اداروں کی نجکاری

سابق گو رنر سندھ ، شہسوارِ طِبّ اور خدمتِ خلق میں نمایا ں خدمات سر انجام دینے والی شخصیّت مرحوم حکیم سعید نے وطنِ عزیز کے چار بڑے شہروں میں ہر ماہ دانشوروں کو جمع کر کے شوریٰ ہمدرد کے نام سے ایک ایسے پلیٹ فارم مہیا کرنے کی روایت قائم کی ہے جس میں قومی امور سے متعلق نہایت اہم مو ضوعات پر بحث کی جاتی ہے ،اراکین شوریٰ کی سفارشات حکومت کو ارسال کی جاتی ہیں۔ اس مرتبہ زیرِ بحث مو ضوع ’’ اداروں کی نجکاری ‘‘ تھا۔اس لئے کہ یہ بحث گذشتہ کئی روز سے حکو متی حلقوں،حزبِ اختلاف اور معاشی ماہرین کے درمیان کا فی زور و شور سے جاری ہے۔ایک عام پاکستانی پسند و نا پسند اور اعداد و شمار کے کھیل سے قطعی نا واقف بھی ہے اور صورتِ حال سے پریشان بھی ، وہ ادارے جو ماضی میں پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے تھے ، اب وہ مفلوج ہو تے جا رہے ہیں جس کی مثال پی آئی اے، پاکستان سٹیل مِل، ریلوے، کئی پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیاں اور پاکستان اسٹیٹ آئل جیسے قومی ادارے ہیں ۔

ایک رائے یہ تھی کہ سرکاری اداروں کی فروخت سے پاکستانی معیشت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے کیونکہ یہ بیمار ادارے ہر سال پاکستانی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں ، مثلا پاکستان اسٹیل ملز کا سالانہ خسارہ 100بلین روپے سے زیادہ ہے۔ایک اندازے کے مطابق ہم ہر سال ان بیمار تجارتی اور پیداواری یو نٹوں کی وجہ سے 500 بلین روپے کی آمدن سے محروم ہو رہے ہیں اگر ان کی نجکاری کی جائے تونہ صرف یہ کہ ملکی معیشت درست سمت میں گا مزن ہو سکتی ہے بلکہ ان کی کار کردگی میں کئی گنا بہتری آنے کا بھی امکان ہے ۔ جیسے پی ٹی سی ایل کا ادارہ قبل از نجکاری ہدفِ تنقید تھا مگر پرائیو ٹایز ہو نے کے بعد اس کی کارکردگی کئی گنا نڑھ گئی اسی طرح صوبہ خیبر پختونخوا میں ماضی میں گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس کی بسیں چلتی تھیں تو وہ آمدن کی بجائے خسارے میں ہوتی تھیں۔ مگر آج ڈائیو جیسے ٹرانسپورٹ سروس ہر سال کروڑوں کما رہی ہیں اور ان کی کارکردگی بھی قابلِ تعریف ہے۔آج نیشنل بنک کے پاس سب سے زیادہ وسائل مو جود ہیں مگر ان کی کارکردگی اور سروسز نجی بنکوں کے مقابلہ میں بہتر نہیں ہے۔اسی طرح سرکاری تعلیمی ادارے نجی تعلیمی اداروں کے مقابلہ میں بہتر ریزلٹ نہیں دے پا رہے ہیں،یہی حال سرکاری ہسپتالوں کا ہے۔ بناء برایں اگر ان کو نجی ملکیت میں دے دیا جائے تو نہ صرف یہ کہ ان کی آمدن میں کئی گنا اجافہ ہو گا بلکہ عوام کو ان اداروں سے بہتر خدمات میسر ہو ں گی۔

مگر دوسری طرف ایک مختلف رائے تھی،وہ یہ کہ قومی اداروں کی نجکاری سے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی تجوریاں بھری جاتی ہیں حکمران بد عنوانی کا قلع قمع کرنے ، سفارشی ملازمین کو نکالنے اور اہل لوگوں کو میرٹ پر ان اداروں میں بھرتی کے بجائے ان ادارون کو فروخت کر کے مالیاتی اسکینڈلز کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔ہونا تو یہ چا ہیئے کہ ان اداروں کی کارکردگی کو بہتر کیا جائے، مانیڑینگ کا نظام بنایا جائے۔اگر حکمرانوں کے ذاتی کارخانے منافع کما رہے ہیں تو کیا وجہہے کہ سرکاری ادارے خسارے میں چل رہے ہیں۔

یہ سب خراب گو ننس کا نتیجہ ہے یہ حکومت کی کمزوری کی دلیل ہے۔قومی غیرت اور حمیّت نجکاری کی اجازت نہیں دیتی۔ آخر ہم اپنے اہم ادارے دوسروں کو فروخت کرکے اپنے آپ کو جدید غلامی میں دھکیل رہے ہیں۔باوثوق زرائع کے مطابق اڑتالیس اہم قومی اداروں کی نجکاری کی منصوبہ بندی کی گئی ہے ۔جس میں نیتوں کا کھوٹ نظر آرہا ہے۔

مناسب ہو گا کہ حکومت اگر ناگزیر وجوہات کی بناء پر کسی ادارے کی نجکاری کرنا چا ہتی بھی ہے تو اس کے لئے باقاعدہ ایک میکا نزم وضع کرے ایک کرائیٹریا مقرر کرے،جس میں شفا فیت نظر آئے ، یہ نہ ہو کہ حکومت کے دل میں جو آیا، سو کر دیا۔ہمیں عا لمگریت کے خلاف آواز بلند کرنا ہو گی،ہمیں کسی غلط مہم جو ئی کا حصہ نہیں بننا چاہئیے۔قومی اداروں کی نجکاری کے حوالے سے ہمیں پھونک پھونک کر قدم رکھنا چا ہیے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ نجکاری کے معا ملات کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں زیرِ بحث لائیے اور تمام کاروائیوں کے نتائج کو میڈیاکے ذریعے عوام کے سامنے لائے۔ ملکی سرمایہ کاروں کو ترجیح دی جائے غیروں پر اپنے اثاثے بیچنے کی ضرورت نہیں۔حکومت جو بھی قدم اٹھائے،نیک نیتی سے اٹھائے تاکہ اندھیروں سے اجالے کی طرف سفر جاری و ساری رہے۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 285852 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More