پاکستان کو امریکی ایف سولہ کی فراہمی

امریکہ میں کانگریشنل ریسرچ سروس کی ایک حالیہ دستاویز کے مطابق 2002 سے اب تک واشنگٹن حکومت اسلام آباد کو 15بلین ڈالر سے زائد کی امداد جاری کر چکی ہے، جس میں سے دوتہائی سکیورٹی امور کے لئے تھی۔ امریکی حکومت لائق تحسین ہے کہ بھارتی لابی اور اس کے زیر اثر پاکستانی حسین حقانی جیسے لوگوں کی بھرپور مخالفت کے باوجود پاکستان کو آٹھ ایف سولہ طیاروں اور دیگر آلات کی فروخت کا حتمی فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے پاکستان میں استحکام کے لئے اس قانونی کی منظوری پر زور دیا تھا۔ ایٹمی ہتھیاروں کا حامل ملک پاکستان افغانستان میں جاری جنگ کے حوالے سے واشنگٹن کے لئے انتہائی اہم ہے۔امریکی صدر باراک اوباما کو ملکی سینیٹ کی جانب سے پاکستان کے لئے امدادی بل کی منظوری کی خبر جمعرات کو تب ملی، جب وہ نیویارک میں تھے۔ انہوں نے اس کا اعلان 'فرینڈز آف ڈیموکریٹک پاکستان' کے اجلاس میں کیا، جہاں موجود 26 ملکوں کے رہنماں نے اس کا خیرمقدم کیا۔ اس قانون کو سینیٹر جان کیری اور رچرڈ لوگر جبکہ ایوان نمائندگان کے رکن ہاورڈ برمین نے اسپانسر کیا تھا۔ اس بل کو اوباما انتظامیہ کے اہم ارکان کی حمایت بھی حاصل ہے۔ جمعرات کو اس کی منظوری وائس ووٹ کے ذریعے دی گئی تاہم بھارت نے امریکا کی جانب سے پاکستان کو ایف 16 جنگی طیارے فروخت کرنے کی منظوری دیے جانے پر امریکا سے احتجاج کیا ہے ، وزارت خارجہ نے نئی دہلی میں تعینات امریکی سفیرکوطلب کرکے احتجاج ریکارڈکرایا۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوروپ نے ٹویٹ کیاکہ ہم پاکستان کو ایف 16 طیارے فروخت کئے جانے کے سلسلہ میں اوباما انتظامیہ کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری کئے جانے کے فیصلے سے سخت مایوس ہوئے ہیں،بھارت امریکا کے اس خیال سے اتفاق نہیں کرتا کہ ان طیاروں کی فروخت سے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں مدد ملے گی جبکہ گزشتہ کئی سالوں کا ریکارڈ خود اپنی کہانی بیان کرتا ہے ۔ بھارتی خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق وزارت خارجہ نے دہلی میں تعینات امریکی سفیر کوطلب کر کے پاکستان کو ایف 16 جنگی طیارے فروخت کرنے کے فیصلے پراپنی ناراضی ظاہر کی۔سیکرٹری خارجہ ایس جے شنکرکی طرف سے امریکی سفیررچرڈ ورماکوتھمائے گئے احتجاجی مراسلے میں کہاگیاکہ پاکستان کوامریکا کی جانب سے ملنے والے یہ طیارے دہشتگردی کیخلاف نہیں بلکہ بھارت کیخلاف استعمال ہونگے ۔ بھارت نے امریکا سے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کو مالی امداد فراہم نہ کی جائے ،بھارت نے الزام لگایا کہ پاکستان کو دی جانے والی امداد بھارت کے خلاف براہ راست استعمال ہو گی۔ وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوروپ نے کہا کہ بھارت نے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کو26کروڑ کی فوجی امداد سمیت86کروڑ ڈالر کو روکا جائے ۔انہوں نے کہاکہ ہم نے کئی مواقع پر امریکا پر واضح کیا کہ ایسی تمام امداد بھارت کے خلاف سرگرمیوں میں استعمال کی جاتی ہے ۔واضح رہے کہ اوباما انتظامیہ نے پاکستان کو 8 ایف سولہ طیاروں کی فروخت کی منظوری دیتے ہوئے امریکی کانگریس کو اس حوالے سے بتایا کہ منصوبے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے ۔ دوسری طرف بھارتی میڈیا نے بھی ایف 16 طیارے دینے کے امریکی فیصلے پر پاکستان کیخلاف بے بنیا پروپیگنڈا مہم شروع کر رکھی ہے ۔

دوسری طرف پاکستان کے دفتر خارجہ نے بروقت اور برحق بات کی ہے کہ بھارت دنیا میں سب سے زیادہ دفاعی سامان درآمد کرنے والا ملک ہے۔ پاکستان کسی بھی ملک کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا لیکن اپنے دفاع سے غافل بھی نہیں رہ سکتا۔ پاکستان کا یہ موقف قطعی قابل فہم اور حقائق کے عین مطابق ہے۔ پاکستان اور بھارت کی فوجی طاقت، ہتھیاروں کے ذخائر، دفاعی بجٹ، رقبے، آبادی اور قدرتی وسائل میں جتنا بڑا فرق ہے اس کے بعد بھارت کا یہ موقف کہ اسے پاکستان سے جارحیت کا خطرہ ہے جس قدر مضحکہ خیز ہے وہ محتاج وضاحت نہیں۔ البہ بھارت نے آزادی کے بعد ہی سے خطے میں ہتھیاروں کی جو دوڑ شروع کررکھی ہے اور پاکستان ہی نہیں دوسرے کئی پڑوسی ملکوں کے خلاف جس طرح جارحانہ کارروائیاں کی ہیں وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھارت نے خفیہ سازشوں اور فوجی کارروائی کے ذریعے جو کردار ادا کیا اس کا فخریہ اظہار وزیر اعظم مودی خود اپنے دورہ بنگلہ دیش میں کرچکے ہیں۔ بھارت کی سیاسی اور عسکری قیادت کی جانب سے پاکستان کے خلاف جارحانہ عزائم کا کھلا اظہار آج بھی کیا جاتا رہتا ہے۔ کشمیر پر فوجی طاقت کے بل پر ہی بھارت نے سات دہائیوں سے تسلط حاصل کررکھا ہے۔ خطے سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بھارت پاکستان کی کوششوں میں تعاون کے بجائے دہشت گردی کی کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کرتا چلا آ رہا ہے جس کے شواہد پاکستان عالمی اداروں اور طاقتوں کو بارہا فراہم کرچکا ہے۔
Shumaila Javed Bhatti
About the Author: Shumaila Javed Bhatti Read More Articles by Shumaila Javed Bhatti: 15 Articles with 9771 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.