دھرتی کا قرض؟

گورنر پنجاب رفیق رجوانہ نے جنوبی پنجاب کی محرومیوں کی تصدیق کرتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ یہاں کے لوگوں کا محرومیوں اور مسائل کے حوالے سے مقدمہ سو فیصد درست ہے، انہوں نے خود کو اس دھرتی کا مقروض قرار دیا اور محروم علاقے کو یہ خوشخبری بھی سنائی کہ میں یہ قرض اتارنے کی بھر پور کوشش کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ ملتان سے تھوڑا سا آگے چلے جائیں تو انسان اور جانور ایک ہی جگہ پانی پیتے نظر آتے ہیں، اس سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں، جس سے ہسپتالوں پر مریضوں کا بوجھ بڑھتا ہے، میرا خواب ہے کہ میں علاقے میں صحت کے لئے کوئی پراجیکٹ شروع کرجاؤں، انہوں نے اس کے لئے ٹرسٹ بنانے اور لوگوں سے تعاون کی درخواست بھی کی، محرومیوں کو ختم کرنے کو بھی انہوں نے اپنا خواب قرار دیا۔ ملتان کے نشتر ہسپتال میں ہونے والی اس تقریب میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی موجود تھے۔

رفیق رجوانہ پہلے گورنر نہیں جن کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے، ان سے قبل بھی جنوبی پنجاب کے بہت سے گورنروں نے لاہور گورنر ہاؤس میں قیام کیا ہے اور بہت سی سرکاری دستاویزات پر اپنے دستخط ثبت کرکے انہیں قانون کا درجہ عنایت کیا ہے۔ حکومت کے بہت سے فیصلوں پر بھی بھی مہر تصدیق ثبت کرکے انہیں قانوی شکل دی ہے۔ آئینی لحاظ سے اس عہدہ کی اپنی اہمیت ہے۔ جنوبی پنجاب سے لاہور کے گورنر ہاؤس کے ذریعے حکمرانی کرنے والوں میں نواب امیر محمد خان (کالاباغ)، غلام مصطفےٰ کھر، سجاد قریشی (والد شاہ محمود قریشی) ، سردار ذوالفقار علی کھوسہ، لطیف کھوسہ، مخدوم احمد محمود اور اب رفیق رجوانہ شامل ہیں۔ معاملہ صرف گورنروں تک ہی محدود نہیں رہا، اس سے قبل اسی خطے سے سردار فاروق لغاری کو صدرِ پاکستان ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا ہے، اسی علاقے سے یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بھی رہے ہیں، یہاں سے پاکستان کے وزرائے خزانہ اور وزارئے خارجہ بھی رہے، اسی علاقے سے قومی اسمبلی کو صاحبزادہ فاروق اور یوسف رضا گیلانی کی صورت میں سپیکر بھی میسر آئے۔ ان کے علاوہ بہت سی اہم وزارتوں کے قلمدان بھی اس خطے کے نمائندوں کے پاس رہے اور اب بھی ہیں۔

پہلے تو یہ اندازہ لگانے کی ضرورت ہے کہ جنوبی پنجاب میں محرومیوں کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ کیا یہ ستم مرکزی حکمرانوں نے ڈھایا ہے یا اس کے ذمہ دار جنوبی پنجاب کے سیاستدان خود ہیں۔ اس حقیقت سے انکار تو ممکن نہیں کہ جنوبی پنجاب کو ہمیشہ عہدے ملے۔ مگر یہ ستم بھی کم نہیں کہ زیادہ تر عہدے نمائشی تھے۔ اگر جنوبی پنجاب کو اب کم از کم ساتواں گورنر دستیاب ہے تو یہ عہدہ سو فیصد نمائشی ہے، بس گورنر ہاؤس ہے، پروٹوکول ہے اور دستخط کرنے والی ایک مشین کی ذمہ داری ہے، دستخط بھی ایسے جن میں اپنی مرضی کو بھی کم ہی دخل ہے، جو حکم اوپر سے آگیا، اس پر دستخط کرنا گورنر پر لازم ہے۔ تاہم گورنر کو یہ اعزاز ضرور حاصل ہے کہ وہ صوبہ بھر کی یونیورسٹیوں کا سربراہ ہوتا ہے، چانسلر ہونے کے ناطے وہ خود کو مصروف رکھنے کے لئے یونیورسٹیوں کا دورہ وغیرہ کرسکتا ہے۔ ایسے میں جب کسی اہم مقام پر بیٹھ کر بھی علاقے کے مسائل حل نہیں ہوسکتے تو محرومیاں تو آئیں گی۔ مگر المیہ یہ ہے کہ اس محروم خطے کے سیاستدان بھی اپنے حق کے لئے کوئی جدوجہد نہیں کرتے، جو مل جائے اسی پر قناعت کرلیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وسطی اور بالائی پنجاب کے لوگ سارے فنڈ لے جاتے ہیں اور یہاں کچھ نہیں ملتا۔

جہاں تک خواب دیکھنے کی بات ہے تو گورنر صاحب صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں، کیونکہ گورنر ہاؤس میں بیٹھ کر تعبیر ممکن نہیں، اگر خوابوں میں رنگ بھرنے کی بات ہوتی تو چوہدری سرور بھی صوبہ میں پینے کے لئے صاف پانی کا خواب دیکھتے ہوئے ہی رخصت ہوگئے۔ دوسری طرف گورنر رجوانہ نے یوسف رضا گیلانی کی تعریف بھی کی کہ انہوں نے کسی حد تک خطے کا قرض اتارنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ گیلانی صاحب نے اپنے دور میں پورے جنوبی پنجاب کے بجٹ کا پچاسی فیصد صرف ملتان پر لگا دیا تھا، ملتان بن گیا مگر پورا خطہ پھر بھی محروم ہی رہا۔ گیلانی سرکار نے نہ جانے کونسا قرض اتارا ہے؟ اگرجنوبی پنجاب میں انسان اور جانور ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے ہیں تو اس کی ذمہ داری بھی انہی صدروں، وزیراعظموں، گورنروں اور وزیروں پر عاید ہوتی ہے، جو اپنے دور میں پروٹوکول اور مراعات سے تو لطف اندوز ہوتے رہے مگر محروم خطے کی جانب توجہ نہ فرمائی۔ اب ایک بے اختیار عہدے پر متمکن ہونے کے بعد محرومیاں ختم کرنے کا دعویٰ اور خواب ایک خواہش تو ہوسکتی ہے، عملی طور پر کچھ ممکن نہیں۔ ایسے بیانات محروم عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام دیتے ہیں۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 436132 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.