غریب شماری

 غریب خوشیاں منائیں، خوشی سے پھولے نہ سمائیں، بھنگڑے ڈالیں، چاہیں تو اسی مستی میں لوٹ پوٹ بھی ہوسکتے ہیں، لوٹ پوٹ مٹی پر ہوں یا بستر پر ، یہ ان کی صوابدید پر ہے۔ ان کے لئے خوشخبری ہے کہ حکومتِ پاکستان نے غریبوں کے بارے میں ایک انقلابی قدم اٹھانے کا فیصلہ کرلیا ہے، یہ قدم پندرہ برس بعد اٹھایا جارہا ہے۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان میں غربت کے بارے میں سروے کیا جائے، دیکھا جائے کہ پاکستان میں کتنے غریب ہیں۔ وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ یہ سروے بین الاقوامی معیار کا کروایا جائے گا۔ غربت کا معیار پرکھنے کے لئے دو چیزوں کا خیال رکھا جائے گا، اول ، آمدنی۔ دوم، غذائیت۔ کہا جاتا ہے کہ گزشتہ سروے میں جو کوئی 2150 کیلریز روزانہ استعمال کرتا تھا، اسے غریب گِنا جاتا تھا، اب 2350کیلریز روزانہ استعمال کرنے والوں کو غریب تصور کیا جائے گا۔ دوسری طرف یہ بات بھی زیر غور ہے کہ ایک سے دو ڈالر روزانہ کمانے والوں کو غریب قرار دیا جائے گا۔

اس سروے کے بارے میں حتمی تاریخ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف دیں گے۔ حکومت عوام کو غریبوں کے بارے میں عموماً کچھ نہ کچھ معلومات دیتی رہتی ہے، قوم کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں چالیس فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس لکیر کے بارے میں اندازہ نہیں کہ اس کا حساب کتاب کہاں سے شروع ہوتا ہے اور کہاں ختم؟ خبر میں یہ تو بتایا گیا ہے کہ یہ سروے عالمی معیار کا ہوگا، گویا پاکستان کے غریب بھی خود نہ سہی کم از کم اپنے بارے میں ہونے والے سروے میں بین الاقوامی برادری کا حصہ بن سکیں گے، وہ بھی فخر کرسکیں گے کہ وہ عالمی دھارے میں شامل ہو چکے ہیں۔ اس طرح پاکستانی حکمران بھی فخر سے کہہ سکیں گے کہ انہوں نے اپنے ملک کے غریبوں کا معیارِ زندگی بلند کردیا ہے۔ تاہم خبر سے یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ غربت کے بارے میں معلومات لے کر اور غریبوں کی تعداد کا اندازہ لگا کر اور یہ جانچ کر کہ کونسا غریب غربت کے کس درجے پر ہے، حکومت کونسا قدم اٹھائے گی جس سے ان کی غربت دور ہوجائے گی، یا اس میں کمی واقع ہوجائے گی؟ ان کی آمدنی بڑھانے کے لئے کونسے اقدام کئے جائیں گے؟ ان کی کیلریز کے لئے ان کے لئے کونسی غذا تجویز کی جائے گی؟ ان کا معیارِ زندگی مزید بلند کرنے کے لئے کونسا میگاپراجیکٹ شروع کیا جائے گا؟ یقینا سب کچھ حکومت نے سوچ رکھا ہوگا، اسی لئے تو یہ سروے ہونے جارہا ہے۔ پاکستان میں مردم شماری تو شاید نہ ہوسکے، مگر ’غریب شماری‘ ہی سہی۔

حکومت ملک میں غریب شماری ضرور کرے، اس کے لئے سوچے ہوئے منصوبوں پر عمل بھی ضرور کرے، کیونکہ حکومت نے جو کرنا ہوتا ہے، وہ کر ہی گزرتی ہے، کیونکہ وہ اپنے فیصلوں کو ہی حرفِ آخر قرار دیتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ اگر ’’امیر شماری‘‘ کا بھی فیصلہ کرلیا جائے تو غربت کو کچھ افاقہ ہوجائے گا۔ پاکستان میں ٹیکس دہندگان کے بارے میں بہت سے تبصرے ہوتے رہتے ہیں، بے شمار اہلِ ثروت ٹیکس ہی نہیں دیتے، وہ ٹیکس نیٹ ورک میں ہی شامل نہیں، وہ گوشوارے ہی نہیں بھرتے۔ ہمارے بہت سے معزز ارکانِ پارلیمنٹ بھی ٹیکس نہیں دیتے۔ حکومت دعوے کرتی اور دھمکیاں دیتی رہتی ہے، کہ یوں کردیں گے ووں کردیں گے، مگر ہوتا کچھ بھی نہیں۔ شاید حکومت ایسے لوگوں کو پکڑنا اور ان سے ٹیکس لینا ہی نہیں چاہتی، بس جو ہتھے چڑھ جائے اسی کو نچوڑنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ ٹیکس دینے کے قابل کون ہے؟ اس کا اندازہ لگانے کے لئے کسی سائنس کی ضرورت نہیں، گاڑیاں موجود ہیں، غریب خانے ہیں، کاروبار ہیں، اگر نہیں تو ٹیکس نہیں۔ مگر کیا کیجئے کہ اگر ان لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا جاتا تو اس کے پیچھے کسی نہ کسی کا ہاتھ تو ہوگا؟ اور اگر حکومت ہمت کرے کہ امراء سے ٹیکس لے اور غریبوں کے لئے وسائل پیدا کرے تو مسئلے کا حل خود ہی نکل آئے گا۔ مگر ہوگا یہی کہ حکومت اول تو غریبوں کا شمار ہی نہیں کرے گی اور اگر ایسا ہو بھی گیا تو ان کے لئے کوئی منصوبہ نہیں بنے گا۔ دوسری طرف امراء سے ٹیکس کا سلسلہ شروع نہیں ہوسکے گا، اگر یہ بھی ہو گیا تو بھی ٹیکس کی رقم غریبوں تک نہیں پہنچ پائے گی، کیونکہ حکمرانوں کو اپنی عیاشیوں کے لئے بے حدو حساب دولت چاہیے۔ سادگی کے نعرے وہ لگاتے ہیں، مگر عمل کے لئے قوم کو مشورے دیتے ہیں۔ اس سب کچھ کے باوجود غریبوں کو مایوس نہیں ہونا چاہیے،وہ خوش ہوں کہ حکومت اور اپوزیشن کی سیاست ان غریبوں کی وجہ سے ہی تو چمکتی ہے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 431944 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.