اوٹِ جمہوریت سے تو ہم امدادی ہیں ہم اُدھاری ہیں اورہم قرضی ہیں

‘‘ اوٹِ جمہوریت سے تو ہم امدادی ہیں ہم اُدھاری ہیں اورہم قرضی ہیں‘‘ ’’کیاقوم کی ترقی قرضوں سے ہے؟ ‘‘
بیشک جمہوریت کی اُوٹ سے قابض گروہ نے مُلک اور قوم کو قرضوں میں جکڑکرسُوکھی روٹی سے بھی محروم کردیاہے

بیشک آج جمہوریت کے اُوٹ سے کچھ شاطراور عیارومکار گروہ نے میرے مُلکی وسائل پر قابض ہوکر مُلک اور قوم کے گلوں میں قرضوں کے ایسے طوق ڈال دیئے ہیں کہ اَب نہ صرف اِس طوق کو قوم کو پہنانے والوں کو اُتارنے کا کوئی خیال ہے اور نہ ہی آنے والے دِنوں، ہفتوں، مہینوں ، سالوں اور صدیوں میں کسی میں اتنی ہمت ہوگی کہ کوئی اپنی حکمت یا دانش سے قوم کے گلے میں پڑے ہوئے قرضوں کے طوق کو کھینچ کر نکال پھینکے اور قوم کو قرضوں کے بوجھ اور عذاب سے نجات دلادے اگرچہ اِن دِنوں موجودہ حکومت جس طرح قوم کو قرضوں کے بوجھ تلے دبارہی ہے یقیناہماری آنے والی نسلیں ن لیگ کے اِس تیسرے اور ٓآخری دورِ اقتدارکو قرضوں کے سیاہ ترین دور سے یاد رکھے گی جس میں نواز حکومت نے قوم کو قرضوں کے بوجھ زندہ درگور کرکے قوم کو صدیوں تک سانس بھی ادھار پر لینے پر مجبور اور قوم کو دووقت کی سُوکھی روٹی سے بھی محروم کردیاہے ۔

جیساکہ گزشتہ ہفتے سندھ مدرستہ اسلام یونیورسٹی میں اپنے اعزا میں دیئے گئے عشایئے سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس انورظہیر جمالی نے بھی کہاتھا کہ’’ بدقسمتی ہے کہ جمہوریت کے نام پرکچھ مخصوص گروہوں نے مُلک کے وسائل پر قبضہ کیا ہواہے عام آدمی کو دووقت کی روٹی ملنا محال ہے مُلک کے قیام کے کچھ عرصے بعد ہی قوم سچے رہنماؤں سے محروم ہوگئی‘‘۔اِن کے اِس کہے میں افسوس اور غم بھی شامل ہے تو وہیں ایک ایساپچھتاوابھی ہے جس پر قوم آج تک رورہی ہے اور نہ جانے کب تک روتی رہے چیف جسٹس پاکستان جسٹس انورظہیرجمالی کے یہ سُنہرے جملے سمجھنے والے محبِ وطن پاکستانیوں کے لئے بہت کچھ ہیں مگر کوئی سمجھ کر بھی نہ سمجھے ایسے شخص کو سوائے بے حس اور خودغرض کے کچھ نہیں کہاجاسکتاہے۔

بہرحال، اِن دِنوں قرضوں کے بوجھ تلے دبی قوم اپنی بقاء و سا لمیت کے خاطرسچے اور مخلص اور ایمانداررہنماؤں کی تلاش میں تو ہے مگر موجودہ حالات میں تو اِسے سوائے مایوسیوں اور نااُمیدوں کے اندھیروں کے کچھ بھی سُجھائی نہیں دے رہاہے۔

اور آج اِسی طرح شاید اِس سے بھی کسی کو انکارنہ ہوکہ میرے پیارے وطن پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے 68سال سے بھی زائدکا عرصہ گزرچکاہے مگر بدقسمتی سے اِس عرصے کے دوران ہمارے یہاں جتنے بھی سِول یا آمر حکمران آتے رہے ہیں اِن سب ہی نے اپنے اردگرد منڈلاتے سیاستدان اور افسرشاہی کی صورت میں اپنے خوشامدی چیلوں کو اپنے ساتھ ملا کر اپنی نام نہاد جمہوریت اور آمریت کی اوٹ سے مُلکی بقاء و سا لمیت اور استحکام اور قوم کی خوشحالی کے نام پر اپنے پراوں سے امداد لیتے رہے مگر درحقیقت یہ لوگ مختلف ذرائع سے بہت سے اندازوں اور زاویوں سے ملنے والی امداد وں کو اپنے ہی اللے تللے کے لئے استعمال کرتے رہے اور مُلک اور قوم کے حصے میں کبھی ایک ڈھیلابھی نہیں آیا یہ ہر بارایساہی کرتے رہے مگر جب اِن لوگوں کا کام اِس سے بھی چلنا مشکل ہوگیااور امداد پرمزے لینے عادی ہوگئے تو اُنہوں نے بسااوقات اپنی بیجا ضرورتوں کو پوراکرنے کے لئے مُلک اور قوم کے بدحالی کے نام پر ادھارمانگنے سے بھی دریغ نہیں کیاجب اِنہیں لوگ اُدھاردینے لگے تو یہ اِس کے بھی عادی بن گئے یوں اُنہوں نے اپنی عیاشیاں قوم اور مُلک کے نام پر ملنے والی امداد اور ادھار اورقرض سے پوری کیں اور عیش وطرب کی اپنی گاڑی چلائی اور اپنے معاملاتِ زندگی آگے بڑھائے ، اِنہیں اپنی عیاشیوں اور ضرورتوں کے آگے مُلکی مسائل اور عوامی پریشانیوں اور بحرانوں کا بھی کچھ پتہ نہیں لگاکہ اِن کی عیاشیوں اور اللے تللے سے مُلک اور قوم پر کیا گزرے گی ؟؟؟ تب تو اِنہیں سب ہراہی ہرانظرآرہاتھا کسی کو یہ خبر بھی نہ تھی کہ مُلک اور عوام کی خستہ اور بدحالی کے نام پر یہ جو امداد مانگتے ہیں اور قرض اور اُدھار مانگ کر خود مزے اُڑاتے ہیں آگے چل کر مُلک اور قوم کو کتنابڑاخمیازہ بھگتناپڑے گا؟؟دراصل برسوں سے مُلک کی ترقی اور قوم کی خوشحالی کے نام پر جمہوریت کی اُوٹ سے ایسے ہی گروہ مُلکی وسائل پر قابض ہیں، جنہیں کچھ پتہ نہیں ہے کہ اِن لوگوں نے اپنی قبیح حرکت کی وجہ سے مُلک اور قوم کا امداد، قرض اور ادھار کے نام پر بیڑاغرق کردیاہے مگر بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہناپڑرہاہے کہ ہمارے حکمرانوں، سیاستدان اور اداروں کے سربراہان سمیت سب کے سب امدادوں ، قرضوں اور ادھار لے کر کھانے پینے اور مزے کرنے کے عادی بن چکے ہیں آ ج جنہیں دیکھ کر ایسالگتاہے کہ جیسے اَب یہ سب لوگ اپنی اِنہی بُری عادتوں کے کئے بغیر اپناایک قدم بھی نہیں اُٹھاسکتے ہیں اور اَب اِن کا اپنے پیروں پر کھڑاہونا بھی مشکل ہوگیاہے۔

اَب اِسی کو دیکھ لیجئے اور سمجھنے کی کوشش کی جیئے کہ مُلک اور قوم کو اپنے وسائل سے ترقی دینے کے وعدے اور دعوے کرنے والی ن لیگ کی حکومت نے اپنے تیسرے دورِ اقتدار میں قوم کو کس طرح امدادوں قرضوں اور ادھاروں میں جکڑدیاہے کہ اَب تو مُلک اور قوم کا اِن کے بغیرسانس لینا بھی دوبھر ہوگیاہے اور گویاکہ میرامُلک اور میری قوم قرضوں پر چلنے کا عادی ہوگئی ہے اوراِس پر یہ کہ جمہوریت کی اُوٹ سے مُلکی وسائل پر قابض نوازحکومت کے وزارتِ خزانہ نے تو دھڑلے سے پچھلے دِنوں قرضوں سے متعلق جو پالیسی رپورٹ جاری کی ہے اِس میں تو اُنہوں نے حد ہی کردی ہے یعنی یہ کہ چوری اور سینہ جوڑی کے باوجود بھی وزارتِ خزانہ کا رپورٹ میں یہ دعویٰ مضحکہ خیز ہے کہ ’’30ستمبر2015ء تک پاکستان پر قرضوں کا حجم 181کھرب تک پہنچ گیا تاہم میڈیارپورٹ کے مطابق وزارتِ خزانہ کی رپورٹ کے حوالے سے یہ نقطہ سامنے آیا ہے کہ پاکستانپر مُلیی اور غیرملکی قرضے مسلسل بڑھ رہے ہیں جن کی وجہ سے ہر پاکستانی ایک لاکھ روپے پندرہ ہزار کے قرض تلے دباہواہے جبکہ پاکستان پر مجموعی قرضہ181کھرب سے بھی تجاوز کرگیاہے‘‘ اَب ایسے میں راقم الحرف حکمران الوقت سے مخاطب ہوکر یہ سوال کرے یا ایسا کہے تو کیا بُراہوگاکہ’’ اوٹِ جمہوریت سے ہم امدادی ہیں ہم اُدھاری ہیں اورہم ایسے قرضی ہیں جِسے لے کر کھانے والے حکمران، سیاستدان اور افسرشاہی گھوڑے اداکرنے کے بجائے اُلٹالیتے ہی چلے جارہے ہیں...اور قوم کو قرضوں کے بوجھ تلے دفن کرکے یہ کیسادعویٰ کررہے ہیں کہ قرضوں سے مُلک اور قوم کی ترقی اور خوشحالی ہے...’’کیاواقعی مُلک اور قوم کی ترقی اور خوشحالی اِسی سے ہے؟ ‘‘۔(ختم شُد)
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 901307 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.