پھر انقلاب ضرور آئے گا

الیکشن 2013 کے بعد کئی سیاسی جماعتوں نے الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیا، خان صاحب نے بھی میاں نواز شریف کو مبارکباد دینے کیساتھ ساتھ چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کیااور آخر تک ڈٹے رہے،خان صاحب انہی دنوں سے تبدیلی کا نعرہ لگاتے لگاتے نہیں تکتا، ـــ ’’انقلاب آئے گا‘‘ ان کا پسندیدہ نعرہ بن چکا ہے،ملکی نظام کو تبدیل کرنے کیلئے انہوں نے کئی جلسے بھی کئے ، دھرنہ بھی دیااور حکومت سے کچھ مطالبات بھی کئے جو ابھی تک ایک مطالبہ بھی پورا نہیں ہوا‘ جلسے کرنا غیر قانونی کام نہیں اور نہ ہی مطالبات غلط تھے لیکن دھرنہ دینا اور پارلیمنٹ سے استعفے لینا شائد انکی سب سے بڑی غلطی تھی ـ‘میں خان صاحب سے مخالفت نہیں رکھتا لیکن مجھے انکی طریقہِ کار سے اختلاف ضرور ہے‘اس لئے کہ میں سمجھتا ہوں کہ تبدیلی اپنے آپ سے شروع ہوجاتی ہے‘تبدیلی کیلئے ہر انسان کو اپنا اخلاق اور کردار بدلنا ہوگا‘وہ ایسی قوم کیلئے ایسے ملک میں تبدیلی لانا چاہتا ہے جس ملک میں واٹرکولر پررکھے گلاس کو زنجیر سے باندھنا پڑے اور لوگوں کو مسجدوں میں اپنی آخرت سے ذیادہ اپنے جوتوں کی فکر ہو وہاں صدر یا وزیر اعظم کی تبدیلی سے کیا پرق پڑتا ہے؟شائد وہ اکبر بادشاہ کی طرح سوچتا ہے کہ قوم ایماندار ہے۔

جلال الدین اکبر 1542ء میں عمر کوٹ کے مقام پر پیدا ہوا‘ باپ کی وفات کے وقت اسکی عمر چودہ برس تھی‘اس نے بادشاہت میں کئی علاقے فتح کئے‘ اسکی سلطنت بنگال سے افغانستان تک اور کشمیر سے دکن تک پھیل گئی تھی‘ اُن کا خیال تھا کہ ایک اقلیت کسی اکثریت پر اس کی مرضی کے بغیر ذیادہ عرصے تک حکومت نہیں کر سکتی‘انہیں فخر تھا کہ میرے شہری بڑے ایماندار ہیں‘بیریل نے کہا کہ ہم اس بات کو آزما لیتے ہیں‘ بادشاہ کے حُکم پر حکام نے شہر میں ایک جگہ پر ایک بڑا ٹینک رکھا اور اعلان کر دیا کہ ہر شہری رات کے اندھیرے میں اس ٹینک میں ایک ایک جگ دودھ ڈالے گا‘ اس ٹینک کے نزدیک یا دورکہیں کسی اہلکارکو متعین نہ کیا گیا‘رات کے اندھیرے میں شہری آتے رہے اور بھرے ہوئے جگ ٹینک میں انڈیلتے رہے‘سب شہریوں نے رات بھر بادشاہ کے حکم پر عمل کیا‘ صبح جب پتہ چلا تو سارا ٹینک پانی سے بھرا ہوا تھا‘

تقریبا 13سال یا اس سے تھوڑا آگے پیچھے میں ایک کالم پڑھ رہا تھا‘ کالم نگارکا نام یاد تو نہیں البتہ اس نے ایک چھوٹی سی کہانی بیان کی تھی‘ ایک بوڑھا مر رہا تھا ‘ اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ‘وہ اس بات پر نہیں رو رہا تھاکہ وہ مر رہا ہے نہ اس نے کبھی کوئی غلط کام کیا تھا‘انہوں نے اپنی ساری زندگی نظام کو تبدیل کرنے کیلئے وقف کی تھی‘مرنے کیوقت وہ رشتہ داروں سے کہہ رہا تھا کہ آج مجھے اندازہ ہوا‘میں نے ہمیشہ نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کی اور میں کامیاب اس لئے نہیں ہوا کہ میرا طریقہ غلط تھا‘ مجھے چاہئے تھا کہ سب سے پہلے میں اپنے آپکو تبدیل کر دیتا‘ پھر اپنے گھر والوں کو‘پھر اردگرد لوگوں کو ‘ تو اسطرح نظام خودبخود تبدیل ہو جاتا‘ انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ ہم صرف دوسروں کو تبدیل دیکھنا چاہتے ہیں نہ کہ اپنے آپکو۔خان صاحب بھی ٹھیک اسی طرح کر رہا ہے‘ وہ نظام کی تبدیلی چاہتا ہے اور وہ غلط بھی نہیں ہے‘اس نظام کو تبدیل کرنا چاہئے مگر اس کیلئے پہلے قوم کو تبدیل کرنا ہوگا‘اگر قوم اکبرکی قوم کیطرح ہو تو تبدیلی لانا نا ممکن ہے‘ اور بوڑھے آدمی کی کہانی سے مجھے خان صاحب کیلئے بھی ڈر لگتا ہے‘سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں۔۔۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ میں بھی اسی قوم کا حصہ ہوں اور میں بھی مختلف نہیں ہوں‘ میں بھی ایک ایسی قوم کا حصہ ہوں جو ایمان میں مُنافقت‘ رشتوں میں مادیت‘ دودھ میں پانی‘شہد میں شیرہ‘ مرچ میں سُرح اینٹیں‘ دیسی گھی میں کیمیکل‘ ہوٹلوں میں مُردار گوشت‘ دوستی میں خود عرضی‘ امتحانات میں نقل‘ نوکری میں رشوت اور سفارش‘ ناپ تول میں کمی‘بجلی کی بل میں ہیرا پھیری‘ٹیکس کی ادائیگی میں چوری‘ بات بات میں جھوٹ اور عبادت میں ریا کاری کرتے ہیں اور پھر بھی کہتے ہیں کہ حکمران ٹھیک نہیں!!!!!

اب اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ملک اور معاشرے کی اصلاح جلسوں‘ لانگ ماچ اور دھرنوں سے نہیں بلکہ اپنی ذات کی شروعات سے کرنی چاہئے‘اگر ہم میں سے ہر کوئی یہ عہد کریں کہ میں لڑائی جھگڑا ختم کرنے میں پہل کروں گا‘نہ رشوت لوں گا اور نہ ہی رشوت دونگا‘صفائی کا خوب خیال رکھوں گا‘ضروت مند اور بے سہارا لوگوں کی مدد کروں گا‘ٹریفک قوانین اور ڈرائیونگ کے اصول کی پابندی کروں گا‘ قوم پرستی نہیں کروں گا‘دھوکہ دہی اور فریب نہیں کروں گا‘ ملکی قوانین کی پاسداری کروں گا اور اﷲ کے رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقوں پر اپنی زندگی بسر کروں گا ‘ اگر ہم یہ سب کچھ کرینگے تو پھر تبدیلی ضرور آئیگی ‘انقلاب ضرور آئے گا۔انشاء اﷲ