؤقف کامیابی سے پیش کرسکیں گے بلکہ وہ امریکاکومحفوظ راستہ دینے پربھی بات کرنے کے قابل ہوں گے۔

ادھرافغان فوج میں دن بدن بغاوت کاخطرہ بڑھتاجارہاہے۔سرکاری اہلکاروں کی جانب آئے روزاسلحہ سمیت طالبان سے جا ملنے پر امریکااورافغان حکومت سخت پریشان ہے۔ کابل سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق افغان فوج اورپولیس کے مزید۷۰سے زائد اہلکارہتھیاروں سمیت طالبان سے جاملے ہیں۔ افغانستان کے جنوبی صوبے ارزگان میں ایک افغان پولیس اہلکار نے اپنے۱۰ساتھیوں کوہلاک کر نے کے بعدمتعلقہ چوکی کو آگ لگادی اورہتھیاروں سمیت طالبان سے جا ملا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ارزگان صوبے کے چنارتوڈسرکٹ میں حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی ہے۔ اس صوبے کی سرحد طالبان کے مضبوط گڑھ ہلمند اور قندھارسے ملتی ہے۔گذشتہ ہفتے بھی۴ پولیس اہلکاروں نے ارزگان میں اپنے۹ساتھیوں کو ہلاک اورپھراسلحہ سمیت طالبان میں شمولیت اور نورستان اورہلمندمیں سینکڑوں افغان فوجی اورپولیس اہلکاراپنے ہتھیاروں سمیت طالبان کی صفوں میں شامل ہوچکے ہیں۔

طالبان نے مشرقی اورجنوب مشرقی افغانستان میں افغان فوجیوں اورپولیس اہل کاروں کوطالبان کی صفوں میں شامل کرنے کیلئے رابطے شروع کردیئے ہیں اوراس حوالے سے باقاعدہ دعوت وارشاد کمیشن بھی قائم کردیاگیاہے۔یہ کمیشن سیکورٹی اہلکاروں کواس بات پرقائل کررہاہے کہ طالبان افغان قوم اورافغان فوج کے دشمن نہیں بلکہ وہ توصرف غیرملکی افواج سے افغانستان کی سرزمین کو آزادکرواناچاہتے ہیں اور امریکی فوج کے انخلاء کے بعد پولیس اورفوج کے اہل کاروں کوبرطرف نہیں کیاجائے گاالبتہ بھارتی فوجیوں کوکسی قسم کی کوئی رعائت نہیں دی جائے گی۔معتبرذرائع کے مطابق فوجیوں کی طالبان کی شمولیت کی خبروں سے افغان سیکورٹی اداروں،بھارتی را،نیٹواورامریکی حکام کے اندر سخت کھلبلی مچ گئی ہے۔اگریہی حالات رہے توآئندہ چندہفتوں میں اہم تبدیلیوں کا امکان ہے!

عالمی جریدے ڈپلومیٹ کے مطابق بھارت نے جہاں اشرف غنی حکومت کوچار سوفوجی ٹرک اورگاڑیاں دینے کابھی اعلان کیاہے وہاں انڈین ایئرفورس کے چار روسی ساختہ ایم آئی ٣٥گن شپ ہیلی کاپٹروں نے٢٠جنوری کوکابل کے نواح امریکی فوجی اڈے سے پروازکرتے ہوئے ہلمندمیں طالبان پرحملوں میں حصہ لیاہے ۔ادھروزارتِ دفاع کاکہناہے کہ بھارتی فضائیہ کی جانب سے طالبان کے خلاف کی جانے والی کاروائیوں کاافغان حکومت اورامریکی حکام کی طرف سے خیرمقدم کیاگیاہے جبکہ امریکی کانگرس کی ہاؤس آرمڈسروس کمیٹی کے سامنے افغانستان میں امریکی عسکری کمانڈرجنرل جان کیمبل نے بھی بھارتی ہیلی کاپٹر کی جانب سے طالبان کے خلاف ہلمندمیں فضائی کاروائی پراطمینان کااظہارکیا ہے۔کابل میں تعینات بھارتی دفاعی اتاشی سوجیت نارائن کا کہناہے کہ بھارت نے افغان حکومت سے کیاگیاوعدہ پوراکرتے ہوئے طالبان کے خلاف جنگ میں اہم کرداراداکرناشروع کردیاہے۔دوسری جانب بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی اور افغان چیف ایگزیکٹوعبداللہ عبداللہ نے ایک انتہائی اہم معاہدے پردستخط کئے ہیں جس کی روسے سفارتی شناخت کاکوئی بھی بھارتی یاافغان کابل سے دہلی تک سفرکیلئے ویزے سے مستثنیٰ قراردے دیاگیاہے،جس کے بعدیکم فروری کے بعد سینکڑوں کی تعدادمیں بھارتی فوجی اہلکارکابل پہنچ گئے ہیں۔

اس ضمن میں افغان ایئرفورس کے کمانڈرعبدالوہاب وردک کاکہناہے کہ بھارتی انسٹرکٹرنے افغان پائلٹوں کوایم آئی ٣٥اڑانے کیلئے تربیتی عمل کاآغازکردیا ہے۔ اس حوالے سے کابل حکام نے اس بات کوجواب دینے سے گریزکیاکہ ہلمندمیں طالبان پرفضائی حملے بھارتی پائلٹوں نے کئے۔دوسری طرف عالمی تجزیاتی ویب سائٹ ''وارآن دی روک''نے انکشاف کیاکہ ماضی میں٣٤رکنی اتحادی افواج میں شمولیت سے گریزاں بھارتی فوج اب طالبان کے خلاف عملی جنگ میں کود پڑی ہے،جس کی وجہ پاکستان کی مغربی سرحدوں پر دباؤبڑھاناہے۔ویب سائٹ کے تجزیہ نگارمائیکل کوگل مین نے لکھاہے کہ بھارتی وزیر اعظم افغان فوج کوجدیداسلحے سے لیس کرناچاہتے ہیں کیونکہ مودی کوخوف ہے کہ مسلسل فتوحات حاصل کرنے والے افغان طالبان کونہ روکاگیاتوان کا اگلانشانہ بھارت ہو سکتاہے اوردوسراپاک افغان تعلقات میں مزیدخرابی پیداکرکے اس جدید اسلحے سے پاکستان کی سرحدوں پرمزیددباؤبڑھایاجائے،اسی لئے بھارتی حکومت نے کابل کو٤٠٠فوجی ٹرک اوربکتربندگاڑیوں کے علاوہ افغان افواج کومشین گنوں، راکٹ لانچروں اورکمیونی کیشن آلات بھی مہیاکئے ہیں۔افغان تجزیہ نگاروں کے مطابق حالیہ بھارتی اقدامات عین امریکی اورموجودہ افغان حکومت کی دیرینہ خواہش کے مطابق ہیں اوریہ امریکا کی طرف سے اس خطے میں ایک واضح پیغام دیاگیاہے کہ بھارت مستقبل میں اس علاقے کاتھانیدارہوگالیکن یہ بھول گئے کہ جہاں دنیاکی دوسپرطاقتیں رسواہوکر بھاگنے پرمجبورہوگئیں کیا اب وہاں بھارت کے ٹکڑے ہونے کاوقت آن پہنچاہے!
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 353341 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.