رینجرز کا کراچی آپریشن ناموافق حالات کی پرواہ کئے بغیر آپریشن جاری رکھنے کی ضرورت

سپریم کورٹ میں دائر کیس کی سماعت کے دوران گزشتہ روز سندھ پولیس اور پاکستان رینجرز کی جانب سے متضاد رپورٹیں پیش کی گئیں۔ سندھ پولیس کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور آئی جی پولیس سندھ نے مجموعی طور پر امن و امان کی صورتحال کو بہتر قرار دیا اور کہا کہ شہر میں ہونیوالے جرائم میں نمایاں کمی آئی ہے۔ اسکے برعکس رینجرز کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں کہا گیا کہ سندھ حکومت اور پولیس ٹارگٹڈ اپریشن کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کیس کے بعد رینجرز کو گیارہ پراسیکیوٹرز دیئے گئے مگر محکمہ داخلہ سے اب تک ان کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا۔ صوبائی حکومت کا یہ اقدام رینجرز کے قانونی اختیارات کو محدود کرنے کی کوشش ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ایک سال کے دوران ناقص تفتیش کے باعث گیارہ سو سے زائد ملزمان رہا ہوئے‘ یہ ملزمان سٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں ملوث ہیں جبکہ سانحہ¿ صفورا کا ایک ملزم بھی پولیس کی ناقص تفتیش کے باعث رہا ہو گیا ہے۔ رینجرز کی رپورٹ میں کراچی میں اپنے تھانے قائم کرنے اور تفتیش اور عدالتوں میں چالان پیش کرنے سمیت رینجرز کو ضروری اختیارات دینے کا بھی تقاضا کیا گیا
کراچی میں گزشتہ تقریباً اڑھائی سال سے جاری رینجرز اور پولیس کے مشترکہ ٹارگٹڈ اپریشن سے بلاشبہ کراچی میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے‘ ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ رک گیا ہے‘ بھتہ مافیا کی وارداتوں میں بھی نمایاں کمی آئی ہے اور سٹریٹ کرائمز کی وارداتیں بھی خاصی کم ہوئی ہیں تاہم سندھ کی حکمران پیپلزپارٹی اور اسکی سابقہ حکومتی حلیف ایم کیو ایم متحدہ کے اس اپریشن میں بالخصوص رینجرز کے کردار پر شروع دن سے ہی تحفظات رہے ہیں۔ اگرچہ یہ اپریشن ایپکس کمیٹی سندھ کے ماتحت وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی نگرانی میں ہو رہا ہے تاہم وزیراعلیٰ سندھ متعدد مواقع پر یہ شکوہ کرچکے ہیں کہ بعض کارروائیاں انکے علم میں لائے بغیر اور انہیں اعتماد میں لئے بغیر کی گئی ہیں۔ جب گزشتہ سال رینجرز نے اپریشن کا دائرہ کار بڑھایا اور جرائم پیشہ عناصر کیخلاف کارروائی کے ساتھ ساتھ سرکاری اداروں میں کرپشن اور بے ضابطگیوں کے معاملات کی بھی چھان بین کا آغاز کیا جس میں ایم کیو ایم متحدہ کے بعض عہدیداروں اور کارکنوں کے علاوہ پیپلزپارٹی کے کچھ عہدیداران بشمول ڈاکٹر عاصم حسین بھی قابو میں آئے تو سندھ حکومت اور پیپلزپارٹی کے مرکزی اور صوبائی عہدیداران نے وفاقی حکمران مسلم لیگ (ن) پر چڑھائی شروع کر دی اور ساتھ ہی ساتھ رینجرز کے اختیارات میں توسیع کا معاملہ بھی التواءمیں ڈالنا شروع کر دیا۔ اس پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے مابین بظاہر کشیدگی اور رسہ کشی کی فضا استوار ہوتی نظر آئی تاہم بعض حلقوں کی رائے میں کراچی میں جاری رینجرز کے ٹارگٹڈ اپریشن کا دائرہ وسیع کرنے کے معاملہ پر وفاقی حکمران مسلم لیگ (ن) کو بھی پریشانی لاحق ہوئی اور مسلم لیگ (ن) کے بعض عہدیداران نجی محفلوں میں اس کا اظہار بھی کرتے نظر آئے جبکہ پیپلزپارٹی نے ٹارگٹڈ اپریشن پر تحفظات کا اظہار کرنے کے علاوہ حکمران مسلم لیگ (ن) کیخلاف سیاسی محاذآرائی بھی تیز کردی جس پر حکمران مسلم لیگ (ن) کو مزید پریشانی لاحق ہوئی تو وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خاں نے حکومت سندھ سے رینجرز کے اختیارات میں توسیع کا تقاضا کرتے ہوئے باور کرایا کہ اس سے سندھ حکومت کے انکار کی صورت میں وفاقی حکومت آئین کے تحت خود رینجرز کو اختیارات تفویض کردیگی۔ پیپلزپارٹی نے اسکے ردعمل میں رینجرز کے اختیارات کے حوالے سے سندھ اسمبلی میں اکثریت رائے سے ایک قرارداد منظور کرلی جس کے تحت رینجرز کے اقدامات کو وزیراعلیٰ سندھ کے تابع کر دیا جو بادی النظر میں سیاسی لوگوں کیخلاف کسی کارروائی کیلئے رینجرز کے پَر کاٹنے کے مترادف تھا۔ اسکے باوجود ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبر نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے بے لاگ اپریشن جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا اور کہا کہ اپریشن کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہونے دی جائیگی تاہم رینجرز کی جانب سے سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹ سے یہی تاثر ملتا ہے کہ رینجرز کو اپریشن کیلئے سندھ حکومت اور پولیس کی جانب سے متعدد رکاوٹوں کا سامنا ہے جو رینجرز کے گرفتار کئے گئے ملزمان کیخلاف ناقص تفتیش کرکے عدالتوں سے انکی رہائی کا اہتمام کررہی ہے۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر عاصم حسین کیخلاف کی گئی پولیس تفتیش بطور مثال پیش کی جا سکتی ہے جس میں انہیں متعدد مقدمات سے خارج کیا گیا اور بالآخر رینجرز نے خود انہیں تحویل میں لے کر ٹرائل کورٹ میں پیش کیا۔ اس تناظر میں کراچی اپریشن کے حوالے سے سندھ حکومت رینجرز کے مدمقابل آتی محسوس ہوتی ہے اور اپریشن میں کامیابیوں سے متعلق رینجرز کا کریڈٹ بھی پولیس کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کا سپریم کورٹ نے بھی گزشتہ روز نوٹس لیا ہے۔ اگر وفاق اور پنجاب کی حکمران مسلم لیگ (ن) اور سندھ کی حکمران پیپلزپارٹی ملک کے خلفشار والے علاقوں میں مکمل قیام امن اور معاشرے کو کرپشن کے ناسور سے نجات دلانے میں مخلص ہے جس کیلئے انکی قیادتیں داعی بھی رہتی ہیں تو پھر متعلقہ اداروں کو فری ہینڈ دینا ضروری ہے کیونکہ اسکے بغیر مثبت نتائج حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ اگر سندھ حکومت رینجرز کے ٹارگٹڈ اپریشن میں متعلقہ ادارے کی تمام ضروریات پوری کرتی اور اسکے ساتھ مکمل تعاون کرتی تو اب تک یہ اپریشن نتیجہ خیز ثابت ہو چکا ہوتا اور اسکے اختیارات اور مدت میں توسیع کی ضرورت ہی پیش نہ آتی جبکہ اب اپریشن کو ادھورا چھوڑنا سکیورٹی اداروں کی ناکامی سے تعبیر ہوگا جس کے اپریشن ضرب عضب پر بھی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ رینجرز کراچی اپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے میں پرعزم ہے جس کا ڈی جی رینجرز نے دوٹوک اعلان بھی کیا ہے تو اسے اپنے لئے ناموافق حالات کی پرواہ کئے اور اپنے اختیارات میں مزید اضافے کا تقاضا کئے بغیر اپریشن جاری رکھنا چاہیے۔ اسکی جانب سے اختیارات میں مزید اضافے کی بات ہو گی تو اس سے سول حکومت کے مکمل ناکام ہونے کا تاثر پیدا ہوگا۔
Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 304660 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More